حکمرانوں کا جہاں اور ہے عوام کا جہاں اور


پاکستان ایک ایسی سرزمین ہے جو ایک خاص طبقے کے لئے تو معجزے سے کم نہیں اور باقی طبقہ عوام ہے جس کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور یوں یہ بات کس عجوبے سے بھی کم نہیں۔

یہ خاص طبقہ جس میں حکمران، سرمایہ دار، اداروں کے عہدیداران اور محافظاں جہاں رہتے ہیں ان کا جہاں ہی اور ہے۔ ان کے جہاں کے سکول اور ہسپتال بھی علیحدہ ہیں اب تو وہ کاروبار میں بھی خود کفیل ہیں۔

حکمرانوں کے لئے اسلام آباد کی خوبصورت ترین، مارگلہ کے دامن میں، صاف ستھری فضاء میں موجود علاقہ، جو کبھی بے کار پڑا ہوا ہوتا تھا، صدر ایوب خان نے عوام کے حکمرانوں جن میں وہ خود بھی شامل تھے، پر ترس کھاتے ہوئے ان کے نام کر دیا۔ اور جب اس کی تعمیر کی گئی اس وقت دنیا کے بڑے بڑے مالیاتی اداروں میں پاکستان کے کھاتے کھل چکے تھے، لہذا بہت ہی فراخدلی سے غریب عوام کے شاہی نمائندوں کے لئے محل تعمیر کیے گئے جن میں وزیراعظم کی رہائش اور دفتر، ایوان صدر، کیبنٹ اور نمائندوں کے لئے عالی شان رہائشوں کے علاوہ سپریم کورٹ اور سیکریٹیریٹ وغیرہ شامل ہیں۔ جسے سیکورٹی کے نام پر ”ریڈ زون“ کا علاقہ کہا جاتا ہے اور وہاں عوام کا جانا ممنوع ہے۔ اور وہاں کا ماحول کسی بڑے سے بڑے ترقی یافتہ ملک کے ماحول کو بھی شرمندہ کرنے سے کم نہیں ہے۔

یہ خاص طبقہ جب عوام سے نکل کر وہاں پہنچتا ہے تو ان کے رہن سہن سے ان کی سوچ ہی بدل جاتی ہے۔ ان کا ماحول ان کو یہ احساس ہی نہیں ہونے دیتا کہ وہ کسی غریب ملک میں رہتے ہیں ان کی رہائشیں، کام کرنے کی جگہ، ان کے سفر کرنے کے لئے نئی جدید گاڑیاں ان کی سوچوں کو ہی بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ پھر ان کی پالیسی یہ بن جاتی ہے کہ سب اچھا ہے۔ ان کو عوام کی غربت نظر نہیں آتی، ان کو سب کچھ تیار ملتا ہے، ان کی کنٹین کے نرخ بھی پاکستان کے کم تریں نرخ ہوتے ہیں۔

یہ غلامی اور حکمرانی کا انداز وہ ہی ہے۔ ہم نے جغرافیائی آزادی تو حاصل کی ہے مگر ذہنی غلامی سے ابھی بھی نجات نہیں ملی اور نہ ہی اس بارے کبھی ہم نے سوچا ہے۔ اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی چل کر آئی تھی اور جاتے جاتے وہ ہمیں مالیاتی اداروں کی غلامی میں دے گئے ہیں۔ اب ہم چل کر ان کے پاس جاتے ہیں اپنے آپ کو اور اپنے اثاثے گروی رکھ کر ان سے قرض لیتے ہیں۔ پہلے بھی انہوں نے ہمی میں سے لوگوں کو ہماری حکمرانی کے لئے چنا ہوا تھا اور اب بھی ہم میں سے ہی ان کے آلہ کار ہیں۔

پاکستان کے میڈیا ہاؤسز بھی اس خاص طبقے کی ملکیت ہیں اور وہاں پر کام کرنے والوں کو خاص ہدایات دی گئی ہیں کہ پاکستان کے امیج کو مثبت دکھانا ہے اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ اور سوشل میڈیا پر اگر کوئی آواز اٹھتی بھی ہے تو اس کو ان کے ایوانوں تک رسائی کہاں، وہ تو غریب عوام کی حوصلہ افزائی کا سامان ہے۔ انہوں نے اپنی تسکین کے ساماں کے لئے عوام کے پیسے پر میراثی بٹھائے ہوئے ہیں جو ان کی تعریفوں سے ان کی موج مستی کا ساماں مہیا کیے ہوئے ہیں۔ ان کو یہ مبارک اور عوام کو وہ مبارک

وزیر اعظم اور ان کے وزراء کی فوج کے اندر ایک خاص قسم کا سافٹ وئیر انسٹال کیا گیا ہے جس میں اپنی ذات اور ایک دوسرے کی تعریفوں سے لے کر سب اچھا ہے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا شامل ہے۔ اس کے علاوہ کوئی پروگرام ان کے سافٹ ویئر پر چلتا ہی نہیں۔ آپ عوام کے جتنے بھی مسائل گنوا لیں وہ ان میں سے کوئی نہ کوئی بہتری اور اپنی نیک نامی کا پہلو نکال ہی لیں گے اور آپ کو آخرکار قائل ہونا ہی پڑے گا کہ سب ٹھیک ہے۔

ان کی شاہ خرچیوں کے لئے عالمی مالیاتی اداروں میں کھاتے کھلے ہوئے ہیں لہذا ان کو کوئی پریشانی نہیں اور قسطوں کی ادائیگی یا نیا قرضہ لینے کے لئے کبھی کبھی مشکلات پیش آتی ہیں جس کا بوجھ وہ عوام کے کاندھوں پر اس لئے ڈال دیتے ہیں کہ یہ ملک آخر ہے تو ان کا ہی۔ ان خاص لوگوں کا کیا اعتبار وہ کب اس جہاں سے اپنے آقاؤں کے جہاں کوچ کر جائیں۔

جب وہ ان محلوں سے نکلتے ہیں تو ان کی ٹھاٹھ باٹھ، جس میں آگے پیچھے پولیس اور رینجرز کی گاڑیاں ہوتی ہیں، ان کے لئے سڑکیں صاف ہوجاتی ہیں، اشارے کھل جاتے ہیں۔ وہ اپنی اوقات کو بھول جاتے ہیں کہ کبھی وہ بھی اس عوام کا حصہ ہی تھے۔ ان کو اپنے بھائی، محلے دار، رشتہ دار اور عوام چھوٹے چھوٹے کیڑے لگتے ہیں۔

پاکستان میں جس طرح جہاں مختلف ہیں اس طرح ظاہر ہے ذمہ داریاں اور حقوق بھی تو مختلف ہی ہیں۔ ایک کے حصے میں سہولتیں اور مراعات آئی ہیں اور دوسرے کے کھاتے میں ان مراعات اور سہولتوں کا بندوبست : عوام اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، سوتے جاگتے ٹیکس دیتے ہیں اور حکمران اب بھی شائق ہیں کہ ٹیکس ادا نہیں ہوتا۔ ٹیکس چور وہ خود یا ان ہی کے طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہیں ان سے وصولی کی ہمت نہیں اور عوام کو سناتے رہتے ہیں کہ ٹیکس وصولی نہیں ہوتی۔

عوام کہاں ٹیکس نہیں دیتے، ان سے تو وصول کرتے ہوئے پوچھا اور بتایا بھی نہیں جاتا۔ پاکستان میں عوام کی ضرورت کی کون سی ایسی چیز ہے جو ٹیکس سے مستثنیٰ ہو۔ پاکستان کی عوام تو دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں رہتی ہے، کھیتی باڑی اور مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ کھیت سے گنا نکلتا ہے تو اس پر ٹیکس شروع ہوتے ہیں، پھر فیکٹری میں چینی کے بننے سے لے کر مارکیٹ تک پہنچنے تک ٹیکسز، پھر مارکیٹ میں اس کی فروخت پر ٹیکس، پھر جب وہ اپنے ہی گنے کی بنی ہوئی چینی خریدتا ہے تو ٹیکس۔ یہ سب کون ادا کرتا ہے، بے چاری پبلک ہی تو ہے، یہی حال گندم، چاول اور دوسری اجناس کا ہے۔ اور پھر یہ خاص طبقہ اس میں بھی خورد برد کے ذریعے مال اکٹھا کرتا ہے۔

انہوں نے نوٹوں کے خزانے اکٹھے کیے ہوئے ہیں ان کو کیا معلوم کہ بے روزگاری اور مہنگائی کیا ہوتی ہے۔ لوگ کس طرح گزارہ کرتے ہیں۔ کبھی کبھار وہاں سے گزر ہو تو کم تنخواہ طبقہ اپنا رونا دھونا کرنے کے لئے ان محلات کے سامنے گداگروں کی طرح بیٹھا ہوتا ہے اور وہ جب اپنے محلوں سے نکلتے ہیں تو اتنا گوارا بھی نہیں کرتے کہ ان کی فریاد تک ہی سن لیں۔ تف ہے ایسے نظام پر جس کی ایک چوتھائی آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے رہتی ہو اور حکمران عالی شان محلوں میں رہتے ہوں۔

اب تو یہ تعداد آدھی آبادی سے بھی بڑھ چکی ہوگی۔ غریبوں کو پھر بھی زندہ اور چپ رہنے کے لئے احساس کا سہارا دیے ہوئے ہیں۔ اب زیادہ تو سفید پوش طبقہ ظلم کی چکی میں پس رہا ہے جو اپنی غربت کو عزت کی چادر میں لپیٹے گم سم بے سدھ پڑا ہے۔

اب تو انہوں نے نوٹوں کی طرز پر ووٹوں کے خزانے والی ای وی ایم مشین بھی بنا لی ہے اور عوام کو اس جھنجھٹ سے بھی آزاد کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ عوام کی سردردی ختم ہو جائے گی اور وہ جہاں چاہیں گے ان کے نام پر ان کا حق استعمال کر لیں گے۔ وہ بھی خوش اور عوام بھی۔

اگر عوام کو چینی، آٹا یا دوائی نہیں ملتی تو بڑے بڑے محلوں میں رہنے والوں کو کیا۔ اگر ان کے چولہے گیس کو ترس رہے ہیں تو ان کو کیا خبر، اور خبر ہو بھی کیسے، ان کا جہاں اور عوام کا جہاں اور

اور اگر کوئی پاکستان کے حالات کو بدلنے کا ارادہ یا سوچ رکھتا ہے تو پہلے ان جہانوں کو بدلنا ہو گا تاکہ سب ایک جہاں میں رہنے والے بن جائیں اور ایک دوسرے کے درد کو سمجھنے والے بن جائیں۔ جب یہ محلوں سے نکل کر عوام کی سطح پر آئیں گے تو ان کی سوچ بھی عوام سے ملے گی۔ اور اس کوشش کی ان کو تو ضرورت نہیں وہ تو اسی حال میں خوش اور فائدے میں ہیں۔ یہ مسئلہ تو عوام کا ہے اور ان کو ہی اس بارے کچھ سوچنا ہو گا اگر ان کو کبھی اس بارے سوچنے کی ضرورت ہو اور ماحول ملے تو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments