لبرل ازم اور ہم سب


ایک ایسا لفظ جو سنتے ہی ہمارے دماغ میں ایک ہی خیال آتا ہے، مادر پدر آزادی اور بے حیائی، ۔ یعنی لبرل آدمی معاشرے میں فحاشی کا علمبردار ہو گا، بگاڑ پیدا کرے گا، فیملی سسٹم کا ناقد ہو گا اور اسی وجہ سے یہ لفظ ہمارے ہاں بطور گالی مستعمل ہو تا ہے۔

اگر اس فلسفے کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس کا آغاز یورپ کی ”ایج آف اینلائٹمنٹ“ کی سیاسی تحریک سے ہوا۔ جان لوک کو اس کا بانی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اس فلسفے پر کتاب بھی لکھی۔

ان کے مطابق ہر شخص کو قدرتی طور پر زندگی، آزادی اور مال و دولت کے حقوق حاصل ہیں اور ریاست عمرانی معاہدے کے تحت اس کو پورا کرنے کی ذمہ دار ہے، قانون سازی بھی پوچھ کر کی جائے، اور اگر ریاست اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رتی ہے تو عوام بھی ایسے حکمران کے خلاف بغاوت کرے، اگرچہ اس بات پر ان کو انتہا پسند بھی کہا گیا لیکن ان کو ان بنیادی حقوق کی بات پر مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔

لبرل ازم کے مطابق سب کو بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب اور جنس شخصی آزادی حاصل ہونی چاہیے اور ہر انسان اپنے فیصلوں کو لے کر معاشرتی دباؤ سے بالاتر ہو (جو کہ ہونی بھی چاہیے ) ، تجارت بھی آزاد ہو، سرمایہ دارانہ نظام ہو (استحصالیت کی وجہ سے اس کا معاشی نظام قابل تنقید بھی رہا ہے ) ۔ ریاست کی مداخلت کم سے کم اور انفرادی آزادی زیادہ سے زیادہ ہو۔

حکومت سازی بھی عوام کی مرضی سے ہو (یعنی جمہوریت ہو) ، سب کے لیے قانون برابر ہو اور یکساں جوابدہی ہو، سب کو یکساں اظہار رائے حاصل ہو، تمام انسانیت برابر ہے لہذا قوانین بھی یکساں و بین الاقوامی ہوں، تنظیم سازی کا حق ہو (چاہے سیاسی ہو، معاشرتی یا پھر معاشی) ، میڈیا بھی آزاد ہو، عدلیہ خود مختار اور ریاستی دباؤ سے بالاتر ہو، تعلیم پر بھی سب کا حق ہے۔ اسی طرح خواتین کو بھی مساوی حقوق اور مواقع فراہم کیے جائیں۔

اسی طرح اگر مذہبی آزادی کی بات کی جائے تو بھی یہ نظام تمام مذاہب کے پیروکاروں (پھر چاہے وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں ) کو ہر طرح کا تحفظ، برابری اور آزادی فراہم کرتا ہے۔

مختصراً ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جہاں زیادہ فیصلوں کا حق فرد کو حاصل ہو، ناں کہ ریاست یا معاشرے کو۔

اب اگر لبرل ازم کا پورا تصور پڑھا جائے تو سوائے معاشیات کے چند پہلوؤں کے کہیں سے بھی قابل تنقید نہیں، لیکن ہمارے ہاں ”لبرٹین“ (ایسا شخص جو اخلاقی اصولوں کی پاسداری اور پرواہ کیے بغیر اپنی جنسی خواہشات کے تابع اور مشغول رہتا ہے ) اور لبرل ازم کے معنی کو ملا دیا گیا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ خود کو لبرل کہلوانے سے کتراتے ہیں۔ اگر کوئی با شعور، پڑھا لکھا شخص خود کو لبرل کہہ بھی دے تو اسے مغربی ایجنٹ کہا جاتا ہے جبکہ یہ نظام بنیادی انسانی حقوق (جن میں سے اکثر سے ہماری اکثریت خود بھی لا بلد ہیں ) پر مبنی ہے۔

بقول آئین سٹائن کے : ”آزادی صرف اس کے لیے کی جانے والی مسلسل جد و جہد سے ہی ممکن ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments