آزاد کشمیر میں جنگلات کی کٹائی اور ماحولیاتی خطرات


ریاست جموں و کشمیر کا حصہ آزاد کشمیر قدرتی وسائل سے مالامال اور انتہائی خوبصورت خطوں میں شمار ھوتا ھے۔ 1947 میں جب برصغیر تقسیم ھوا ۔ تو اس کے اثرات ریاست جموں و کشمیر پر بھی پڑے۔ اور جبری تقسیم نے نہ صرف ریاست کے سینے پر خونی لکیر کھینچی۔ بلکہ یہاں کے باشندوں کو بھی جبراً جدا کر دیا۔ میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں۔ اکیسویں صدی میں جمہوریت کے علاؤہ فی الحال ایسا کوئی متبادل نظام موجود نہیں جہاں لوگوں کی رائے کا احترام کیا جاتا ھو۔ میری مراد حقیقی جمہوریت سے ھے۔ لیکن مجھے اس میں کوئی  آر نہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ کے طرز حکمرانی سے لاکھ اختلاف کے باوجود ان کے انسان اور ماحول دوست اقدامات کو عام عوام تک نہ پہنچاؤں ۔میں ان کی حکومت کا تقابلی جائزہ اس عہد کی ہم عصر ریاستوں اور حکومتوں سے کروں گا۔ نہ کہ آج کل کے ترقی یافتہ ممالک سے ۔مہاراجہ ہری سنگھ نے جنگلات کو محفوظ رکھنے کے لیے خصوصی قوانین بنا رکھے تھے۔ جنگلات سے درخت کاٹنے پر پابندی عائد تھی۔ حتیٰ کہ ملکیتی زمینوں سے بھی درختوں کی معقول وجہ کے بغیر کٹائی بھی منع تھی۔ اس کے علاؤہ نوکدار جوتے پہن کر جنگلات میں داخلہ ممنوع تھا۔ تاکہ نئے اگنے والے پودوں کو نقصان نہ پہنچے۔ مقامی لوگوں کو مخصوص علاقوں میں جانوروں کے لئے چراگاہیں مہیا کی گئی تھی۔ تاکہ جانور گھاس چرتے ھوئے نوزائیدہ پودوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ جانوروں کو چراگاہیں تک جانے کے لئے بھی مخصوص راستے بنائے گئے تھے۔ جن کو مقامی زبان میں گیل کہتے ہیں۔

کسی نے کیا خوب کہا ھے کہ کامیابی کے ہزاروں وارث ھوتے ہیں اور ناکامی لاوارث ھوتی ھے۔ حالات کے جبر اور عالمی اور علاقائی طاقتوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت ختم کر دی۔  اور ہماری دھرتی ماں کو جبراً تقسیم کر دیا۔ ورنہ ریاست جموں و کشمیر آج بھی آزاد اور خوشحال ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ھوتی۔ مجھے حیرت تب ھوتی ھے جب ایسے لوگ جن کو اپنے گھر والے بھی نہیں پہچانتے۔ جو خوش قسمتی سے مغربی ممالک میں پہنچ گئے۔خود ملکہ وکٹوریہ، اور دیگر ممالک کی بادشاہوں کی وفاداری کا حلف اٹھا کر مختلف ممالک کی شہریت لے کر۔ قابض قوتوں کی ایماء پر مہاراجہ ہری سنگھ کو گالیاں دیتے ہیں۔ جس نے انھیں درجہ اول کے شہری کا درجہ دیا ۔ جس نے انساں اور ماحول دوست قوانین اور حقوق دئے۔ اسی لئے کہتے ہیں۔کہ خدا اس کے شر سے محفوظ رکھے جس سے آپ نے نیکی کی ۔1947 میں تقسیم ریاست جموں و کشمیر تک ایک اندازے کے مطابق آزادکشمیر کے تقریبا ساٹھ سے ستر فیصد سے زیادہ علاقے پر جنگلات تھے۔ جن میں کونیفرز، دیودار دیار ، چیڑ ، بیاڑ ، چنار ، اخروٹ ، املوک ، صنوبر ، شہتوت ، پھلدار درختوں کے علاؤہ بےشمار قیمتی درخت شامل تھے۔ اس کرہ ارض کی خوبصورتی صرف اور صرف درختوں کے مرہونِ منت ہے۔ جس رفتار سے یہ درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ ہمارا علاقہ مکمل طور پر ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ھے۔

یوں تو نام نہاد آزاد کشمیر میں تمام حکومتیں دعوے کرتی آئی ہیں۔ کہ جنگلات کی حفاظت ان کی اولین ترجیح ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ھے ۔ٹمبر مافیا ایک لمبے عرصے سے سرگرم عمل ھے ۔ جس کی پشت پناہی بااثر لوگ اور مقامی انتظامیہ کرتی ہے ۔ گزشتہ 75 سالوں سے کھربوں روپے مالیت کے جنگلات کاٹ کر سمگل کئے گے ۔ اس گھناونے جرم میں ٹمبر مافیا کے علاؤہ مقامی حکومتیں ، انتظامیہ اور جرائم پیشہ عناصر برابر کے شریک ہیں۔ اگر حکومت اور انتظامیہ کی ملی بھگت نہ ھو تو سالانہ اربوں روپے مالیت کی لکڑی براستہ سڑک کیسے سمگل ھوتی۔سرکاری جنگلات کی کٹائی کے علاؤہ سرکاری زمینوں اور جنگلات پر قبضہ مافیا نے ناجائز تعمیرات کر رکھی ہیں ۔ اگر کبھی مقامی لوگ جرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ انتظامیہ کو آگاہ کر بھی دیں ۔ تو بظاہر کاروائی کا کچھ ڈرامہ رچایا جاتا ھے۔ اور پھر ملی بھگت سے معاملے کو دبا دیا جاتا ھے۔کچھ دنوں کے بعد پھر حسب معمول قیمتی درختوں کو کاٹ کر لکڑی سمگلنگ کا سلسلہ جاری وساری ھو جاتا ھے۔ چونکہ آزادکشمیر کے بعض علاقوں میں سردیوں میں شدید سردی ہوتی ہے ۔ ایسے میں لوگوں کو مجبوراً اپنی ملکیتی زمینوں سے درخت کاٹنے پڑتے ہیں۔ تاکہ لکڑی کو ایندھن کے طور پر جلا سکیں۔اس کے علاؤہ ڈیموں کی تعمیر اور ہیوی الیکٹرک ٹرانسمشن لائنز بچھانے کے لئے بھی صدیوں پرانے درختوں کو کاٹ دیا گیا۔

اسلام آباد کی کئی حکومتوں نے آزاد کشمیر کے لوگوں سے وعدے کئے کہ تمام شہروں کو قدرتی کیس فراہم کی جائے گا۔ لیکن یہ وعدے کبھی وفا نہیں ھوئے۔ قدرتی گیس کا نہ ھونا۔بھی جنگلات کی کٹائی کا بڑا سبب ھے۔ کیونکہ شدید سردی میں لوگوں کے پاس لکڑی کو ایندھن کے طور پر جلانے کے علاؤہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ۔عالمی سطح پر معیار قائم کیا گیا ھے۔ کہ کسی بھی ملک کے تقریباً 20 سے 25 فیصد رقبے پرجنگلات کا ہونا ضروری ہے۔ جب کہ آزاد کشمیر میں پانچ فیصد رقبے پر ہی درختوں کے ذخائر بچے ہیں۔ اور پاکستان کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ جنگلات کی کٹائی ماحولیاتی تباہی، آلودگی، اور کاربن ڈائی آکسائڈ کے اضافے کا باعث بنتی ھے۔ درخت کاربن ڈائی آکسائڈ کو اپنے اندر جذب کر کے اُسے تازہ آکسیجن میں تبدیل کرتے ہیں۔ جب درختوں کو ہی کاٹ دیا جاتا ھے ۔ تو آلودگی میں اضافہ فطری بات ھے ۔درخت حیاتیاتی تنوع کے لیے بہت اہم ہیں۔ درحقیقت جنگلات حیاتیاتی تنوع کے سب سے زیادہ حقیقی مرکزوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جانوروں سے لے کر پرندوں، کیڑے مکوڑوں، امبیبیئنز اور پودوں تک کی بہت سی نایاب اور نادر انواع کا مسکن ہیں۔زمین کے 80 فیصد جانور اور نباتات کا انحصارجنگلوں پر ھے۔ وسیع پیمانے پر جنگلات کو تباہ کر کے پورے ماحولیاتی نظام کو خطرے میں ڈالا جا رہا ھے ۔اور قدرتی ماحولیاتی نظام میں عدم توازن پیدا کیا جا رہا ھے ۔نہ صرف انسانی زندگی کو خطرات لاحق ہیں بلکہ نایاب جانور، پرندے، حشرات اور نباتات تیزی سے معدوم ھو رہے ہیں۔ قدرتی ماحولیاتی نظام پیچیدہ ھے۔ پورا ایک ایکو سسٹم ھے۔انسانوں، جانوروں ، پرندوں، حشرات چھوٹے بڑے تمام جانداروں کا جنگلات پر انحصار ھے۔ جنگلات چھوٹے درختوں، پودوں اور قیمتی جڑی بوٹیوں کے لیے سایہ اور مرطوب درجہ حرارت فراہم کرتے ہیں۔ جو براہ راست سورج کی روشنی اور گرمی سے زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس کے علاوہ درختوں سے جانوروں کو پھل، بیج اور پتے کھانے کو ملتے ہیں ۔درخت جانوروں، پرندوں اور حشرات کا مسکن بھی ھوتے ہیں ۔جو انہیں زندہ رہنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔

ایسا ملک جس میں انسانی جان کی کوئی قدر نہ ھو ، جہاں قانون بااثر لوگوں کی باندی ھو ۔ وہاں درخت بھلا کیا اہمیت رکھتے ہیں ۔ کونیفرز ، دیودار (دیار) ، بیاڑ ، صنوبر ،چیڑ ، اخروٹ، املوک کے صدیوں پرانے درختوں کو کاٹ دیا گیا ھے ۔ ایسے درختوں کو دوبارہ اگنے میں 55 سے 150 سال لگ جاتے ہیں۔  قدرتی جھیلیں اور پانی کے چشمے تیزی کے ساتھ خشک ھو رہے ہیں ۔ جو انسانوں ، جانوروں اور پرندوں کے  پینے کے پانی کا ذریعہ تھے ۔ پاکستان میں 2018 کے الیکشن سے قبل تبدیلی کے لئے نام لفظ سونامی بار بار استعمال ھوتا رہا ۔ ہم نے اپنے نادان دوستوں کو سمجھانے کی بارہا کوششیں کیں۔ کہ سونامی کا مطلب تباہی و بربادی ھوتا ھے ۔ لیکن وہ اپنے الفاظ اور موقف پر ڈٹے رہے۔ کچھ تو اب تائب ھو چکے ۔ بعض اب بھی کسی معجزے کی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نیازی صاحب نے سابقہ حکومتوں کی طرح ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ھے۔ کہ ٹمبر مافیا کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے گی۔ اور ارب سونامی ٹری منصوبے سے استفادہ کیا جائے گا۔ خدا خیر کرے سونامی تو تباہی کا نام ھے۔ ہمارے جنگلات پہلے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ ایسے میں مزید کسی سونامی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ گزشتہ 75 سالوں جنگلات پر کافی ہاتھ صاف ھو چکے ہیں ۔ پاکستان کے اکثر بڑے شہروں میں محل نما گھروں، اور بڑے بڑے بنگلوز کے ڈرائنگ رومز کی تعمیر اور آرائش دیار کی لکڑی سے کی جاتی ھے ۔فرنیچر اور خواب گاہوں میں اخروٹ کی لکڑی کے بیڈز سو فیصد نہ سہی۔پھر بھی اس لکڑی کا ایک بڑا حصہ آزاد کشمیر سے آتا ھے ۔یہ لکڑی بڑی گاڑیوں میں سڑکوں کے راستے بڑے شہروں تک پہنچی ھے ۔ بڑی بڑی گاڑیوں کو روک کر چیک کرنے سے تو فرشتوں کے بھی پر جل جائیں۔ وہاں انتظامیہ اور پولیس کی بھلا کیا مجال۔ لگتا ھے کہ جنگلات کی کٹائی اور ماحولیاتی تباہی کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا۔ جب تک مکمل تباہی نہیں ھو جاتی۔اور سانس لینا بھی مشکل نہیں ھو جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments