دسمبر کی خنکی میں ایک کالم اپنے بچپن کے دسمبر کے لیے


ماہ دسمبر کے آخری عشرے کا آغاز ہو چکا، دن ہیں کہ دھندلے ہوئے جاتے ہیں، اگر آپ کسی سرسبز و شاداب گاؤں کے باسی ہیں تو علی الصبح فطرت کے اس قدر دل کش نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ روح تک سرشار ہو جاتی ہیں، ٹیوب ویل کا بہتا اچھلتا تازہ گرم پانی، پانی سے اٹھتی بھاپ، کھالوں میں بہتا شفاف آب رواں اور اس پہ بھاپ کے بادل، کھیتوں پہ چھایا کہرا، تاحد نظر پھیلی ہریالی، گندم کے ہم وار کھیت، اگتی سرسوں کے زرد پھولوں سے اٹے کھیت، جاڑے کی بیجی سبزیوں کے ہریالے قطعات ارضی، آگ کے الاوٴ کے گرد بیٹھے بزرگوں کی ٹولیاں، کھیتوں کو جاتی خواتین کے گروہ، ٹھنڈے ٹھار شبنم سے اٹے کھیتوں میں کام کرتے جفا کش کسان، پانی کے اطراف بیٹھے بگلوں کے جھنڈ، بیل گاڑیاں اور جانوروں کے کھلے تھان۔ ہر بار دیکھنے پر بھی یہ منظر ہمیں ازحد نئے اور بھلے معلوم ہوتے ہیں۔

دسمبر کی خنکی۔
سرسوں رت۔
سرد ہوا۔
پیلی پڑتی شام۔
دھندلی صبحیں۔
اڑتے پتے۔
اور
اداسی۔

کیا ہی دھندلے دھندلے، مدھم پڑتی دھوپ سے بھرپور دن ہیں۔ جانے کیوں یہ ایام ہمیں نوسٹیلجک کر دیتے ہیں۔ دسمبر ہمیں دور کہیں بچپن کے ان ایام میں لے جاتا ہے جب کھیت کھلیانوں میں سرسوں تب بھی یونہی پھولتی تھی، گندم کے ہریالے کھیت دور تلک یونہی پھیلے نظر آتے تھے، کہرے اور دھند بھرے دنوں کے بعد سورج اپنی تمازت سے لوگوں کے دلوں کو یونہی گرماتا تھا، طویل دھندلے دنوں کے بعد چمک دار دنوں میں مرد و زن اپنے کاموں کو سمیٹنے کے لیے یونہی گھروں سے نکل آتے تھے۔ ہر سو چہل پہل پھیلنے لگتی تھی، جانور دھوپ کی حدت میں انگڑائیاں لیتے تھے۔

گاؤں میں ہمارے گھر کے عین سامنے برساتی نالے کے ساتھ اور اس سے ملحقہ زمین داروں کے ڈیرے پر ہر جمعہ کو جب چاچا حاجی چڑھویا پھیری والا اپنی بوسیدہ سائیکل پر وارد ہوتا تو ہم اتاولے بچوں بالکوں کے رش اور ”چاچا! میڈی شے، چاچا! میڈی شے“ کی آوازوں سے رونق سی لگ جاتی۔ ہفتہ بھر سے جمع کی ہوئی چار آنے، آٹھ آنے کی ریز گاری سے کچے سیب، امرود، آٹے سے بنے سی پکوڑے، مرونڈا اور گچک لینے والے بچوں کا جم غفیر لگ جاتا۔

ہمارے گھر کے ساتھ قائم ٹبہ برڑہ کے سرکاری پرائمری سکول میں بچوں کی باآواز بلند حروف تہجی دوہرانے کی آواز ہوا کی دوش پہ سفر کرتی ہماری سماعتوں تک یکساں پہنچتی، دوا کم دو، دو دونی چار کی گردان بھی بارہا سننے کو ملتی۔ ہمارے گھر سے منسلک چچا جان کا گھر تھا، چویڑے کی کچی مٹی سے اساری گئی بیٹھک نما کمرے میں چچا حضور بخش سلائی مشین پر کپڑے سیتے یا اپنے سنگتیوں کے ساتھ حقہ پیتے نظر آتے، ریڈیو مسلسل چلے جاتا۔

انہی دنوں اگیتی کاشت کے ساگ کے پکنے کی خوشبوؤں سے ہر گھر معطر ہوتا، دریائے چناب اور برساتی نالے کے درمیان والے سرسبز و شاداب قطعہ زمین پر بکریوں کے ریوڑ جابجا نظر آتے، بیل گاڑیوں پہ برسیم کے گٹھے در گٹھے لدے نظر آتے۔

گاؤں میں شام جلدی ہو جاتی، پرندوں خصوصاً چڑیوں کے غول کے غول ٹبہ برڑہ کے قدیمی قبرستان میں اپنے آشیانوں میں پناہ لینے واپس آنے لگتے، مردو زن کھیتوں اور ڈیروں سے لوٹنے لگتے، لوٹنے والوں کے سروں پہ بالن کی لکڑی کے گٹھے اور دودھ کی گاگریں جمی ہوتیں۔

ڈیرے سے ملحقہ کچی مسجد میں چاچا صوفی دیا جلاتا تو گھر میں وڈی اماں لالٹین جلا کر طاق میں رکھنے کی تیاری کر رہی ہوتیں، افق کا کنارہ گلال ہوتا تو برساتی نالے کا پانی افق کی لالی سے کچھ گلال مستعار لے کے شعلہ رنگ ہو جاتا، درختوں کی شاخیں سر نیہوڑا لیتیں، تندور جلنے لگتے، تندور میں پکتی روٹی کی مہک سارے گھر میں پھیل جاتی، لالٹینوں کی جل اٹھتی لو میں بچے بالے لحافوں میں دبک جاتے۔ بزرگ کچی کوٹھڑیوں میں آگ کے الاؤ کے گرد محفلیں جما لیتے۔

وڈی اماں نے عدم آباد کا رخت سفر باندھا، بھائی جان شبیر اور بھائی جان اختر کی یکے بعد دیگرے وفات نے گاؤں کے گھر کو مقفل کر دیا ہے، سنا ہے دروازوں کو دیمک چاٹ رہی ہے، صحن کو کلر و سیم نے آ لیا، صحن میں لگے بیری، کھجور، آم کے درخت اور گلاب کے پھولوں کی کیاریاں ٹنڈ منڈ ہو گئیں، غم روزگار سے جو فرصت ملے اور شہر کی بے ہنگم زندگی سے جان چھوٹے تو گاؤں جا کر اپنے گھر کے در و دیوار کو چوموں، جانے کیوں آج کل شدت سے گاؤں کا ایک چکر لگانے، اپنا ویران گھر دیکھنے اور اپنے پرکھوں کے قبرستان میں حاضری کی خواہش دل میں امڈی چلی جا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments