صدر ایوب خان کے بھتیجے کا قتل


2017 میں سرکار کی نوکری سے پنشن یافتہ ہونے کے بعد بوجہِ فراغت شغفِ کتب بینی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اس دوران جو کتب زیرِ مطالعہ رہیں ان میں سے کچھ میں ایسے ایسے عجیب اور چشم کشا واقعات پڑھنے کو ملے۔
خیال آیا کہ کیوں نہ ایسے واقعات ہم سب کے قاریئن کی نذر کر کے انہیں اپنے ساتھ شریکِ حیرت کیا جاۓ۔ آج کا واقعہ جس کتاب سے لیا گیا ہے اس کا نام ہے ” کیا کیا نہ دیکھا ” یہ کتاب سابق آئی جی سندھ/ پنجاب حاجی حبیب الرحمن کی یاداشتوں پر مشتمل ہے۔ یہ یادیں انہوں نے ایک صحافی منیر احمد منیر کو بیان کیں اور وہ انہیں ایک انٹرویو کی شکل میں ضبطِ تحریر میں لاۓ۔
حاجی حبیب الرحمن صاحب پولیس سروس آف پاکستان کے لۓ 1953 میں منتخب ہوۓ۔آپ کے بھائی جنرل مجیب الرحمن ضیاء صاحب کے دور میں سیکر یٹری انفارمیشن رہے ۔ آپ 1989 میں نوکری سے سبکدوش ہوۓ اور 2003 میں اس جہانِ صد رنگ کو خیرباد کہا ۔
مجھے یقین ہے کہ میری طرح بہت سے قارئین اس واقعے سے پہلے سے آگاہ نہیں ہوں گے۔کتاب کے بیان کو من و عن نقل کرنے کی بجاۓ میں نے اسے اپنے انداز میں تحریری شکل دی ہے تا کہ واقعے کی روانی قائم رہے۔
یہ واقعہ ایوب خان کے خاندان میں ان کے دورِ صدارت میں پیش آیا۔
حاجی صاحب 1962 تا 64 ایس ایس پی ایبٹ آباد رہے۔اس زمانے میں ہریپور، مانسہرہ اور بٹگرام جو اب علیحدہ اضلاع ہیں، ضلع ایبٹ آباد کا حصہ تھے۔ ایوب خان کا گاؤں ریحانہ ہری پور شہر سے ذیادہ دور نہ تھا۔ حاجی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایوب خان کے ایک بھائی تھے میجر سلطان جو نظریاتی طور پر خاکسار تھے۔ ان کے ایک بیٹے کا نام حسرت زمان تھا۔ وہ ٹیڑھی طبیعت کا نوجوان تھا یہاں تک کے پولیس کے ساتھ پھڈا کرنے میں بھی دیر نہیں کرتا تھا۔ ایسے ایک پھڈے میں ایک دفعہ بات کافی بڑھ بھی گئی تھی۔
 میں ہمیشہ عید اپنے آبائی علاقہ فیصل آباد میں گزارتا تھا۔ عید کی شام میں گاوں پہنچا ہی تھا کہ اطلاع آئی، حسرت زمان قتل ہو گیا ہے۔ اگلی صبح عید کے دن میں واپس روانہ ہو گیا۔ میں پہلے ریحانہ گیا جہاں صدر صاحب آ چکے تھے۔ لڑکے کو دفن کیا جا چکا تھا۔ تمام خاندان اکٹھا تھا۔ میں نے اندر جا کے صدر صاحب کو سلام کیا اور ایک طرف بیٹھ گیا۔ وہ بہت غمزدہ تھے ۔پہلی مرتبہ میں نے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔
یہ قتل مغرب سے تھوڑا بعد ہوا تھا۔ ایک چشمے کے قریب تین لڑکوں کی آپس میں لڑائی ہو گئی۔ان میں سے ایک مقتول تھا۔ دو میں سے ایک نے اسے پکڑا اور دوسرے نے چاقو چلا دیا۔ ایف آئی آر میں مقتول کے والد نے تین کی بجاۓ پانچ ملزمان نامزد کیۓ۔ قتل مغرب کے بعد ہوا تھا لیکن ایک وکیل کے مشورے پہ وقت ِ وقوعہ عصر لکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عدالت میں یہ اعتراض نہ ہو سکے کہ اندھیرے میں ملزمان پہچانے کیسے گۓ ؟ پوسٹ مارٹم رپورٹ آئی تو لکھا تھا۔۔۔semi digested food. اس سے واضح ہو گیا کہ گاوں کے عام رواج کے مطابق مغرب سے تھوڑا بعد کھانا کھانے کے بعد مقتول گھر سے باہر گیا تھا۔
ملزمان میں سے ایک لڑکا اورنگزیب نامی ریٹائرڈ پولیس انسپکٹر کا بیٹا تھا۔اسے اور دو دوسرے لڑکوں کو گرفتار کر لیا گیا۔واقعہ کی گواہی بھی مل گئی اور آلہِ قتل بھی برآمد ہو گیا۔ دوسری طرف مقتول کے والد نے جو صدر صاحب کے بھائی تھے بڑی مشکل پیدا کر دی۔انہوں نے میرے دفتر کے سامنے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ان کے نامزد کردہ پانچوں ملزمان کو گرفتار کیا جاۓ۔اب دفتر کے باہر روزانہ اچھا خاصا مجمع لگنے لگا۔ساتھ ہی سی آئی ڈی اور انٹیلیجنس والوں کو خبر ہوئی تو وہ بھی میدان میں کود پڑے۔ اخبارات میں روزانہ بھوک ہڑتال کی خبریں تصاویر کے ساتھ نمایاں جگہ پانے لگیں۔کافی دباؤ آ گیا لیکن میں نے باقی دو ملزمان کو گرفتار کرنے سے انکار کر دیا۔
میں نے صدر صاحب سے ملاقات کا وقت لیا اور راولپنڈی آ گیا۔ان کو ساری بات بتائی۔ وہ شفقت سے بولے پراؤ (بھائی) کو میں سمجھا لوں گا۔ اللہ تعالی کو جان دینی ہے۔ جو بندے گنہگار ہیں بس انہی کو پکڑنا۔ اب مجھے حوصلہ حاصل ہو گیا۔ مقتول کا والد ایک حد تک سچا تھا۔سازش انہی دو لڑکوں کے گھر ہوئی تھی لیکن وہ موقعِ واردات پہ ساتھ نہی گیۓ تھے۔
چند ہی دنوں بعد نواب کالا باغ کی طرف سے بلاوا آ گیا کہ میں فایل لے کر آ جاوں۔ میں لاھور پہنچ گیا۔ نواب صاحب نے کہا، ایف آئی آر پڑھو۔ میں نے پڑھی تو بولے، اے وت کسے وکیل دی لکھی ہوئی لگدی اے (یہ کسی وکیل کی لکھی ہوئی لگتی ہے) پھر کہا ڈاکٹری رپورٹ سے اس میں سقم آ گیا ہے۔بہتر ہے کہ یہ کیس عدالت کی بجاۓ جرگہ میں جاۓ۔ وزیر ِقانون کو بلایا۔ اس نے کہا یہ کیس جرگہ میں نہیں جا سکتا کیونکہ اس کے لیۓ مدعی کا کمزور اور ملزمان کے با اثر ہونے کی شرط ہے، جبکہ یہاں معاملہ الٹ ہے۔ چنانچہ اس کیس کے لیۓ جرگہ لا کو تبدیل کیا گیا۔ وزیر ِقانون یہ شق لاۓ۔۔۔اور کوئی ایسا کیس جسے مقامی انتظامیہ اس امر کے لیۓ موزوں خیال کرے۔۔۔چنانچہ آرڈیننس آ گیا۔ نواب کالا باغ جاگیردار ہونے کے ناطے تھانہ کچہری کے معاملات کو سمجھتے تھے لہذا ایف آئی آر سن کے سارا کیس سمجھ گۓ اور کمزور شہادت کے توڑ کا یہ حل نکالا۔
چناچہ یہ کیس جرگہ میں گیا۔جرگہ کے جو ممبران مقرر ہوۓ ان میں ایک خان آف گڑھی حبیب اللہ دوسرے راجہ جارج سکندر زمان تھے جبکہ تیسرے ممبر کا نام یاد نہیں رہا۔ مقام اور مرتبہ والے ممبران کا انتخاب اس لیۓ کیا گیا کہ یہ نہ کہا جاۓ کہ وہ دباو میں آ گیۓ تھے۔جرگہ کے ممبران نے جب اپنی کارروائی مکمل کر لی تو اس کے اعلان سے قبل انہوں نے صدر صاحب سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہزارہ کی معتبر شخصیات ہیں۔ آپ وہ فیصلہ کریں جو آپ کے نزدیک درست ہو اور مبنی بر انصاف ہو۔
جرگہ نے ایک ملزم کو 10 سال اور باقی کو 5/5 سال قید کی سزا سنائی۔ اس طرح میری ملازمت کے زمانہ کے حساس مقدمات میں سے ایک اپنے انجام کو پہنچا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments