ہیپی کرسمس کہنے کا رجحان، ہمارا رویہ اور فلسفہ لبرلزم


تقریبا دو دن پہلے میں نے ایک مضمون بعنوان “بطور استاد میں شرمندہ ہوں” لکھا تھا جو “ہم سب” پر شائع ہوا تو پڑھنے والوں نے بہت پسند کیا اور میں ان کا دل سے شکر گزار ہوں۔ کچھ قاری مضمون پڑھ کر صرف لائک کرتے ہیں، کچھ غصہ والی ایموجی شو کرتے ہیں مگر کچھ مضمون کو اچھے سے پڑھ کر اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں اور انہی لوگوں کی وجہ سے ہمیں اپنے مضمون کو ری ویزٹ کرنے اور ری تھنک کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ حقیقت میں مضمون پڑھنے کا حق بھی یہی لوگ ادا کرتے ہیں مگر کچھ کمنٹس ایسے ہوتے ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ایک ایسے مائنڈ سیٹ کی نمائندگی کرتے ہیں جس سے ہمارا معاشرہ پہلے ہی بہت زیادہ خود کفیل ہے اس مائنڈ سیٹ کا نام’ سپیریئرئٹی کمپلیکس” یا مریضا نہ حد تک احساس برتری ہے۔

میں بدزبانی والے کومنٹس کو پڑھتا ہوں اور مسکرا کر اگنو ر کر دیتا ہوں مگر میں ایک کمنٹ کو یہاں ہائی لائٹ کرنا چاہوں گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ بندہ میرا ایک اچھا دوست ہے اور بطور ٹیچر اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے اور اگر یہ متعصبانہ قسم کا احساس برتری ہمارے سماج کے اساتذہ کے ذہنوں میں بھی پنجے گاڑنے لگے تو ہماری تعلیم و تربیت پر ایک سوالیہ نشان لگتا ہے؟ آگے بڑھنے سے پہلے کومنٹ ملاحظہ فرمالیں

“میں جزوی طور پر آپ سے اتفاق کرتا ہوں مذاہب کے احترام کے علاوہ فیس بک پر ہیپی کرسمس کی پوسٹ لگا کر اظہار یکجہتی بھی ہونا چاہئے لیکن یہی لبرلزم اس وقت کہاں گم ہو جاتی ہے جب مسلمانوں کی عید ہوتی ہے۔ کیا روشن خیالی کا یہ تقاضہ نہیں ہے کہ ہر مذہب کو عزت دی جائے؟ کیا لبرلزم کا خیال جہاں سے آیا صرف وہیں کے مذاہب کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہے؟ ازراہ کرم جواب دیں کیونکہ آپ کے خیالات مجھے اور دوسروں کو متاثر کرتے ہیں”

 میں نے ان کے یہ خیالات پڑھے اور لایک کرکے آگے بڑھ گیا مگر میرے فاضل دوست نے لائک کو غنیمت نہیں جانا اور جواب پر اصرار کرنے لگے تو میں نے سوچا کیوں نہ ایک مضمون لکھ دیا جائے تاکہ اس قسم کے مائنڈ سیٹ کی تشفی ہو جائے ۔میں تین چھوٹے چھوٹے واقعات یہاں شئیر کرنا چاہوں گا تاکہ میرا یہ مضمون “بطور استاد میں شرمندہ ہوں ” کا بیک گراؤنڈ واضح ہو سکے۔

ابتدائی واقعہ کا تعلق میری سکول لائف سے ہے اور دوسرے کا تعلق سوشل لائف سے ہے اور تیسرے واقعہ کا تعلق میری ٹیچنگ لائف سے ہے۔ جس کلاس میں میرا سامنا عیسائی کمیونٹی سے ہوا وہ پانچویں کلاس تھی اور تقریبا دس عیسائی طلبا میرے کلاس فیلوز تھے، وہ بڑے بااخلاق اور ملنسار تھے مگر انہیں الگ بٹھایا جاتا تھا اور وہ پانی پینے کا گلاس بھی گھر سے ہی لایا کرتے تھے۔میرے مسلم فیلوز بھی ان سے کوئی اچھا برتاؤ نہیں کرتے تھے اور اس سے بڑی افسوس والی بات یہ تھی کہ ہمارے اساتذہ نے بھی کبھی اس منفی تاثر کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اور اس تفریق کو میرے عیسا ئی فیلوز کافی محسوس کرتے تھے مگر اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اس قسم کے رویے کو برداشت کر لیتے تھے۔

دوسرے واقعہ کا تعلق میرے ایک مسلم دوست سے ہے جس نے ایک بار بڑے فخر سے یہ واقعہ سنایا تھا ۔ “اس نے بتایا کہ اس کا ایک بہت اچھا دوست تھا اور وہ کافی با اخلاق اور ملنسار تھا۔ زندگی کے تقریبا تین سال بڑے اچھے سے ایک دوسرے کے ساتھ بیتے مگر اس نے ایک بار بھی یہ نہیں بتایا کہ وہ ایک عیسائی کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے ،اتفاق سے ایک روز بیمار پرسی کے لئے اس کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو اس نے خوب آؤ بھگت کی اور کھانا وغیرہ بھی کھلایا۔ جب میں رخصت ہونے لگا تو اچانک سے اس دوست کی والدہ نے آکر کہا کہ “بیٹا جلدی کرو عبادت کے لیے گرجا جانا ہے یہ سن کر میرے دوست کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور بے اختیار منہ سے نکلا کہ “یار تم عیسائی ہو تم نے کبھی بتایا ہی نہیں” میرے دوست نے کہا کہ یار میں نے اپنے رشتہ میں مذہب کو ڈس کلوز کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ میرے مسلم دوست کا کہنا تھا کہ میں نے جلدی جلدی اپنے عیسائی دوست سے مصافحہ کیا اور تھوڑا دور جا کر اپنے حلق میں انگلیاں مار مار کر قے کی تاکہ جو کچھ اس نے کھلایا تھا وہ سب نکل جائے اور فوری طور پر گھر آ کر کپڑے وغیرہ تبدیل کیے”۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ کیا تم نے بعد میں اس سے دوستی ختم کر دی تھی میرے پوچھنے پر بڑے فخر سے کہنے لگا نہیں ختم تو نہیں کی بس “فاصلاتی انٹریکشن” تک خود کو محدود کر لیا ۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ تم نے برسوں کی مخلص دوستی صرف مذہب کی بنیاد پر چھوڑ دی ایسا آخر کیوں کیا؟ اس کا جواب یہ تھا کہ “یار یہ چوڑے لوگ ہیں اور ان کا کام ہماری غلاظت ٹھکانے لگانا ہے”

تیسرے واقعہ کا تعلق بطور ٹیچر میری کلاس کا ہے میرے پاس ایک عیسائی طالب علم تقریبا چھ ماہ تک آتا رہا، کسی بھی مذہب یا قوم کے متعلق سوال کرنا میری نظر میں انسانی رشتہ کی توہین کہلاتا ہے۔ ایک دن میرے اس عیسائی سٹوڈنٹ کو پیاس محسوس ہوئی تو وہ اجازت لے کر کلاس روم سے باہر کولر سے پانی پینے چلا گیا مگر اسے وہاں گلاس نہ ملا، وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ سر وہاں گلاس نہیں ہے میں نے فورا اپنی ٹیبل پر پڑا گلاس اٹھا کر اسے دے دیا اس نے فورا کہا کہ سر یہ آپ کا گلاس ہے میں یہ نہیں لے سکتا، کیوں کہ میں عیسائی ہوں۔ میں نے تھوڑا شرمندہ ہو کر کہا کہ یار تم انسان تو ہو پانی پی لو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ سن کر اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا اور کہنے لگا سر میری کلاس کے دوست اور اساتذہ مجھے اپنا گلاس گھر سے لانے کو کہتے ہیں اور میرے ساتھ کھانا پینا بھی شیئر نہیں کرتے، اس نے شکر گزاری سے کہا کہ” سر مجھے انسان سمجھنے کا شکریہ”

یہ موٹے موٹے تین واقعات ہیں جن کی وجہ سے میں نے یہ مضمون لکھا تھا اور اپنے احساسات بطور استاد شئیر کئے تھے کہ جب میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو “سیلف سینٹرڈ” قسم کی تعلیم دیتا ہوں تو مجھے شرمندگی کا احساس ہوتا ہے ۔باقی میرے فاضل دوست کا یہ اعتراض کہ یہ لبرل لوگ مسلمانوں کو عید کی مبارکباد کیوں نہیں دیتے اور مغرب کے زیر اثر آ کرعیسائیوں کو ہیپی کرسمس کیوں کہتے ہیں۔ دوست اس اعتراض کا جواب میں یوں دینا چاہوں گا کہ میں بطور سیکولر اور انسان دوست ہونے کی حیثیت سے تمام مذاہب کے تہواروں پر سب کو “وش” کرتا ہوں اور جن انسان دوست لبرلز کو میں جانتا ہوں وہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں مگر اگر کچھ اس کے برخلاف کرتے ہیں تو وہ ان کا ذاتی حق ہے۔

انفرادیت کے اس دور میں ہمیں “پرسنل چوائس اور پرسنل سپیس” کے فلسفہ کو سمجھ کر معاشرے میں گنجائش کو فروغ دینا چاہیے۔ میں اپنے ایسے لاتعداد دوستوں کو جانتا ہوں جو دیو بند سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتے تھے جن کی نظر میں اپنے فرقہ کے علاوہ باقی تمام فرقے کافر تھے اور اسی بنیاد پر وہ ایک لمبا عرصہ تک نفرتیں نبھاتے رہے اور خواہ مخواہ کی نفرت کی بدولت ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے میں بھی ہچکچاہٹ سے کام لیتے تھے مگر جیسے ہی ان کی آنکھیں کھلیں وہ ان تمام نفرتوں سے اوپر اٹھے اور سب کو انسانی نظر سے دیکھنے لگے ۔ میری نظر میں تمام مذاہب کے تہوار سب انسانوں کا مشترکہ ورثہ ہیں اور ہمیں انسان ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہو کر انسان دوستی کو فروغ دینا چاہیے۔

مذاہب کی بنیاد پر نفرت کی جڑیں ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ سرایت کر چکی ہیں مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ اور پڑھا لکھا طبقہ بھی اس نفرتی مائنڈ سیٹ کا حصہ بن چکا ہے۔ مذہب کے نام پر نفرت کا بیج بونے والے ہماری ہی جیبوں سے عقیدت کے نام پر پیسہ نکال کر شاہانہ ذندگی گزار رہے ہیں اور ہم عوام مذہب اور فرقوں کے نام پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ یاد رکھیں کسی کو ہیپی کرسمس کہنے سے آپ کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ آپ ان تینوں واقعات کو جوڑ کر دیکھ لیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ یہ ایک خاص طرح کا احساس برتری، خود کو پاک صاف سمجھنے کی ذہنیت اور دوسرے لوگوں سے مذہب کی بنیاد پر بیزاری کا اظہار کیا یہ “نفرتی استعارے” لوگ ماں کی کوکھ سے لے کر آتے ہیں یا انسانوں کے بیچ ہی کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ایسی ذہنیت کو جنم دیتے ہیں”؟

یہ ایک بڑا سوال ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، حادثاتی اتفاقات پر اترانا کوئی اچھا رویہ نہیں ہوتا کیوں کہ مذہب، وطن اور رنگ و نسل آپ کا شعوری انتخاب نہیں ہوتا جیسا دیس ویسا بھیس سے زیادہ ان اتفاقات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments