وعدوں کے ایفا کا نہیں، اب بقا کا سوال ہے


پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے قائدِ اعظم کے 11اگست1947ء والے خطاب میں ابتدائی کلمات کے بعد جس  پہلے موضوع کی طرف قائد نے حاضرین کی توجہ مبذول کروائی وہ عام تاثر کے برعکس مذہبی رواداری نہیں بلکہ معاشرے کو لاحق مالی بدعنوانی اور اقرباء پروری کے امراض تھے۔تہتر سال گزر گئے۔آج پاکستانی معاشرے میں مالی بد عنوانی کوبرائی نہیں سمجھا جاتا۔ ملک پر طاقتور طبقات(Elitists) کی حکمرانی ہے۔اقربا پروری، خاندانی سیاست اور ادارہ جاتی عصبیت قبول عام پا چکے ہیں۔ایک وزیرِ اعظم یا پارٹی سربراہ کے بعد اس کے بیٹے، بیٹی یا بھائی کا اس کی جگہ پر گدی نشین ہونا فطرتی حق سمجھا جاتا ہے۔
زرداری صاحب کے بعد نواز شریف تیسری بار اقتدار میں واپس لوٹے تو خیال یہی تھا کہ ملک اب چند حکمران خاندانوں کے درمیا ن خاندانی وراثت کے طور پر ہمیشہ کے لئے بٹ چکا ہے۔ مینار پاکستان کے سائے میں عمران خان کے جلسے کی صورت مگر ایک انوکھا واقعہ رونما ہوا۔ عمران خان کو ہم جیسوں نے ووٹ سستی چینی، سستے آٹے، پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کے وعدوں پر نہیں دیا تھا۔ اس کے برعکس انہیں لاکھوں مڈل کلاس پاکستانیوں نے طاقتور خاندانوں اوران کی کرپشن سے آزادی کا خواب دیکھ کر اپنا وزیرِ اعظم منتخب کیا تھا۔ ہمیں ان سے امید تھی کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق آزاد خود مختار ریاستی اداروں کا قیام یقینی بنائیں گے۔ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ممکن ہو نہ ہو، لوٹنے والوں کو کم از کم سزائیں توضروردلائیں گے۔
 تین برسوں سے زائد گزر گئے۔ بچی کھچی مدت میں اپنے وعدوں کو پورا کرنا اب عمران خان کے لئے بظاہر تو ممکن نظر نہیں آرہا۔ہر گزرتے دن حکومت روایتی سیاسی خاندانوں،سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور مذہبی رہنماؤں کے سامنے پسپا ہو تے ہوئے دکھائی دے رہی ہے۔ پنجاب میں دیکھے گئے حالیہ متشدد واقعات کے بعد اب پختونخواہ  ایک بار پھر مذہبی جماعت کی آغوش میں جانے کو تیار نظر آرہا ہے۔ سرحد پارجس کے ہم خیال منڈلاتے ہیں۔چیلنجز بہت بڑے ہیں۔پولیس، تعلیم اور صحت سمیت اداروں میں اصلاحات راتوں رات ممکن نہیں تھیں۔ایف بی آر کی تشکیلِ نواور قرضوں کے بوجھ تلے سسکتی برسوں سے زوال پذیر معیشت کی بحالی بھی بچوں کا کھیل نہیں۔ توانائی کے سیکٹر میں دگردوں معاملات کی درستگی اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نج کاری کی جانب کوئی قابلِ ذکرپیش رفت دیکھنے میں نہیں آرہی۔ تاہم سب سے تشویش ناک امر حکمران جماعت کا بکھرتا ہوا تنظیمی ڈھانچا ہے۔ خود اپنے صوبے میں منعقد ہ بلدیاتی انتخابات میں جس کی کمزروریاں صاف سامنے نظر آئی ہیں۔ گنتی میں زیادہ ووٹ لینے کے باوجود،تنظیمی انتشار آڑے آیا اور آخری نتیجے میں سیٹیں کم ملیں۔ اپوزیشن کی جماعتیں یکایک پر جوش دکھائی دینے لگی ہیں۔مغرب زدہ لبرلز سمیت میڈیا اور انصاف کے سیکٹر میں موجود طاقتور گروہ متحرک ہو گئے ہیں۔ نواز شریف کی واپسی اور ان کی نا اہلی کے خاتمے کی سرگوشیاں شروع ہو گئی ہیں۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ انتخابات سے بہت پہلے قومی ادارے عمران خان کے ساتھ پورے خلوص کے ساتھ کھڑے تھے۔نچلے رینکس سے اٹھنے والی حدت تھی کہ جو سینئر قیادت نے محسوس کی۔ مخاصمت پر تُلی ہوئی حکومت کے مقابلے پر عمران خاں کا ساتھ دینے کے سوا یوں بھی کوئی چارا نہ تھا۔اب صورتِ حال کچھ یوں بدلی ہے کہ ہم جیسے از کارِ رفتگان کے درمیان بھی ہر گزرتے دن وہ آوازیں بلند آہنگ ہو رہی ہیں جوچند سال پہلے پُر جوش اکثریت کے سامنے دب کر رہ گئی تھیں۔ خود ادارے کے اندر کیا سوچ کا ر فرما ہے، ہم نہیں جانتے۔ تاہم زیرِ زمین سرگرمیوں کی خبریں گردش میں ہیں۔ ادارہ کئی سال ایک خاص میڈیا سیل کے نشانے پر رہنے کے بعداب کسی دوسرے گروہ کا حدف ہو، محض تصور ہی ہم جیسوں کو افسردہ کر د ینے کے لئے کافی ہے۔
اب جب کہ عمران خان اپنے وعدوں پر پورا اترنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔اب جب کہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگلے انتخابات میں آسمان سے اترنے والی امداد بھی انہیں دستیاب نہیں ہو گی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُن کے پاس بقا کا کوئی راستہ بچا ہے؟سیاسی حرکیات پر گہری نظر رکھنے والے انہیں بے شمار مشوروں سے نواز سکتے ہیں۔ ایک از کارِ رفتہ سپاہی انہیں محض ڈینزل واشنگٹن کی فلم ‘ٹریننگ ڈے’ دیکھنے کا مشورہ دے سکتا ہے۔اس کے سوا کیا دے سکتا ہے! کئی برس پہلے لمز(LUMS) میں رازنگ ایگزیکٹو ڈیویلپمنٹ سنٹر میں لیڈر شپ پر ایک تربیتی کورس کرنے کا موقع ملا تھا۔ یہ فلم اسی تربیتی کورس کے اختتام پر ہمیں دکھائی گئی تھی۔ اس فلم کا Take Awayہمیں یہ بتایا گیا کہ ایک کامیاب لیڈر کی اوّلین خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنی ٹیم یا تنظیم میں قطار اندر قطار متبادل لیڈرز تیار کرتا ہے۔ کیا عمران خان پی ٹی آئی کے بارے میں یہ دعویٰ کر سکتے ہیں؟قابلِ بھروسہ متبادل قیادت اور توانا ٹیم تیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نائبین کو میرٹ اور ان کی صلاحیتوں کے مطابق ذمہ داریاں سونپی جائیں۔ کیا عمران خان اپنی ٹیم بالخصوص صوبائی انتظامی سربراہوں کے بارے میں یہ دعویٰ کر سکتے ہیں؟

  اندازا یہی ہے کہ عمران حکومت کی کارکردگی کے باوجود عمران خان کا ووٹ بنک اپنی جگہ اب بھی قائم ہے۔ تبدیلی کا خواب دیکھنے والی مڈل کلاس عمران خان کے کھلاڑیوں سے یقینا مایوس ہے تاہم کپتان سے ان کی امیدیں کسی حد تک اب بھی وابستہ ہیں۔خود ہمارے ہاں از کارِرفتگان کے حلقے میں ناقدین سے عمران خان کے متبادل کا پوچھا جائے تو نام لیتے ہوئے شرما جاتے ہیں۔ عمران خان اگر درپیش چیلنجز سے نمٹنا چاہتے ہیں تو تنِ تنہا اپنی کرشماتی شخصیت پر انحصار کی بجائے انہیں پی ٹی آئی کوبالآخر ایک مؤثر تنظیم میں بدلنا ہوگا۔ ایک ایسی تنظیم کے جس کے اندر ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ پائے کی متبادل قیادت ہمہ وقت دستیاب ہو۔ کمزورانتظامی سربراہوں پر تکیہ، مخصوص افراد کو اہم عہدوں پر برقرار رکھنے یا ملازمت کی مدت میں توسیع جیسے فیصلوں پر اصرارکچھ اور نہیں، کسی انجانے خوف کو ظاہرکرتے ہیں۔ کمزور افراد کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر کلیدی عہدوں پر بٹھانے کے بعد خود کو محفوظ سمجھنا، خود اپنی کمزوری کا اظہار ہے۔ طاقتور گروہوں سے مقابلہ کرنے کے لئے عمران خان کو جرآت مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔صوبائی سربراہان مؤثر نہیں ہو ں گے تو جا بجا خود سری سر اٹھائے گی۔ نتیجے میں وہی ہوگا جو کے پی کے میں ہوا۔ وہی ہو گا جو پنجاب میں ہونے والا ہے۔وعدوں کو وفا کرنے کا نہیں، اب بقا کا معاملہ درپیش ہے۔پہلے قدم کے طور پراعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے مالک صوبائی سربراہان کی خالصتاََ میرٹ پر تقرریوں کے سوا اب عمران خان کے پاس کوئی چارا نہیں۔ ایک مصیبت مگر یہ ہے کہ وقت اب بہت کم رہ گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments