رحیم گل کا ناول: جنت کی تلاش


اسّی کی دہائی میں جب رحیم گل کا ناول ‘ ‘ جنت کی تلاش” منصہ شہود میں آیا تو میں نے اسے دو دفعہ خریدا اور دونوں دفعہ یہ ناول چوری ہو گیا اور یہ ناول اس قابل تھا کہ اسے چوری کر لیا جائے۔میں جب جب بھی ناول کھولتا اس میں کسی انگریز لگتے والے شخص کی تصویر ہوتی تو یقین ہی نہ آتا کہ یہ رحیم گل ہو سکتا ہے اس کی وجہ اس کا انتساب تھا ۔ اس کا انتساب کینسر وارڈ جیسے لافانی ناول کے لکھاری سولزِ نیتسن کے نام تھا :

‘ ‘ انسانی عظمت کے نام!

جبر کی چکی چلتی رہی مگر وہ سچ بولتا رہا

کسی منجمد سماج میں پیہم سچ بولنا ۔۔۔

میں الیگزینڈر سولزِ نیتسن کو بیسوی صدی کا ضمیر کہتا ہوں! 

رحیم گل 1924ء میں پیدا ہوا ، نوعمری میں ہی محاز جنگ پر جانا پڑ گیا ۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی برطانوی سرکار نے اسے برما کے محاز پر بھیج دیا ۔جارج اورویل بھی برطانوی سرکار کے ماتحت برما کے محکمہ پولیس میں رہ چکاتھا ۔ اس نے اپنے ان تجربات کو اپنے ناول ” برما کےآ یام” میں تحریر کیا ہے ۔ یہ ناول 1934ء میں شائع ہوا۔ رحیم گل کی نظروں سے بھی یہ ناول یقینا گزر ا ہو گا۔ ایک جنگ تھی جو باہر لڑی جا رہی تھی جس کا وہ حصہ تھا ایک جنگ وہ تھی جو اس کےا ندر لڑی جا رہی تھی؛ یہ جنگیں کیوں ہوتی ہیں؟ انسان خیر اور شر کا پتلا کیوں ہے؟ اور بہت سارے سوالات اس کے اندر موجود تھے۔ یہ جنگ جو اس کے زہن کے اندر لڑی جا رہی تھی اس نے’ ‘ جنت کی تلاش ”کے ایک اہم کردار امتل کو سونپ دی اور یوں امتل کا ایک بےقرار کردار تخلیق ہوا۔اس کردار کے زریعے رحیم گل نے اپنی تمام الجھنوں، اپنے تمام الجھاؤوں اور اپنے اندر پنپنے والے بے شمار سوالات کے جواب ڈھونڈھنا شروع کیے ۔بقول رحیم گل کے جنت کی تلاش کا آغاز بے ساختہ ہے ، یہ حادثہ ایک دن میں برپا نہیں ہوا اس کی آبیاری کو برسوں لگے تھے جس کے نتیجے میں جنت کی تلاش کا ظہور ہوا۔

اس ناول کی توصیف مستنصر حسین تارڑ سمیت اس وقت کے تمام بڑے لکھاریوں نے کی اور یوں ایک نوجوان قارعی کو اس ناول کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے کہ جہاں بے شمار سوالوں کے جواب موجود ہیں سچ کیا ہے ؟ خیر اور شر کیوں ہیں اور بہت سارے دوسرے سوالات۔

کہانی کا آغاز مانسہرہ کے ڈاک بنگلے سے ہوتا ہے جہاں اسے دو کردار امتل اور عاطف ، وسیم سے ملتے ہیں۔ یہ دونوں بہن بھائی ہیں ۔ مصنف اپنے افکار، نظریات اور تصورات اور ان کے نتیجے میں پنپنے والا سوالات کو انہیں تین کرداروں کے درمیان ادا شدہ مکالموں کے زریعے بیان کرتا چلا جاتا ہے اور یوں کائنات اور حیات کے پوشیدہ اسرار کھولتا چلا جاتا ہے۔ ایک سفر زمین پر تھا اور ایک سفر اس کے اندر تھا جو مسلسل چل رہا تھا۔

بقول رحیم گل کے یہ ایک بے چین روح کا سفر ہے ۔ اس کا موضوع ایسا تھا کہ مصنف کو پورے پاکستان کی سیاحت کرنا پڑی ،پیدل ، بس کے زریعے، جیپ سے ، گھوڑے پر ،ہوائی جہاز سے ۔مصنف کو کہانی کی مناسبت سے جہاں جانا پڑا وہ گیا۔ اس طرح رحیم گل نے ایک نئی طرح کے سفر نامے کو متعارف کرایا۔ جناب مستنصر حسین تارڑ سیاح ہیں ، سفر کرتے ہیں اور اس سفر کی روداد سفرنامے کی صورت قلمبند کر دیتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑتی ہے ان اسفار کو اپنے ناولوں کا حصہ بنا دیتے ہیں ان کے ناولوں میں بھی سفر ہوتا ہے ، کتابیں ہوتی ہیں ، فلمیں ہوتی ہیں اور لوگ ہوتے ہیں لیکن رحیم گل نے یہ اسفار صرف اور صرف اپنے کرداروں کو آگے بڑھانے کے لیے کیے اور یقینا اس نے ان اسفار کے لیے ہزاروں روپے صرف کیے۔

احمد ندیم قاسمی کے بقول’ ‘ امتل ایک مثالی کردار ہے یہ ایک علامت ہے اس’ ‘ یوٹوپیا ” کی جسے رحیم گل کے مزاج کی بنیادی نیکی نے تخلیق کیا ہے” ۔

غالباً یہ پہلا ناول ہے جس میں دیوا سائی سمیت اس وقت کے شمالی علاقہ جات کے کچھ نئے دلفریب علاقوں کو مصنف نے متعارف کرایا۔ دیوا سائی ایک ایسا علاقہ تھا جہاں پھولوں کا سمندر تھا اور سانپوں کی سائیں سائیں تھی۔ دیوا سائی شمالی علاقوں کا فینٹیسی کی حد تک خوب صورت مقام ہے جس کا زکر اس سے پہلے کہیں نہیں ہوا تھا۔ اس وقت ٹورازم کا محکمہ شمالی علاقہ جات میں سیاحت کی پروموشن کے لیے بروشر چھاپتا تھا۔ اس میں شاہراہ ریشم، کاغان ، ناران اور درہ خنجراب کا زکر ہوتا لیکن دیوا سائی کا زکر کہیں نہیں تھا۔ اس طرح جنت کی تلاش وہ پہلا ناول تھا جو شمالی علاقہ جات کی خوب صورتی کی تشہیر میں ممد و معاون ثابت ہوا۔ مستنصر حسین تارڑ کہیں بعد میں ان علاقوں میں پہنچے۔

یہ وہ وقت تھا جب کم کم لوگ ہی شمالی علاقہ جات کو جاتے تھے اگرچہ شاہراہ ریشم کی تکمیل نے گلگت اور خنجراب تک رسائی آسان بنا دی تھی لیکن باقی علاقوں تک رسائی ابھی مشکل تھی لیکن مصنف اپنے کرداروں کو لے کر یہاں گھوم پھر رہا تھا اور لکھ رہا تھا۔

جنت کی تلاش منظر نگاری اور کردار نگاری کا مرقع ہے ۔ امتل کے نزدیک انسان خیر کی بجائے شر کا نمائندہ ہے ۔ انسان سے کوئی امید وابستہ کرنا اسے آتا ہی نہیں ہے ۔ اس کے نزدیک پوری انسانی جدوجہد اس کی تہذیب اور اس کی نظریہ سازی بے معنی اور بے وقعت ہے۔

یہ ناول بیسویں صدی کے نصف آخر کی نوجوان نسل کے آشوب کی نمائندگی کرتا ہے ۔ جس طرح اس زمانے کے ہپی قریہ قریہ گھوم پھر کر اپنے اندر کے اضطراب اور بے چینی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے اسی طرح امتل کا کردار بھی مانسہرہ اور اس کےنواح ، کاغان، ناران اور بلتستان کے پہاڑوں نلتر کی جھیلوں، دیوا سائی کے پھولوں ، کراچی کے ساحل اور آبادیوں مزید براں بلوچستان کے پہاڑ، جھلیں ، لوگ اور سیاح اور ان سے ہونے والی گفتگو جو کہ مسلسل چلتی رہتی ہے؛وہاں گھوم پھر رہا تھا لیکن اس کردار کی بے چینی ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ امتل دو دفعہ خود کشی کی کوشش کر چکی ہے اور یہ کوشش وہ تیسری دفعہ بھی کر سکتی ہے ۔ یہیں سے ایک پریشان کن صورت حال پیدا ہوتی ہے یہیں سے ایک کشمکش پیدا ہوتی ہے جو ناول کوآگے بڑھاتی ہے جب کہ ناول کا اختتامیہ برجستہ ہے اور مثبت ہے۔ ناول کا اختتام ایک نئے انسان کے جنم پر ہوتا ہے جو امتل کے کردار کو تبدیل کر کے رکھ دیتا ہے یہی اس ناول کی خوب صورتی ہے۔

بقول رحیم گل کے اس ناول کی تکمیل چھ برس میں ہوئی۔ اس ناول کا جس بے ساختگی سے آغاز ہوا تھا اسی برجستگی سے اس کا اختتام ہوا۔

یہ ناول میں نے اپنی شادی سے پہلے پڑھا تھا بعد ازاں میری مسز اس ناول سے اس حد تک متاثر ہوئی کہ اس نے ناران کی ‘ ‘ مائی حواکا کردار اپنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ تصوراتی طور پر شمالی علاقہ جات کے کسی ایک حسین مقام پر اپنی جھونپڑی ڈال چکی تھی۔ وہ کسی بھی صورت وہاں جا بسنے کو تیار تھی۔

ایک دن خبر آتی ہے کہ رحیم گل گنگا رام ہسپتال کے جنرل وارڈ میں چل بسا۔ہمارے دلوں کا ہیرو رخصت ہوا۔

جنت کی تلاش کی مکرر اشاعت نے رحیم گل کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے ۔ اس کی تجسیم نو ہوئی ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ لکھاری کبھی نہیں مرتا وہ ققنس کی طرح باربار زندہ ہو سکتا ہے ۔

میں جناب گگن شاہد اور امر شاہد کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے جنت کی تلاش کو تزئین اور آرائش کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ اس اشاعت کے ساتھ ہی انہوں نے رحیم گل کو بھی زندہ کر دیا ہے ۔ کتابوں کو صوری حسن سے مرصع کرنے کا بیڑہ بک کارنر نے اٹھایا ہے یہ ان کی تخصیص ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments