رسالہ الاعتصام کا انکشاف: ابو نائل کے تین بھیانک جھوٹ


پاکستان بننے کے چند سال بعد ہی 1953 میں پنجاب اور خاص طور پر لاہور مذہبی فسادات کی زد میں آ گیا۔یہ فسادات احمدیوں کے خلاف برپا کئے گئے تھے اور مارچ کے آغاز میں لاہور میں مارشل لاء لگادیا گیا۔ تقسیم ہند کے فسادات کے بعد پاکستان میں ہونے والے یہ پہلے مذہبی فسادات تھے۔ پہلی مرتبہ بلوائیوں نے پولیس افسران کو اغوا اور شہید کیا۔اور پہلی مرتبہ پاکستان میں مارشل لاء لگا گو کہ یہ مارشل لاء محدود پیمانے پر لگایا گیا تھا۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ صاحب کی حکومت برطرف کی گئی۔ اور آخر میں گورنر جنرل نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب کی حکومت کو بھی برطرف کر دیا۔ یہ نقطہ آغاز تھا پھر یہ تمام المیے پاکستان میں بار بار دہرائے گئے۔

اس عاجز کو اپنی کم علمی کے باوجود ان فسادات کی تاریخ میں دلچسپی ہے۔ اور ہر پاکستانی کو ہونی چاہیے۔ اس موضوع پر میری تحریریں مختلف جرائد میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک تحریر پر “رسالہ الاعتصام” میں طویل تبصرہ شائع ہوا ہے۔اس رسالہ کے سرورق پر لکھا ہوا ہے “مسلک اہل حدیث کا داعی اور ترجمان”۔ مضمون لکھنے والے صاحب کا اسم گرامی ابو صہیب محمد دائود ارشد ہے۔ اس طویل تبصرہ کی جو قسط 3 تا 9 دسمبر 2021 کی اشاعت میں شائع ہوئی اس میں خاکسار پر تین جھوٹ تحریر کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ انصاف کے تقاضوں کے مطابق دائود ارشد صاحب کی معین عبارت درج کی جاتی ہے۔تاکہ میرے جواب سے قبل پڑھنے والے بخوبی اعتراض کی نوعیت سے واقف ہو جائیں۔ وہ لکھتے ہیں

“ابو نائل اس بات کا شکوہ کرتے ہیں

1۔ پاکستان بننے کے بعد الشہاب کی دوبارہ اشاعت کی گئی جس میں احمدیوں کو واجب القتل قرار دیا گیا۔ یہ بات انہوں نے تحقیقاتی رپورٹ 1953 کے حوالے سے لکھی ہے۔[ واضح رہے کہ ‘الشہاب ‘ ایک کتابچہ تھا جو کہ شبیر احمد عثمانی صاحب نے 1920 کی دہائی میں لکھا تھا اور اس میں احمدیوں کو مرتد اور واجب القتل قرار دیا تھا۔ اور یہ رسالہ آزادی کے چند برس بعد دوبارہ شائع کیا گیا تھا۔]

2۔ایسے ہی انہوں نے تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ احمدیوں کے مخالفین نے یہ سرکلر جاری کیا کہ جو سر ظفر اللہ کا گلا کاٹے گا وہ جنت میں جائے گا۔[چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ تھے اور مسلک کے اعتبار احمدی تھے]

3۔علماء یہ مہم مفت میں نہیں چلا رہے تھے۔ انھیں وقت کی حکومت پنجاب سرکاری فنڈ سے رشوت مہیا کر رہی تھی۔

یہ تینوں باتیں کذب ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ میں ایسا کوئی بیان نہیں مگر ابو نائل صاحب نے شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر علانیہ طور پر یہ تین جھوٹ بولے ہیں۔”

پھر ان کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ میری تربیت کی جائے۔ اور انہوں نے یہ مطالبہ کیا

“ابونائل کے حوالوں کی تحقیق کریں اور کم سے کم اس کی اتنی تربیت تو کر دیں کہ جھوٹ نہ بولا کرے۔”

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان کا موقف یہ ہے کہ میں نے سفید جھوٹ تحریر کیا ہے اور اس قسم کی باتیں تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں ہر گز درج نہیں ہیں۔مشکل یہ پیدا ہوئی کہ مجھے تربیتی کورس شروع کرنے سے پہلے یہ خیال آیا کہ فسادات پنجاب 1953 کی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ سے حوالے دوبارہ چیک کرلوں۔ اس کے نتیجہ میں جو حقائق سامنے آئے وہ پیش خدمت ہیں۔

جہاں تک پہلے نکتہ کو تعلق ہے تو میری گذارش ہے اس اس رپورٹ کے پہلے ایڈیشن کے صفحہ 18 کو کھول کر دکھیں اس پر ایک ہیڈنگ درج ہے “افغانستان میں احمدیوں کی سنگساری اور الشہاب” اس کے نیچے یہ تفصیلات درج ہیں 

“دیوبند کے ایک عالم مولانا شبیر احمد عثمانی نے اس مسئلہ پر ایک کتابچہ ‘الشہاب’ کے نام سے لکھا جس کے پہلے حصہ میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ احمدی مرتد ہیں۔ اور دوسرے حصے میں اس دعوے کے دلائل دئے گئے تھے کہ اسلام میں ارتداد کی سزا موت ہے۔یہ کتابچہ کوئی تیس سال تک گوشہ گمنامی میں پڑا رہا لیکن مارچ 1950 سے کچھ پہلے قاضی احسان احمد شجاع آبادی نے اس کے مصنف سے [جو اب شیخ الاسلام پاکستان بن گئے تھے] اس کو دوبارہ چھاپنے کی اجازت طلب کی جو عطا کر دی گئی۔ اور اب احراریوں کی تقریروں میں اس کتابچہ کے مندرجات بطور فتوےٰ بیان کئے جانے لگے۔14 سے 16 اپریل 1950 تک کمپنی باغ راولپنڈی میں ایک جلسہ عام ہوا جس میں قریب قریب ہر مقرر  نے حاضرین سے اپیل کی کہ الشہاب کی کاپیاں خریدیں۔”

پھر اس رپورٹ میں یہ لکھا ہے کہ وزیر داخلہ پاکستان نے جب اس کتابچہ کو دیکھا تو حکومت پنجاب کو یہ مشورہ دیا کہ اس کو ضبط کر لیا جائے لیکن حکومت پنجاب نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا۔ جب کسی معاشرے میں کسی طبقہ کے خلاف بھی قتل و غارت کی آگ بھڑکائی جائے تو وہ آگ محدود نہیں رہتی۔ یہ آگ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ ڈیڑھ سال بعد اسی پارک میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان صاحب کو شہید کیا گیا اور 2007 میں پاکستان کے پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو صاحبہ کو اسی پارک میں خطاب کرنے کے بعد شہید کر دیا گیا۔

اب دوسرے نکتہ کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے۔تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے صفحہ 55 پر ڈی آئی جی محکمہ سی آئی ڈی کی رپورٹ کا متن درج ہے۔ اس کا ایک فقرہ ملاحظہ ہو

” ایک چٹھی میرے علم میں لائی گئی ہے جس میں لکھا تھا کہ جو سر ظفر اللہ کا گلا کاٹے گا، وہ بہشت میں جائے گا ” اور اسی صفحہ پر یہ تفصیلات درج ہیں کہ احمدیوں کے خلاف جلسہ میں ایک شخص نے نعرے لگائے کہ وزیرظفر اللہ کو قتل کیا جائے، مار دیا جائے۔

اب آخری نکتہ کی طرف آتے ہیں۔ اس رپورٹ کے صفحہ 88 پر توجہ فرمائیں۔ اس پر “محکمہ اسلامیات ” کے نام سے ایک ہیڈنگ درج ہے۔ اس کے نیچے یہ تفصیلات درج ہیں کہ کس طرح حکومت پنجاب نے محکمہ اسلامیات کے نام سے ایک محکمہ قائم کیا۔ اور اس کے فنڈز سے ان گیارہ علماء کو رقوم کو مہیا کی گئیں جو کہ یہ شورش برپا کر رہے تھے۔اور ان میں سے نو علماء اس تحریک کی مجلس عمل میں بھی شامل تھے۔ اور انہیں اس محکمہ کی طرف سے رقوم دی جا رہی تھیں جب کہ وہ مرکز کی حکومت کے خلاف شورش برپا کر رہے تھے۔ لیکن کس طرح اس تحریک کو چلانے کے لیے بہت سے لوگوں اور اخبارات کو غیر قا نونی رقوم مہیا کی گئیں ؟ کس طرح اس تحریک کے قائدین نے بھی تحقیقاتی عدالت کے روبرو اس بات کا اقرار کیا کہ یہ رقوم غیر قانونی طور پر مہیا کی گئی تھیں؟ ضروری ہے کہ یہ تفصیلات اب سامنے لائی جائیں۔ اس کے بارے آیندہ کسی کالم میں حقائق پیش کئے جائیں گی۔

یہ رپورٹ انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ ہر کوئی پڑھ کر اپنی تسلی کر سکتا ہے۔ میرے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ دائود ارشد صاحب نے کیا سوچ کر یہ مضمون لکھنے کی زحمت فرمائی ہے۔ بہتر ہوگا رسالہ الاعتصام ان نصائح پر عمل کر لے جن کو کمال جوش سے خود دائود ارشد صاحب نے پیش کیا ہے۔ تاریخی واقعات کے متعلق ہمیشہ اختلاف رائے ہوتا ہے۔ اور یہ ہر کسی کا حق ہے لیکن کیا اس طریق پر کسی کو بے شرم اور جھوٹا قرار دینا مناسب ہے؟ یہ فیصلہ پڑھنے والے وا لے خود کر سکتے ہیں۔ معترضین کرام کی خدمت میں منیر نیازی صاحب کا یہ شعر پیش خدمت ہے۔

 کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے

سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments