خاتون وزیر اعظم ۔ کبھی جائز کبھی نا جائز


کچھ عرصہ سے مسلم لیگ ن کے حلقوں میں یہ بحث عروج پر ہے  کہ  اس جماعت  کی طرف سے  وزارت عظمی ٰ کا امیدوار کون ہو گا ؟ اس سلسلہ میں  سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی  صاحب کا یہ بیان   سامنےآیا تھا کہ   مسلم لیگ ن کے موجودہ پارلیمانی لیڈر  میاں  شہباز شریف صاحب ہی  وزارت عظمی ٰ کے امیدوار ہوں گے۔سب جانتے ہیں کہ وزارت عظمی ٰ کے لیے  اس سیاسی جماعت کی طرف سے  محترمہ مریم نواز صاحبہ کا نام  بھی  لیا جا رہا ہے ۔اور ماضی قریب میں ان کے کئے گئے جلسے  بہت کامیاب رہے ہیں اور ان کے مختلف بیانات کو کئی حلقوں میں غیر معمولی  مقبولیت بھی حاصل ہوئی ہے۔ان کی شخصیت کو اس جماعت کا مستقبل سمجھا جا رہا ہے ۔یہ ایک حققیت ہے کہ کسی مرحلہ پر  اس جماعت کی طرف سے محترمہ مریم نواز صاحبہ کو وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر پیش کیا جائے گا۔

آج سے کچھ دہائیاں قبل ایک   اور خاتون یعنی    محترمہ بے نظیر صاحبہ پاکستان کی وزارت عظمی ٰ کی امیدوار تھیں  اور  محترمہ مریم نواز صاحبہ کے والد میں نواز شریف صاحب   اسلامی جمہوری اتحاد کے ایک اہم لیڈر کے طور پر  محترمہ بے نظیر صاحبہ کے خلاف مہم چلا رہے تھے ۔اس وقت     اسلامی جمہوری اتحاد اور  بعض دوسرے حلقوں کی طرف  سےمحترمہ بے نظیر صاحبہ  کا راستہ روکنے کے لئے  جو پتے استعمال کئے گئے ان میں سے ایک اہم پتہ یہ تھا کہ کوئی  عورت  ایک مسلمان ملک کی سربراہ حکومت نہیں بن سکتی ۔

اس وقت مسلم لیگ صوبہ سرحد کے صدر جنرل فضل حق صاحب نے   ضلع مردان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے  ہوئے کہا تھا کہ   پاکستان کے غیور عوام اس  بات کو قبول نہیں کریں گے کہ  ایک عورت  ان پر حکمران ہو کیونکہ اسلام میں عورت کو امامت کا حق نہیں دیا گیا ۔ اس کے علاوہ جنرل فضل حق صاحب نے  یہ خوش خبری  بھی سنائی کہ  اسلامی جمہوری اتحاد ملک میں اسلام نافذ کرے گا۔اس جلسہ عام  میں میاں نواز شریف صاحب بھی شامل تھے اور اخبارات میں  دوسرے لیڈروں  کے ساتھ ہاتھ ملائے  ان کی  تصویر بھی شائع ہوئی تھی [امروز 14  نومبر 1988 ، پاکستان ٹائمز 1988]

اسلامی جمہوری اتحاد نے  اپنا موقف مضبوط  بنانے کے لئے  مختلف  جگہوں سے فتوے  حاصل کرنے شروع کئے۔چنانچہ  اخبارات میں یہ فتویٰ شائع ہوا کہ عالم اسلام کی معروف اور قدیم ترین درسگاہ  جامعہ ازہرکے چار ممتاز  علماء کی طرف سے یہ فتویٰ جاری کیا گیا ہے کہ کوئی خاتون  کسی اسلامی ملک کی سربراہ نہیں بن سکتی ۔اور اس بات  کا اظہار کیا  ہے کہ عالم عرب کو اور  پوری امت اسلامیہ کو اس بات پر حیرت ہوئی ہے کہ  محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اپنے آپ کو وزارت عظمی ٰ کے امیدوار کے  طور پر پیش کیا ہے کیونکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے کسی عورت کا سربراہ بننا قطعی طور  پر غیر شرعی ہے۔[روزنامہ مرکز 12 نومبر 1988] انتخابات سے ایک روز قبل  پاکستان کے چالیس علماء  سے مشترکہ فتویٰ حاصل کیا گیا کہ لوگ اسلامی جمہوری اتحاد کو ووٹ دیں  کیونکہ   کوئی عورت  سربراہ نہیں بن سکتی ۔ [دی نیشن 15 نومبر  1988]

ایک مولوی صاحب نے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے یہ فتویٰ بھی صادر کر دیا   کہ عورت کا سربراہ بننا تو ایک طرف رہا کوئی عورت تو   مشیر  بھی نہیں بن سکتی۔ [روزنامہ امروز 9 اکتوبر 1988] انتخابات سے چند روز قبل  روزنامہ نوائے وقت میں بھی بعض ا میدواروں کی طرف  سے  یہ اعلانات شائع ہو رہے تھے کہ  قرآن اور حدیث کی روشنی میں  عورت پاکستان کی سربراہ نہیں بن سکتی ۔[نوائے وقت 13 نومبر 1988]

اور تو اور جب انتخابات سے قبل افق پر پیپلز پارٹی  کی جیت  کے آثار نظر آ رہے تھے تو آزاد کشمیر کے سیاستدان  بھی اس بحث میں کود پڑے۔ اورآزاد کشمیر  کے صدرسردار عبد القیوم خان صاحب نے  نے بیان دیا کہ اسلام  میں عورت کے سربراہ بننے کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔[نوائے وقت 9 نومبر 1988]

شروع میں فضل الرحمن صاحب کی جمیعت  العلماء اسلام کا بھی یہ موقف تھا کہ  ہم کسی صورت میں عورت کی حکمرانی  قبول نہیں کر سکتے۔اس جماعت کے سیکریٹری جنرل نے انتخابات کے بعد یہ اعلان کیا کہ ہم کسی عورت کو اسلامی جمہوریہ   کی حکومت کے سربراہ کے طور پر قبول نہیں کر سکتے ۔اس لئے  سات  سیٹیں جیتنی والی  جمیعت العلماء اسلام  فضل الرحمن گروپ  سے وزیر اعظم  منتخب کیا جائے  ،تب ہی ہم   تعاون پر آمادہ ہوں گے[پاکستان ٹائمز 20 نومبر 1988]۔ یہ شرط تو   کسی  نےکیا ماننی تھی ۔ آخر میں فضل الرحمن  صاحب اور ان کی جماعت کو اسی تنخواہ میں گذارہ  کرتے ہوئے  بے نظیر صاحبہ کا اتحادی بننا پڑا۔

اور جب یہ آثار نظر آنے لگے کہ  فضل الرحمن صاحب تمام فتوے اور دعوے ترک کر کے  محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے تعاون پر آمادہ  ہو رہے ہیں تو اس وقت   منظور چنیوٹی صاحب نے بیان دیا  کہ فضل الرحمن صاحب کا پیپلز پارٹی سے اتحاد اصولوں سے انحراف کی بد ترین مثال ہے ۔فضل االرحمن صاحب نے عورت کی قیادت کو تسلیم کر کےکے یہ اعلان کیا ہے کہ چودہ سو سال سے کی جانے  والی  قرآن و سنت کی تشریح  قابل قبول نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ  فضل الرحمن صاحب  کے والد مفتی محمود صاحب نے وزیر  اعلیٰ سرحد کی حیثیث سے  کسی  خاتون کو کابینہ میں شامل کر نے سے صاف  انکار کر دیا تھا۔[مرکز 13 اکتوبر 1988]

وقت نے کس طرح رنگ بدلا ۔ پہلے  میاں نواز شریف  صاحب جس اتحاد کے اہم لیڈر تھے وہ اتحاد ان کی موجودگی میں یہ اعلانات  کر رہا تھا کہ انہیں عورت کی حکمرانی کسی طور پر قابل قبول  نہیں ہے۔ اور اب یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ  جلد یا بدیر  ان خود ان کی   صاحبزادی محترمہ مریم نواز  صاحبہ    وزارت عظمی ٰ کے لئے اپنے امیدوار ہونے کا اعلان کریں گی۔فضل الرحمن صاحب بھی ان کے اتحادی  ہیں۔ نہ معلوم اب کہاں سے فتوے حاصل کئے جاتے ہیں۔

 اور خود منظورچنیوٹی صاحب کے صاحبزادے  الیاس چنیوٹی صاحب اس وقت مسلم لیگ ن  کے ممبر پنجاب اسمبلی ہیں۔ کیا  اپنے والد  کے اعلان کے مطابق وہ اب یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ  اسلام میں  عورت کی حکمرانی ہر طرح ناجائز ہے؟

یہ ایک تلخ تاریخی حقیقت ہے   وقتی سیاسی  مقاصد کے لئے  مذہبی  کارڈکا بے دریغ  استعمال کیا گیا ۔اور  اس عمل کی بنیاد  اصولوں پر نہیں تھی۔جب سیاسی ضروریات  نے تقاضہ کیا تو ایک موقف اپنایا گیا اور جب  مصلحتوں  نے کچھ اور مطالبہ کیا تو اس موقف کو ترک کر کے  بالکل بر عکس موقف اپنا لیا گیا۔ جب مصلحتوں نے تقاضہ کیا تو  علماء کو محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت پر کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ جب  ضرورت ہوئی تو محترمہ بے نظیر صاحبہ  کی قیادت کو غیر اسلامی قرار دے دیا ۔ مناسب ہو گا  کہ   ہم ماضی سے نہ صرف سبق حاصل کریں بلکہ ان کا اعتراف بھی کریں تا کہ  آئیندہ ہم اسی طرح اپنی غلطیوں کو دہرانے سےمحفوظ رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments