کیا انجنیئرمحمد علی مرزا خرد کی آواز اور مذہبی ریفارمر ہیں؟


میں جب کبھی انجینئر محمد علی مرزا کے متعلق کچھ لکھتا ہوں تو بہت سارے لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ” کیا آپ انجینئر کے فلسفہ سے اتفاق کرتے ہیں”؟ تو ان کے لیے میرا یہ جواب ہے کہ میں انجینئر کو صرف اس حد تک پسند کرتا ہوں کہ وہ اپنی بات کا دفاع بے خوفی سے کرتا ہے اور ” مذہبی ہارڈ ٹرتھ” بڑی بے باکی سے بیان کرتا ہے باقی اس کی رائے سے متفق ہونا میرے لیے ضروری نہیں ہے کیونکہ انسان دوست ہونے کی بنیاد پر اور اولین انسانی ورثہ کی حیثیت سے میں تمام مذاہب کا احترام کرتا ہوں۔ ایک وقت تھا جب فرقوں کے جمعہ بازار میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کا طوطی بولتا تھا اور پیس ٹی وی کے پلیٹ فارم پر ان کی فٹافٹ والی تقریر جو مختلف مذاہب کے ریفرنسز سے بھرپور ہوتی تھی وہ نشر ہوا کرتی تھی، مختلف لوگوں کے ساتھ سوال جواب کےسیشن کے بعد کچھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو کلمہ پڑھوانے کے مناظر بھی دکھائے جاتے تھے۔ لیکن اب یہ آواز خال خال ہی سنائی دیتی ہے کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے مذہب کو سائنس کے نظر سے دیکھنا شروع کر دیا تھا اور ہر سائنسی تحقیق کو مذہبی اینگل میں فٹ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے کہ یہ سب کچھ تو مذہب میں پہلے سے موجود ہے اور سائنس کو اس کے متعلق آج پتہ چلا ہے۔ جب دو مختلف ڈومین کو آپ زبردستی ملا کر مذہبی حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر سوالات اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں جن کا آپ ایک مخصوص وقت تک کے لیے دفاع کر سکتے ہیں مگر مستقل بنیادوں پر آج ایسا ممکن نہیں رہا اور اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب بری طرح سے پٹ گئے اور آج کل گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ چند گنے چنے لوگوں میں جاوید غامدی اور قاری حنیف ڈار ہیں لیکن یہ پاکستان سے باہر رہ کر اپنے یوٹیوب چینل پر دبے دبے لفظوں میں کچھ سخت باتیں کر لیتے ہیں۔ لیکن انجینئر محمد علی مرزا فرقوں کے ایوانوں میں گونجنے والی ایک واحد آواز ہے جس نے بڑے بڑے کلغیوں والے پیشہ ور فرقہ بازوں کو ان کی ہی کتابوں سے انہیں بے نقاب کرکے سر عام ننگا کر دیا ہے ۔ان کا آج کی نئی نسل پر جو سب سے بڑا احسان ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے صدیوں سے قائم ہونے والا “روایتی آئرن بیریئر” توڑا ہے “جس میں یہ کہا جاتا تھا کہ ایک عام بندے کو اپنے طور پر اپنے ذاتی شعور کی روشنی میں قرآن و حدیث کا مطالعہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ گمراہ ہو سکتے ہیں اور انہیں دین کا علم کسی مستند عالم سے سیکھنا چاہیے” آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ سوشل میڈیا ،انٹرنیٹ اور گوگل کی مدد سے آج کی نسل فیض یاب ہو رہی ہے اور ذہنوں میں دفن ہو جانے والے سوالات آپ اپنی مرضی کے سورس سے کنفرم کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے جب بیریئر ٹوٹیں گے تو روایتی اجارہ داروں کو سخت سے سخت سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا کیونکہ اب کفار کی مدد سے علم ان کی بند مٹھی سے نکل کر انٹرنیٹ پر منتقل ہو چکا ہے جو سیکھنے والے کی پہنچ سے چند کلک بٹن کے فاصلے پر ہوتا ہے۔

انجینئر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے تمام فرقوں کی روحانی ہستیوں اور روحانی بابوں کا پردہ چاک ان کے ہی فرمودات سے کیا ہے۔ آج کی نسل کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ تکیہ کرنا اورتوریہ کرنا کسے کہتے ہیں جن کا سہارا یہ مذہبی کلاس صدیوں سے لیتے آرہے ہیں اور آج ان اصطلاحات کا بھی پردہ چاک ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ المہندالمنفند اور حسام الحرمین کس چڑیا کا نام ہے وہ بھی آج واضح ہوچکا ہے کہ کیسے علمائے بریلوی اور علماء دیوبند ایک دوسرے کو عقائد کی بنیاد پر نہ صرف خود کافر کہتے رہے ہیں اس کے علاوہ ایک دوسرے کے خلاف عقائد کی بنیاد پر حرم سے فتاویٰ بھی لیتے رہے ہیں۔ سب سے بڑا جو ذہنی  انقلاب آرہا ہے اگرچہ اس کی رفتار بہت آہستہ ہے، وہ یہ ہے کہ لوگوں نے سوشل میڈیا کی وجہ سے خود پڑھنا شروع کر دیا ہے اور جو اصطلاحات صرف اجارہ داروں میں مقبول عام تھیں وہ اب عام بندوں کی پہنچ میں آ چکی ہیں اور اسی وجہ سے روایتی شعبدہ بازیوں پر پڑا ہوا صدیوں سے نقاب اترنے لگا ہے ۔انجینئر کی بدولت آج کی نسل نے خود روحانی بابوں کی کرامات اور قصے کہانیاں پڑھنا شروع کردی ہیں جو کتابیں اس طبقے نے دبا کر رکھی ہوئی تھیں اور سوال کرنے والوں کو اپنی مرضی کا جواب دے کر تشفی کردیا کرتے تھے اب وہی کتابیں پڑھ کر آج کی نسل ان سے باحوالہ جواب مانگنے لگے ہیں۔ اسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے کہ اب مختلف فرقوں کے مولوی انجینئر کے خلاف محاذ قائم کرنے لگے ہیں مگر جو تحقیق کا بیج انہوں نے بو دیا ہے وہ تو اگ کر رہے گا کیونکہ یہ کاوشِ سوشل میڈیا کے دور میں ہوئی ہے اگر یہ پہلے وقتوں میں ہوئی ہوتی تو شاید اتنی دیر پا اثر پذیر نہ ہوتی۔

انسانی ذہنوں پر جو سب سے بڑا اثر پڑا ہے وہ یہ ہے کہ جو روایتی اجارہ داروں نے کچھ سوالات کے گرد “واٹر ٹائٹ” قسم کا تقدسی حصار قائم کر رکھا تھا وہ اب ٹوٹ چکا ہے اور لوگ ہر طرح کے سوال بے دھڑک ہو کرپوچھنے لگے ہیں ۔ہم اور آپ انجنیئر کی سوچ سے متفق ہوں یا نہ ہوں مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انجینئر محمد علی مرزا آج کے دور کا “جدید مذہبی میک اپ آرٹسٹ” ہے اب وہ اس کوشش میں کتنا کامیاب ہوا ہے یا رہے گا وہ ایک الگ بحث ہے مگر اس نے مذہبی اختلافات کو نارملائز کر کے انہیں حوصلے سے سننے اور ان پر اوپن گفتگو کرنے کی طرف ایک مثبت قدم بڑھایا ہے۔ کیونکہ گفتگو کی سپیس ختم ہوجانے کی وجہ سے آج ملکی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ایسے میں سرجری کی بہت ضرورت ہے اور ہمیں علمی دیانت داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجارہ داروں کی مخصوص اصطلاحات “تکیہ اور توریہ” کا پردہ چاک کرنے پر انجینئر صاحب کو اس کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments