نئے لکھاریوں کے لیے چند مشورے


تحریر کسی بھی انسان کے خیالات و افکار کی عکاس اور جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہوتی ہے۔ تحریر ذاتی ہو تو بہترین تخلیق بھی قرار پاتی ہے۔ اسی وجہ سے کوئی بھی تحریر بے حد اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ تحریر کے ساتھ تحریر کا تخلیق کار (لکھاری) بھی اہم ہوتا ہے۔ وہ معاشرے کے ان خاص افراد میں سے ہوتا ہے جو انتہائی حساس اور تیز نگاہ رکھتا ہے۔ اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشرے کو المیہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے، پرکھتا ہے، مشاہدہ کرتا ہے اور پھر سوچ بچار کے بعد اس کو قلم بند کر دیتا ہے۔
قلم سے نکلے ہوئے حروف لکھاری کا بیش قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اور انہی قیمتی الفاظ سے تحریر بن جاتی ہے۔ لکھاری ان تحاریر کو کالم یا دیگر ادبی اصناف میں ڈھالنے کا فن بھی رکھتا ہے۔ سب سے اہم کام وہ ان تحاریر کو کسی پلیٹ فارم یعنی اخبارات، میگزین، رسائل و جرائد اور کتاب کی شکل میں شائع کرنے کو اپنی کامیابی گردانتا ہے۔
بہترین لکھاری، لکھاری ہونے کے ساتھ بہترین قاری بھی ہوتا ہے۔ وہ باقی لکھاریوں کی تحاریر کو بھی کبھی تنقید برائے اصلاح، کبھی تنقید برائے تعمیر اور کبھی تنقید برائے تنقید کی نظر سے پرکھتا ہے۔ ہر تحریر یقیناً لکھاری کے لیے بہت قیمتی ہوتی ہیں لیکن کبھی کوئی تحریر قابل اشاعت اور کبھی ناقابل اشاعت قرار پاتی ہے۔ جب لکھاری لکھتا ہے تو جس ادارے یا پلیٹ فارم کے تحت لکھ رہا ہوتا ہے اس کے اصول و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھتا ہے۔ جیسے اخبارات میں اگر کالم کی صورت میں کوئی تحریر لکھنے کی خواہش رکھتا ہے تو سب سے پہلے وہ اس اخبار کے طے شدہ قواعد کو اچھی طرح ذہن نشین کرے گا، اس کے مزاج کو سمجھے گا تاکہ وہ کسی صورت ان قوانین کے خلاف نہ ہو تاکہ اس کی لکھی تحریر ناقابل اشاعت قرار نہ پائے۔
یہاں یہ بات سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اس بات کا علم ہو کہ کیسی تحریر ناقابل اشاعت ہو گی۔ ہر انسان کا نقطہ نظر ہر شے کے بارے میں مختلف ہوتا ہے، اسی طرح اپنے ذہن کے مطابق کوئی قاری تحریر کو پرکھتا ہے اور اسے قابل اشاعت یا ناقابل اشاعت قرار دے دیتا ہے۔ یہ تو عام قاری کا رویہ ہو گیا۔ لیکن جب ہم کسی ادارے کے تحت لکھتے ہیں تو ان کے اصول و ضوابط کو سامنے رکھنا پہلی ذمہ داری ہے۔ ہر ادارے کا تحریر کو قابل اشاعت قرار دینے کا اپنا ایک مخصوص معیار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی اخبار میں لکھ رہے ہیں اور وہاں ناقابل اشاعت تحاریر کے اصول کچھ اس طرح وضع کیے گئے ہیں کہ: 800 الفاظ سے کم تحریر، الفاظ کا انتخاب بہترین نہ ہوا، رموز و اوقاف اور املا جیسی غلطیاں ہوئی، اچھوتی تراکیب کا نامناسب استعمال کیا گیا، قرآن و حدیث کے غلط حوالہ جات، غیر مناسب جگہ پر استعمال، حکومت وقت کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال، معروف شخصیات کے بارے میں نامناسب الفاظ، تحریر اگر اردو میں ہے تو انگریزی الفاظ کا استعمال، ذاتی طور پر کسی تحریک/ انسان سے دشمنی کی بنا پر اس کو تنقید کا نشانہ بنانا وغیرہ۔
اس قسم کے مختلف قوانین ہر ادارہ طے کرتا ہے تاکہ لکھاری لکھتے ہوئے ان کو مدنظر رکھے اور اپنی تحریر کو قابل اشاعت بنا سکے، اس کے برعکس جب کوئی لکھاری ان قوانین کی پاسداری نہیں کرتا، نظر انداز کرتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق لکھنے کو ہی ترجیح دیتا ہے تو اس کو اس بات سے بھی بخوبی آگاہی ہونی چاہیے کہ وہ ناقابل اشاعت ہو سکتی ہے۔
اس دنیائے فانی میں کوئی شے مکمل نہیں ہے۔ انسان بھی غلطی کا پتلا ہے، اس کی تخلیق بھی غلط ہو سکتی ہے۔ لکھنے سے پہلے یہ ذہن نشین کرنا چاہیے کہ اس پہ تنقید برائے تنقید بھی ہو سکتی ہے اور تنقید برائے اصلاح بھی۔ دونوں صورتوں میں ایک اچھے لکھاری ہونے کے ناتے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کچھ دن پہلے ایک کالم میری نظر سے گزرا جو میرے پاس ایک ادارے کی طرف سے پروف ریڈنگ کے لیے بھیجا گیا تھا، اس کو پڑھ کر میں سر پکڑ کر سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ کیا یہ واقعی اچھے لکھاری کی تخلیق ہے جو اردو ادب کے قوانین سے واقف ہے، سب سے بڑھ کر وہ ادارے کے قوانین سے بھی آگاہی رکھتا ہے۔ اس تحریر کے ہر جملے میں املا کی غلطیاں اس قدر تھی کہ اک لمحے کو لگا، یہ کسی اردو سے ناواقف شخص کی تحریر ہے۔ جو ان معمولی باتوں سے بھی آگاہ نہیں کہ کن الفاظ کو جوڑ کر لکھنا ہے اور کن کو نہیں، اس بھاری بھرکم لفظ کی جگہ یہی ہے یا اسے کہیں اور ہونا چاہیے تھا، قرآن سے کوئی آیت لی ہے تو حوالہ ہی غلط اور سب سے اہم بات کہ اس آیت کا مفہوم جو سمجھایا گیا وہ مکمل غلط۔ افعال، ضمائر سے مکمل طور پر اجنبیت کا اظہار۔ مجھے اندازہ ہوا یہ کسی پڑھے لکھے انسان کی تحریر نہیں ہے۔ بلکہ ایسے کسی نوخیز لکھاری کی تحریر جو اپنے نئے نئے پر نکال رہا ہے اور وہ تحریر لکھ کر یہ سمجھ چکا ہے کہ بس میرا کام ختم ہوا، اب میں نے اس کو ایک مرتبہ بھی نظرثانی کرنے کی زحمت نہیں اٹھانی بس اب میرا لکھا یہ گوہر نایاب، میرا یہ عظیم شاہکار ہر حال میں کسی اخبار یا جریدے میں من و عن شائع ہو جائے۔
میں نے بمشکل وہ کالم مکمل کیا اور سوچ میں مبتلا ہو گئی کہ ایسے نوخیز لکھاریوں کو ابھی خود تربیت کی بہت ضرورت ہے، ابھی ان کو اپنی تحریروں کو جاندار بنانے کی ضرورت ہے، جب یہ اپنی تحاریر کو بہتر بنانے کے لیے محنت نہیں کرتے تو پھر یہ شکوہ کیسے کر سکتے ہیں کہ تحریر شائع نہیں ہوئی؟ ادارے کے خلاف احتجاج کرنے کیسے نکل سکتے ہیں؟ ان تمام لکھاریوں کے لیے ہے جو ایسی تحریر تخلیق کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا معرکہ مارا ہے اور رد ہونے کی تو کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے ان کو اپنی اہلیت پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
اب آپ کے دماغ میں ایک سوال جنم لے رہا ہو گا، آپ یقیناً بے چین بھی ہوں گے کہ ہم جان سکیں کہ کیسے اپنی تحریر کو قابل اشاعت بنا سکتے ہیں؟ کیسے ایسی تحریر لکھ سکتے ہیں جو پر اثر ہو اور رد نہ ہو سکے؟ کیسی تحریر لکھیں کہ لوگ اس سے کچھ سیکھ سکیں؟ الفاظ کا چناؤ کیسا کریں؟ کس اسلوب کو اپنائیں؟
اس کا آسان حل یہ ہے کہ سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ آپ اگر کسی خاص ادارے کے تحت لکھ رہے ہیں تو ان کے قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے تحریر لکھیں جیسے پہلے حصے میں ذکر تھا، اور اگر ذاتی طور پر بھی لکھنی ہو تو اس میں کم از کم اردو کے بنیادی قواعد و ضوابط کو ضرور مدنظر رکھیں۔ ”ہے“ اور ”ہیں“ کا فرق، مونث مذکر کا فرق، جمع واحد کا فرق وغیرہ کا خصوصی خیال رکھیں۔ املا کی غلطیاں بار بار پڑھنے سے ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ اپنی تحریر کو کم از کم پانچ دفعہ خود ضرور پڑھیں اور غلطیوں کو درست کریں، ان الفاظ سے گریز کریں جن کے معنی آپ کو خود بھی نہیں پتا، اپنے خیالات کا اظہار ضرور کریں لیکن ان الفاظ میں جنہیں ہر خاص و عام بخوبی سمجھ سکیں۔ بہترین تحریر وہی ہوتی ہے جس سے ہر کسی ہو کچھ سیکھنے کو ملے۔
اگر بھاری بھر کم الفاظ کا استعمال کریں گے تو یہ اکتاہٹ کا سبب بن سکتی ہے۔ ایسی تحاریر بھی نظر سے گزری ہیں جن میں اس قدر مشکل الفاظ کا استعمال تھا کہ ڈکشنری کی مدد لینی پڑی۔ لکھتے ہوئے اس بات کا ضرور خیال رکھیں آپ بہت بڑے عالم فاضل ہو سکتے ہیں لیکن شاید بعض قارئین اس قدر علم سے آراستہ نہ ہوں۔ نتیجتاً وہ آپ کی تحاریر پڑھنا چھوڑ دیں گے۔ قرآن سے اخذ شدہ آیات کا حوالہ معقول لکھیں۔ حوالے اور دلائل کے ساتھ بیان کی ہوئی بات پر اثر ہوتی ہے۔ مفہوم یا تفسیر بھی لکھ رہے ہیں تو مستند حوالے کے ساتھ لکھیں جیسے قرآن پاک کی مستند تفاسیر میں صحاح ستہ ہیں جن سے آپ مدد لے سکتے ہیں۔
کسی کی تحریر سرقہ کرنے سے گریز کریں۔ میں نے جب باقاعدہ لکھنا شروع نہیں کیا تھا تب فیس بک پہ کبھی کبھار کوئی تحریر یا شاعری لکھتی رہتی تھی تو ایک دن میری لکھی ہوئی نظم کسی نے اپنے نام سے ایک گروپ میں پوسٹ کر دی۔ بہت دکھ ہوا، احتجاجاً گروپ کی انتظامیہ سے رابطہ کر کے وہ پوسٹ ڈیلیٹ کروائی۔ تو ایسے ادب چور بننے سے گریز کریں۔ یہ آپ کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔ آپ کسی کے خیالات و افکار سے متاثر ہو کر تو لکھ سکتے ہیں لیکن کسی کی لکھی ہوئی تحریر کو اپنا نام نہیں دے سکتے۔ اگر نوخیز لکھاری ان باتوں کا خیال رکھیں تو بہترین تحریر تخلیق کر سکتے ہیں۔
یاد رکھیں! جس طرح کسی بھی شے کو پرکھنے کا کوئی نہ کوئی خاص پیمانہ ضرور ہوتا ہے۔ اسی طرح تحریر معیاری ہے یا نہیں اس کو پرکھنے کا بھی پیمانہ ہے، جس پر اس تحریر کو پرکھا جاتا ہے، اگر یہ پیمانہ نہ مقرر کیا جائے تو سب سے پہلا نقصان لکھاری کا اپنا ہی ہوتا ہے کہ اس کا نام خراب ہو جاتا ہے۔ اور اس کے قارئین ایک دو دفعہ پڑھنے کے بعد یہ نظریہ قائم کر لیں گے کہ یہ ایسا ہی لکھتا ہے اسے پڑھنے کا فائدہ نہیں۔ دوسرا نقصان اس ادارے کا ہے جو آپ کی ناقص تحریر کو شائع کرے گا۔ اگر وہ سرقہ کی ہوئی کوئی تحریر اپنے نام سے شائع کروا کر شہرت کا خواہشمند ہو تو بھی پکڑے جانے پر ذلت کا سبب بن سکتا ہے۔
ایک اور اہم بات جو نو خیز لکھاریوں کو اکثر سمجھنے میں پریشانی ہوتی ہے وہ یہ کہ آپ نے کوئی تحریر بھیجی ہے تو اس کے شائع ہونے کے لیے بھی کچھ پیمانے مقرر ہوتے ہیں جس کے لیے وقت بھی درکار ہوتا ہے۔ آپ اچھے لکھاری ہونے کا ثبوت دیں اور انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ جلد بازی سے کام ہر گز نہ لیں۔
لکھاریوں سے گزارش ہے اگر آپ مقبولیت چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کی کوئی تحریر ناقابل اشاعت نہ قرار پائے تو اپنا مطالعہ وسیع کریں، ادبی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ آپ کالم لکھ رہے ہیں تو کالم نویسی کے اصولوں سے واقفیت حاصل کریں، مختلف کالم نگاروں کو پڑھیں پھر لکھیں۔ اسی طرح آپ کسی بھی ادبی صنف کو لکھ رہے ہیں تو ان اصناف کا مطالعہ ضرور کریں۔ اپنے سیکھنے کے عمل کو بڑھائیں۔ اردو ادب سے مکمل آگاہی حاصل کریں، جس موضوع پر لکھ رہے ہیں اس کے مطابق مختلف مواد کا مطالعہ کریں اور پھر اپنے ذہن میں ایک خاکہ تیار کریں، اس خاکے کے مطابق اپنی تحریر کو تخلیق کریں اور کوشش کریں کہ اپنی تحریر میں قاری کے لیے کوئی ایسا پیغام ضرور دیں جو اس کے لیے فائدہ مند ہو، جو اس کی رہنمائی کرے، اسے فہم دلوائے کہ اب میں نے یہ کرنا ہے اور یہ نہیں۔ صحیح اور غلط کا فرق سمجھ سکے۔ ایسی تحاریر آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments