حرمت رسول ﷺ کے حق میں روسی صدر کا بیان


وزیر اعظم عمران خان نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے اس بیان کا خیر مقدم کیاہے کہ’ پیغمبر اسلام کی توہین اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے‘۔ عمران خان اسلام اور مسلمانوں کے نمائیندے کے طور پر مغربی ممالک میں اسلامو فوبیا کے خلاف مقدمہ پیش کرتے رہتے ہیں اور ان کا مؤقف رہا ہے کہ مغربی ممالک میں آزادی اظہار کے نام پر اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف کی جانے والی ہرزہ سرائی سے مسلمانوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے صدر پوتن کے بیان پر پاکستانی وزیر اعظم کا اظہار مسرت و اطمینان قابل فہم ہے تاہم پوری تصویر دیکھے بغیر اور روسی صدر کی اسلام سے اچانک بیدار ہونے والی محبت کو پورے تناظر میں سمجھے بغیر آزادی رائے اور توہین مذہب کی بحث کو سمجھنا دشوار ہوگا۔

صدر پوتن کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب وہ یوکرائین کے سوال پر نیٹوممالک کے ساتھ تنازعہ کا شکار ہیں اور کسی طرح بھی اس کوشش میں ہیں کہ یوکرائین نیٹو میں شامل نہ ہو اور امریکہ کی سرکردگی میں نیٹو ممالک روس کے اس ہمسایہ ملک میں عسکری تنصیبات کے ذریعے براہ راست روسی سلامتی کے لئے خطرہ نہ بن جائیں۔ اس کے علاوہ روس میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے بھی صدر پوتن کو مغربی ممالک کی شدید تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ روس کے ساتھ وابستہ یورپ کے اقتصادی مفادات کی وجہ سے یہ تنازعہ فی الحال کسی براہ راست تصادم کا سبب نہیں بنا کیوں کہ جرمنی اور دیگر ممالک روس سے فراہم ہونے والی گیس پر اپنی توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے انحصار کرتے ہیں۔ ان حالات میں یورپئین یونین کی خواہش اور کوشش رہی ہے کہ روس کے ساتھ تنازعات کا کوئی متوازن اور قابل عمل حل تلاش کرلیا جائے۔ روسی صدر بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ نیٹو کے ساتھ براہ راست تصادم ان کے لئے اقتصادی مشکلات کا سبب بنے گا اور پہلے سے معاشی مشکلات میں گھرا ہؤا روس اس نئی آفت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔

 روسی صدر کسی بھی طرح تصادم سے گریز کرتے ہوئے دنیا میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہیں یورپ کے ساتھ تجارت جاری رکھنے، زرمبادلہ میں اضافہ اور معاشی حالات کو بہتر بنانےکی شدید ضرورت ہے۔ دوسری طرف ملک پر بدستور اپنی آہنی گرفت قائم رکھنے کے لئے بھی صدر پوتن کو ملک میں معاشی حالات بہتر کرنا پڑیں گے تاکہ عوام کسی حد تک آسودہ رہیں اور حکومت کے خلاف منظم ہونے والی سیاسی اپوزیشن طاقت نہ پکڑ سکے۔ یہ ایک وسیع الجہتی جد و جہد ہے۔ اسی لئے روسی لیڈر نے اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں ایک ایسے موضوع پر اظہار خیال کرنا ضروری سمجھا ہے جس سے مشرق وسطیٰ اور دیگر مسلمان ممالک میں ان کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو ، جسے وہ عالمی منظر نامہ میں سفارتی فائدے کے لئے استعمال کرسکیں۔ یہ ایک پیچیدہ اور مشکل تصویر ہے ، اس لئے توہین مذہب کے حوالے سے مسلمانوں کے مؤقف کی حمایت میں روسی صدر کے ایک بیان سے کسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے یا کوئی امید وابستہ کرلینا مناسب نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ سمجھنا اہم ہوگا کہ صدر پوتن ایک ایسے نظام کی سربراہی کرتے ہیں جو آزادی رائے تو دور کی بات کسی بھی طرح کی آزادی پر یقین نہیں رکھتا۔ پوتن ہی کی نگرانی میں چیچنیا میں قومیت کی بنیاد ابھرنے والی علیحدگی کی تحریک کو بے رحمی سے کچل دیا گیا تھا اور مسلمان شناخت کی بات کرنے والے متعدد لیڈروں کو سخت اذیت میں مبتلا کیا گیا تھا۔

توہین رسالت اور مغربی آزادی رائے کی بحث میں جب صدر پوتن مسلمانوں کے جذبات کی بات کرتے ہیں تو اسے خالصتاً سیاسی و سفارتی حوالے سے دیکھنے و سمجھنے کی ضرورت ہے۔ روسی قیادت مغربی ممالک کے مقابلے میں مذہبی شناخت کو تسلیم کرنے یا اسے توانا دیکھنے کی خواہاں نہیں ہے۔ روسی ریاست تو اپنے شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق دینے پر بھی آمادہ نہیں ہے اور سرکاری جبر و ستم کے خلاف آواز اٹھانے والے میڈیا کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں مغربی ممالک کے لئے آزادی رائے کے بارے میں کسی ایک ایسے لیڈر کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی جسے عام طور سے آمر سمجھا جاتا ہے اور جو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے کسی بھی حد تک جانے پر آمادہ ہے۔ روس میں خود مختاری سے رپورٹنگ کرنے یا رائے دینے والے صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

اس صورت حال کی کچھ عکاسی ایک فلپائینی صحافی ماریا ریسا کے ہمراہ روسی صحافی و ایڈیٹر دمیتری موراتوف کو سال رواں کا نوبل امن انعام دے کر بھی کی گئی ہے۔ نارویجئن نوبل کمیٹی کے مطابق موراتوف نے دھمکیوں اور سنگین نتائج کے انتباہ کے باوجود اپنے اخبار نووایا گزٹ کی خود مختار پالیسی جاری رکھنے پر اصرار کیا ہے۔ اسی پالیسی کی وجہ سے 1993 میں اس اخبار کے اجرا سے لے کر اب تک نووایا گزٹ کے لئے کام کرنے والے 6 صحافی ہلاک کئے جاچکے ہیں ۔ سرکاری استبداد کا شکار ہونے والی آخری صحافی آنا پولیتکوف سکایا تھی۔ اس نے چیچنیا میں علیحدگی کی جد و جہد کے حوالے سے جرات مندانہ رپورٹنگ کی تھی اور سرکاری مظالم کا پردہ فاش کیا تھا جس کی وجہ سے اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ دمیتری موراتوف نے سال رواں کا امن انعام اپنی اسی مقتول صحافی کے نام کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ ان حالات سے آزادی رائے یا انسانی حقوق کے بارے میں صدر پوتن اور روسی حکومت کے کردار کو پرکھا جاسکتا ہے۔ ایسے میں پیغمبر اسلام کی حرمت اور آزادی رائے میں توازن کے بارے میں ان کی رائے توہین مذہب کی بحث میں مسلمانوں کے مؤقف کے لئے کوئی اثاثہ ثابت نہیں ہوگی۔

مغربی ممالک میں توہین رسالت یا مذہب کے بارے میں منفی خیالات کے اظہار کی صورت حال کو بھی محض کسی ایک واقعہ سے منسلک کرکے نہیں دیکھا جاسکتا بلکہ اس کے لئے مغربی ممالک میں آزادی رائے اور جمہوری روایت کے تعلق، سماج میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور مسلمانوں کو اقلیت کے طور پر حاصل حقوق و مراعات کی وسیع تر تصویر میں دیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ بدقسمتی سے پاکستان جیسے ملک میں یورپ یا امریکہ میں مذہب مخالف رائے کو ایک خاص زاویے سے پیش کرتےہوئے یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مغربی ممالک میں توہین رسالت اور مسلمانوں کے شعائر کا مذاق اڑانا روز کا معمول ہے اور ان ’ مجرمانہ‘ سرگرمیوں کو آزادی رائے کا نام لے کر ریاستی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں عمران خان نے اس بحث کو مزید سہل اور عام فہم کرنے کے لئے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کے بارے میں معلومات موجود نہیں ہیں ۔ دنیا کے مسلمان رہنما مغربی لیڈروں کو رسول پاک ﷺ سے مسلمانوں کی عقیدت و محبت کے بارے میں آگاہ کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں توہین رسالت کے واقعات ہوتے ہیں یا اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔

یہ مؤقف مقامی سیاسی ضرورتیں پوری کرنے میں تو عمران خان کے کام آسکتا ہے لیکن حقیقت حال سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مغرب میں آزادی رائے اور توہین مذہب کی بحث اس ایک نکتہ پر کھڑی ہے کہ احترام اور قبولیت کا تقاضہ کرنے والوں کو خود بھی انسانی زندگی کا احترام کرنا چاہئے۔ کسی رائے کے اظہار پر قتل کے فتوؤں یا دہشت گردی سے انسانوں کو ہلاک کرنے کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ بدقسمتی سے عمران خان سمیت تمام مسلمان لیڈر انسانی زندگی و رائے کے احترام کے حوالے سے اس ایک نکاتی اصول کو سمجھنے اور اس میں اپنے مؤقف کے لئے گنجائش پیدا کروانے میں کامیاب نہیں ہیں۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ سچائی ہے کہ یہ مسلمان لیڈر صرف اپنی مقامی مسلمان آبادیوں کو متاثر کرنے کے لئے نعرے بازی تک محدود رہنا چاہتے ہیں۔ عالمی تناظر میں ہونے والے مباحث کو سمجھنے اور ان کی وسیع تر تفہیم پیدا کرنا ان کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر یہ تفہیم عام ہو گی تو شدت پسندی، تعصب، انسان دشمنی اور انسانوں کو تقسیم کرنے والے سیاسی نعروں کی گنجائش کم ہوجائے گی۔ بدنصیبی سے مسلمان لیڈروں کی سیاست کا بنیادی اصول ہراس اور سراسیمگی ہے جس میں جمہوری و انسانی حقوق کی گنجائش نہیں ہوتی۔

یورپ میں مسلمانوں کی تعداد 6 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ مسلمانوں کے زیر انتظام ہزاروں مساجد اور مذہبی مراکز کام کررہے ہیں۔ کسی کو اپنے عقیدہ کے مطابق عبادت کرنے اور رسومات پر عمل کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوتا۔ یہ مساجد اور ادارے فعال طریقے سے مقامی لیڈروں اور آبادیوں کو اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اسکولوں و کالجوں کے طلبہ وفود کی شکل میں اکثر اسلامی مراکز کا دورہ کرتے ہیں جہاں انہیں اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے دینی مؤقف سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ متعدد یورپی و ا مریکی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ پیمانے پر اسلام کے بارے میں تحقیق و جستجو کا کام بھی جاری ہے۔ اس لئے یہ دعویٰ گمراہ کن ہے کہ مغربی لیڈروں کو حرمت رسولﷺ کے حوالے سے مسلمانوں کے جذبات سے آگاہی نہیں ہے۔ یورپی لیڈر اور عوام ان حساسیات سے آگاہ بھی ہیں اور وہ مسلمانوں کو احترام فراہم بھی کرتے ہیں۔ تاہم جب دہشت گرد و شدت پسند عناصر ہلاکت و خوں ریزی کو اسلام کا پیغام بتاتے ہوئے انسانوں کو قتل کرنے جیسے گھناؤنے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں تو مغربی سیاسی لیڈروں کی طرح ان ملکوں میں آباد مسلمانوں کو بھی تکلیف دہ اور مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسلام کے نام پر دہشت گردی کے واقعات ہی کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں شبہات پیدا ہوئے ہیں اور بعض عناصر ان شبہات کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش بھی کرتے رہے ہیں۔

اس کے برعکس عمران خان اور ان جیسے دیگر مسلمان لیڈر اپنے عوام کو دہشت گردی کے اس پہلو سے آگاہ کرنے اور مذہب کو ہلاک کرنے کا ہتھکنڈا بنانے والے عناصر کو تہ دل سے مسترد کرنے کی بجائے آزادی رائے کو مسئلہ کی بنیاد بتا کر درحقیقت انسانی حقوق سے روگردانی کا باعث بنتے ہیں۔ اسلام کے نام پر فرانس میں ہونے والی خوں ریزی پر پاکستان میں کبھی تصویر کا یہ ہولناک پہلو دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ کس طرح چند مسلح لوگوں نے درجن بھر صحافیوں کو ہلاک کیا یا ایک نوجوان نے اسکول کے ایک استاد کا سر قلم کرکے اسلام کا نام ’روشن‘ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس پاکستانی حکومت انسانوں کا سر قلم کرنے کا نعرہ لگانے والے گروہ کے ساتھ ایک کے بعد دوسرا معاہدہ کرتی رہی ہے۔ اب تو تحریک لبیک پاکستان کو باقاعدہ سیاسی جماعت تسلیم کرکے اسے تعصب، جہالت اور لاعلمی کی بنیاد پر استوار مذہبی و سیاسی مؤقف عام کرنے کا کھلا موقع فراہم کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ مغرب میں آزادی رائے کا اصول مسلمانوں کی تکالیف کا موجب نہیں ہے بلکہ رائے کی آزادی سمیت مسلمان ملکوں میں عوام کے حقوق سے انکار کی صورت حال اس پریشان حالی کا موجب بنی ہوئی ہے۔ اس کا حل تلاش کرنے کے لئے مغربی لیڈروں کو اسلام کی تعلیمات دینا ضروری نہیں ہے بلکہ اپنے لوگوں کو پوری تصویر دکھانے، باہمی احترام کا سبق عام کرنے اور عقیدہ و مذہبی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا طریقہ ترک کرنا پڑے گا۔ یہ کام چونکہ مشکل اور محنت طلب ہے، اس لئے عمران خان کے لئے پوتن کی پریس کانفرنس پر خوشی کا اظہار اور ’مغرب کی جہالت‘ کو مسئلہ کی بنیاد بتانا سہل اور قابل فروخت سیاسی مسالہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments