ہم اتنے بھی برے نہیں ہیں – مکمل کالم


مجھے اب بھی ایک خوش گمانی سی ہے کہ ہم ایسے نہیں ہیں جیسے ہم بن چکے ہیں۔ ہم اتنے برے نہیں ہیں۔ ایک غیر ملکی شخص کو جو ہمارے ملک میں مہمان تھا، غیر مسلم تھا، اسے مذہب کے نام پر ہمارے ہی ملک میں قتل کیا گیا اور اس کی لاش کو آگ لگائی گئی، مگر یہ ہم نہیں تھے۔ اس واقعے کے رد عمل نے بھی کسی حد تک یہ ثابت کیا ہے کہ ہم ایسے نہیں۔ بے شک ہم میں دنیا جہان کی برائیاں ہیں اور سارا سال مجھ ایسے لوگ انہی برائیوں کا نوحہ لکھتے رہتے ہیں مگر اس کے باوجود مجھے یوں لگتا ہے جیسے یہ قوم کسی خوف میں مبتلا ہو کر وہ سب کچھ کرتی ہے جو دراصل وہ کرنا نہیں چاہتی۔ جو باتیں میں کر رہا ہوں ان کا کوئی پڑھا لکھا پڑھا ثبوت تو نہیں ہوتا لیکن پھر بھی کچھ دلائل تو دیے ہی جا سکتے ہیں۔ آج چونکہ قائد اعظم کا یوم ولادت بھی ہے تو بات انہی سے شروع کر لیتے ہیں۔

پہلا لیڈر جو اس قوم نے اپنے لیے چنا وہ سر تا پا سیکولر تھا۔ اس کا کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا، پہننا، سب کچھ انگریزی طرز زندگی سے مستعار تھا۔ قائد اعظم سگار پیتے تھے، کتے پالتے تھے، بلیرڈ کھیلتے تھے، انگریزی سوٹ پہنتے تھے، انگریزی بولتے تھے، بینکوں میں پیسے رکھوا کر ان پر منافع لیتے تھے، ساری زندگی ان کی انگریزوں اور غیر مسلموں سے، بلا تخصیص مذہب و جنس، دوستیاں رہیں، ان کی کابینہ کے ارکان میں غیر مسلم شامل تھے، انہوں نے جن سینئر افسران کی تعیناتی کی ان میں سے بیشتر غیر مسلم تھے، جس کابینہ کے اجلاس کی وہ صدارت کرتے تھے اس میں تلاوت نہیں کی جاتی تھی، مہاتما گاندھی کی وفات پر ان کے پاکستان میں سوگ اور تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔

اس محمد علی جناح کو گزشتہ پچھتر سال سے مذہبی رہنما بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کبھی ان کی مذہبی وابستگی کے قصے سنائے جاتے ہیں، کبھی ان کی تقاریر میں سے مذہب تلاش کیا جاتا ہے اور کبھی ان کی شیروانی والی تصویر کو سرکاری قرار دے کر انہیں ’مشرف بہ مذہب‘ کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تمام کوششیں ناکام ہی ہوئی ہیں۔ جناح صاحب کو اگر مذہبی رہنما کہا جا سکتا ہے تو بسم اللہ، پھر ہمیں ایسے ہی مذہبی رہنما چاہئیں، ویسے نہیں جیسے آج کل دستیاب ہیں۔ اور پھر جناح صاحب پر ہی موقوف نہیں، ہماری قوم نے بعد میں بھی جتنے لیڈر اپنی مرضی سے آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب کیے وہ سب کے سب لبرل، آزاد خیال اور حقیقت میں سیکولر تھے۔ آپ 1970 سے لے کر آج تک اس ملک کے تمام مقبول لیڈران کی فہرست بنا لیں اور دیکھیں کہ کیا ان میں سے ایک بھی ایسا تھا/تھی جس نے مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگے یا جو اپنی مذہبی وابستگی کی وجہ سے منتخب ہوا! کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا۔ 1970 میں جب ملک میں پہلی مرتبہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے تو مشرقی اور مغربی پاکستان میں عوام نے جن دو جماعتوں اور لیڈروں کو ووٹ ڈالے کیا وہ مذہب کی بنیاد پر تھے؟ بالکل بھی نہیں۔

مذہب کا نعرہ صرف اس حد تک تھا کہ اسلام ہمارا دین ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ اس کے علاوہ عوام نے بالکل ایک سیکولر انداز میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور اپنی پسند کے رہنماؤں کو لاکھوں ووٹ دے کر منتخب کیا۔ 1970 سے آگے چلتے ہیں۔ عوام نے بعد میں بھی جن لیڈر ان کو منتخب کیا وہ بھی قد آدم لبرل اور آزاد خیال تھے بلکہ کسی حد تک مغرب زدہ تھے۔ ان میں سے کوئی بھی اپنے مذہبی خیالات یا وابستگی کی بنیاد پر عوام میں مقبول نہیں ہوا، وہ اپنی کرشماتی شخصیت اور سیاسی نظریات (درست یا غلط) کی بنا پر عوام میں مقبول ہوئے۔ حتیٰ کہ ہمارے عوام نے ایک اقلیتی فرقے سے بھی لیڈران منتخب کیے اور یہ اپروچ عوام کی سیکولر سوچ کی غمازی کرتی ہے۔ لیکن افسوس کہ ان تمام مقبول لیڈران نے منتخب ہونے کے بعد نہ صرف مذہبی کارڈ استعمال کیا بلکہ اپنی شخصیت کو بھی مذہبی لبادہ پہنانے کی کوشش کی حالانکہ عوام نے انہیں مذہبی بنیادوں پر ووٹ نہیں دیے تھے۔

عوام کے سیکولر ہونے کا ایک ثبوت ان کی نجی محفلیں ہیں۔ ہماری شادی بیاہ کی رسمیں ہوں یا مذہبی تہوار، عوام نے اس شدت پسندانہ رویے کو بہرحال قبول نہیں کیا جس کی ایک عرصے سے ترویج کی جا رہی ہے۔ ایک عام مڈل کلاس پاکستانی گھرانے کی شادی کی رسومات میں بھی اس تنگ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا جس کا پرچار ہم دن رات کرتے ہیں۔ آج کرسمس کا دن ہے، سوشل میڈیا پر لوگ، مسلم اور غیر مسلم، ایک دوسرے کو تہنیتی پیغامات بھیج رہے ہیں، بعض دفاتر میں مسیحی بھائیوں کے ساتھ مل کر کیک بھی کاٹا جاتا ہے، انہیں مبارکباد دی جاتی ہے، پی آئی اے نے بھی (جس کی سروس ویسے تو بالکل ناکارہ ہے ) اس مرتبہ سانتا کلاز کو ایک پرواز میں بھیجا تاکہ وہ کرسمس کے تحائف تقسیم کرے۔ یہ تمام باتیں عوام کی اکثریت کے سیکولر ہونے کا ثبوت ہیں۔ عام سماجی معاملات میں ہم غیر مسلموں سے نارمل انداز میں ملتے ہیں، ان کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں۔ گویا ہم اپنے روز مرہ معاملات میں اتنے بھی تنگ نظر نہیں جتنا ہم خود کو سمجھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ کہیں کہ میں سوشل میڈیا میں زندہ ہوں اور نہیں جانتا کہ اس ملک میں دیہات اور چھوٹے شہروں میں انتہا پسندی کس حد تک سرایت کر چکی ہے۔

ثبوت کے طور پر ملاحظہ ہو مندروں کو آگ لگانا، جبری مذہب تبدیل کروانا اور اپنے مذہبی عشق کو سچا ثابت کرنے کے لیے دوسروں کی جان لینا۔ اس کے علاوہ بھی انتہا پسندانہ رویے کی ایسی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں جو بطور پاکستانی ہمارے لیے باعث شرم ہوں گی۔ اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ عوام کی بڑی تعداد صرف سیکولر لیڈروں کو ہی نہیں مذہبی جماعتوں کو بھی ووٹ دیتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا عوام کی اکثریت اپنے روز مرہ کے رویوں اور مزاج میں واقعی اس قدر شدت پسند ہو چکی ہے جتنی ہم آئے دن مذمت کرتے ہیں۔ میرا حسن ظن ہے کہ ابھی ایسا نہیں ہوا۔ عوام کی اکثریت شدت پسند نہیں۔ جن لوگوں میں بظاہر ہمیں شدت پسندانہ رجحانات نظر آتے ہیں یا جو خود کو مذہبی ثابت کرنے میں بازی لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان میں سے بھی اکثر اپنی نجی محفلوں میں، جہاں انہیں کوئی خوف نہیں ہوتا، اس انتہا پسندی کے خلاف نہ صرف گفتگو کرتے ہیں بلکہ ان کا طرز عمل بھی بالکل سیکولر ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ وہ خوف ہے جس نے انتہا پسندی کی ایک فضا پیدا کر دی ہے۔

اس خوف سے نجات صرف ایسا کرشماتی لیڈر دلا سکتا ہے جس نے ایک خاص قسم کی عصبیت حاصل کر لی ہو، جو عوام کے لیے ’cult‘ بن چکا ہو اور ان کے لیے دیوتا کا درجہ رکھتا ہو۔ اس لیڈر کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکے گا، وہ جو کہہ دے گا وہی حرف آخر ہو گا۔ میں یہ سطریں لکھتے وقت خود کو کوس بھی رہا ہوں کہ میں ذاتی طور ایسے Ubermensch (فوق البشر، سپر مین) کے تصور کے خلاف ہوں مگر فی الحال کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں سوجھ رہا جس پر چل کر مختصر وقت میں اس مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ ہمارے ہاں ایسے چھوٹے موٹے ubermensch بھی آتے رہے ہیں مگر بجائے اس کے کہ وہ عوام کو اس خوف کے حصار سے نکالتے وہ خود کچھ عرصے بعد اسی حصار میں قید ہو گئے اور انہوں نے سر پر اورنگ زیب کی طرح ٹوپی پہن لی جبکہ عوام نے انہیں انگریزی سوٹ میں منتخب کیا تھا۔ یہی ہمارا المیہ ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments