نواز شریف کی پاکستان واپسی اور تحریک انصاف کی مشکلات


سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی لندن سے واپسی کی خبریں اس وقت پاکستانی سیاست میں ارتعاش پیدا کئے ہوئے ہیں۔ ملکی سیاست چونکہ انتخاب سے زیادہ نامزدگیوں کے عمل سے گزرتی رہی ہے لہذا کسی بھی سیاسی وقوعہ کو پس پردہ معاہدے، افہام و تفہیم اور جوڑ توڑ سے منسلک کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کسی لیڈر کی گرفتاری، رہائی، سزا یا اپیل منظور ہونے کا عمل درحقیقت اس خفیہ ڈیل کا نتیجہ ہوتی ہے جو عسکری قیادت اور کسی سیاسی پارٹی کے درمیان طے پاتی ہے۔

نواز شریف کی ممکنہ واپسی کے حوالے سے بھی انہی قیاسات کی بنیاد پر مستقبل قریب میں ملکی سیاست کی تصویر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس واقعہ کو پاکستانی سیاست میں ایک بڑے دھماکے سے تعبیر کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کررہی ہے کہ ایک بار نواز شریف واپس آ گئے تو عمران خان کی حکومت کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہوگا۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے نمائیندے نواز شریف کو قصہ پارینہ قرار دیتے ہوئے واضح کر رہے ہیں کہ واپس آکر انہیں جیل جانا پڑے گا اور پاکستانی سیاست میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نواز شریف کو پاکستانی سیاسی تاریخ کا ’سیاہ باب‘ قرار دیا اور کہا کہ عمران خان، جناح کے ویژن کے مطابق نیا پاکستان تعمیر کر رہے ہیں۔ کوئی خفیہ ڈیل انہیں اس مشن سے دور نہیں کرسکتی۔ وزیر داخلہ شیخ رشید جو خود کو جی ایچ کے گیٹ نمبر 4 کے ’ چوکیدار‘ کے طور پر پیش کرتے رہتے ہیں، کا دعویٰ ہے کہ اسٹبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان کوئی غلط فہمی نہیں ہے اور عمران خان کی حکومت مستحکم ہے۔

 اس دوران وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے نواز شریف کی ممکنہ واپسی کو برطانیہ میں طبی بنیاد پر ان کی ویزا درخواست مسترد ہونے سے منسلک کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ درحقیقت اب برطانیہ نواز شریف کو ڈی پورٹ کرنے والا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) ’ ہیرو کی واپسی ‘ کا تاثر پیدا کرنا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے تسلیم کیا ہے کہ نواز شریف کا میڈیکل ویزا مسترد ہونے کے خلاف امیگریشن ٹریبونل میں اپیل دائر کی گئی ہے تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف مکمل صحت یابی تک پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ مریم نواز نے بھی برطانیہ میں نواز شریف کے ویزا معاملے پر حکومتی ارکان کی بیان بازی کو حکومت کی بدحواسی سے تعبیر کیا اور کہا کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے پاؤں تلے سے زمین سرک رہی ہے جس کی وجہ سے وہ ویزا کے معاملہ پر سیاست کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم لندن میں امیگریشن کے معاملات سے واقف ماہرین کا کہنا ہے کہ امیگریشن ٹریبونل میں دائر درخواستوں کی تعداد کے پیش نظر نواز شریف کی اپیل پر ایک سال سے پہلے کسی فیصلہ کا امکان نہیں ہے۔ اس مدت میں انہیں بدستور برطانیہ میں رہنے کا قانونی حق حاصل ہے۔

یوں تو نواز شریف کی عوامی مقبولیت اور تمام تر سرکاری کوششوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) میں دراڑ ڈالنے میں ناکامی کی وجہ سے بھی انہیں پاکستانی سیاست میں ناقابل تردید اہمیت حاصل ہے لیکن ان کی لندن سے واپسی اور عدالتی سزائیں معاف کرنے کے حوالے سے دو روز پہلے وزیر اعظم عمران خان نے جس پریشان کن لہجے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بات کی، اس سے ملکی سیاست میں ڈائینامکس کی تبدیلی کی افواہوں کو تقویت ملی ہے۔ خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ناکامی کے بعد پارٹی لیڈروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے سوال کیا کہ نواز شریف کی سزا کیسے ختم کی جا سکتی ہے؟ اخباری اطلاعات کے مطابق اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ اضافہ بھی کیا کہ اگر نواز شریف جیسا بدعنوان شخص جیل نہیں جائے گا تو پھر جیلوں کے دروازے کھول دینے چاہئیں۔ آج معاون خصوصی شہباز گل نے بھی وزیر اعظم کے اس تاثر کو دہرایا کہ اگر نواز شریف کو جیل میں بند نہیں کیا جاسکتا تو پھر کسی کو بھی جیل میں نہیں ہونا چاہئے۔

وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کے اس طرز تکلم سے ملکی قانونی اور عدالتی نظام کے طریقہ کار پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن ان بیانات سے عمران خان کی سیاسی پریشانی ضرور عیاں ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم اپنی باتوں میں نواز شریف کو اہمیت نہ دینا چاہتے ہوں لیکن جب ملک کا وزیر اعظم کسی ’عدالتی مفرور‘ اور ملکی قانون کے شکنجے میں پھنسے ہوئے شخص کے بارے میں ایسی گفتگو کرے گا تو عام شہریوں کو یہی تاثر ملے گا کہ حکمران اس شخص کے سیاسی قد کاٹھ سے پریشان ہیں اور کسی بھی قیمت پر اسے سیاسی منظر نامہ سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ ملکی سیاست میں غیر منتخب اداروں کی مداخلت اور سازشوں کو بھی چونکہ تواتر سے بیان کیا جاتا رہتا ہے، اس لئے وزیر اعظم کی ایسی تشویش کے بعد یہ تاثر بھی قوی ہوتا ہے کہ شاید اصل طاقت ور حلقے درپردہ عمران خان کی بجائے نواز شریف کو واپس لانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ عمران خان اگر ایسی گفتگو عام کرنے سے پہلے اس کے مضمرات پر غور کرلیتے تو شاید وہ ملکی سیاست میں اس نئی سنسنی خیزی کا موجب نہ بنتے جو ان کی اپنی سیاسی پوزیشن کے لئے خطرے کا اشارہ بن رہی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان کے وزیر اور مشیر نواز شریف کی واپسی اوراسٹبلشمنٹ کی بدستور ’سرپرستی‘ کے حوالے سے مضحکہ خیز بیانات دے کر نواز شریف کی صورت میں لاحق سیاسی خطرہ کو حقیقی ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔

نواز شریف نے پاکستانی سیاست کو خیرباد نہیں کہا۔ وہ بدستور سیاسی و غیر سیاسی عناصر سے رابطے میں ہیں اور واضح کرتے رہتے ہیں کہ ملکی سیاست ہی ان کا اصل میدان ہے اور جب بھی موقع ملا اپنا کردار ادا کریں گے۔ اس لئے یہ بات تو طے ہے کہ نواز شریف کو بہر طور پاکستان واپس آنا ہے۔ اسی لئے برطانیہ میں ویزا مشکلات کے تناظر میں انہوں نے سیاسی پناہ کا آپشن کو استعمال نہیں کیا۔ اس حوالے سے یہ بات بھی تقریباً یقینی ہونی چاہئے کہ وہ ممکنہ طور پر 2023 میں منعقد ہونے والے عام انتخابات سے پہلے وطن واپس آئیں گے تاکہ اپنی جماعت کی انتخابی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے کام کرسکیں۔ اس حوالے سے قبل از وقت انتخابات کی خبروں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نواز شریف کو سیاسی طور سے سرگرم ہونے کے لئے وطن واپس آکر بہر صورت پہلے جیل جانا پڑے گا۔ انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ ’مفرور‘ قرار دے چکی ہے اور اسی لئے ان کی اپیلوں کی سماعت سے انکار بھی کیا گیا ہے۔ خالص قانونی پہلو سے نواز شریف وطن واپس آکر اورعدالت میں پیش ہو کر ہی کسی عدالتی ریلیف کی کوشش کرسکتے ہیں۔

ملکی سیاست میں رونما ہونے والے واقعات بھی نواز شریف کی واپسی کے وقت کے لئے اہم ہوں گے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخاب میں پی ٹی آئی کی ناکامی ایسا ہی ایک واقعہ تھا۔ 18 مارچ کو خیبر پختون کے باقی ماندہ 18 اضلاع میں بلدیاتی انتخاب کا دوسرا دور ہوگا۔ ایک تو ان اضلاع میں حکمران تحریک انصاف کی سیاسی گرفت کمزور بتائی جاتی ہے دوسرے پہلے مرحلے میں ناکامی سے بھی مخالفین کے حوصلے بلند اور سرکاری امیدواروں کی مشکلات میں اضافہ ہؤا ہے۔ اس مرحلے میں بھی اگر تحریک انصاف عوامی اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی سیاسی فضا نواز شریف کی واپسی کے لئے زیادہ سازگار ہوجائے گی۔ اس کے بعد بڑا سیاسی معرکہ مارچ میں پنجاب کے بلدیاتی انتخاب کی صورت میں برپا ہونے والا ہے۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی مکمل ناکامی کے بعد مسلم لیگ (ن) پنجاب میں سیاسی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کی کوشش کرے گی۔ نواز شریف یقیناً اس مرحلے پر اپنی جماعت کی قیادت کرنا چاہیں گے۔ ان حالات کی مکمل تصویر کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ قیاس بے بنیاد نہیں ہے کہ جنوری کے دوران نواز شریف اچانک واپس آکر پاکستانی سیاست میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کریں گے۔

مسلم لیگ (ن) میں قیادت کے سوال پر بھی مباحثہ جاری ہے۔ اس کی روشنی میں بھی نواز شریف کی واپسی اہمیت کی حامل ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ ضرور کہا تھا کہ اگر پارٹی انتخاب جیتتی ہے تو وزارت عظمی کے لئے اس کے فطری امیدوار شہباز شریف ہی ہوں گے۔ یہ بات اس لحاظ سے درست ہے کہ شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر ہیں جبکہ نواز شریف کو عدالتیں کوئی سیاسی عہدہ لینے کے لئے نااہل قرار دے چکی ہیں۔ مریم نواز کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ تاہم مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف کو ایک بار پھر وزیر اعظم کے منصب پر فائز دیکھنے کے خواہشمندوں کی کمی نہیں ہے۔ مریم نواز نے گزشتہ دنوں میڈیا کے سوالوں کے جواب میں شہباز شریف کے وزارت عظمی کا امید وار ہونے کی مکمل تائید کرنے سے گریز کیا تھا۔ اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ پارٹی کے لئے صرف انتخاب جیتنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسے مستقبل کے وزیر اعظم پر بھی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ نواز شریف کو اس سوال پر حتمی اتھارٹی کی حیثیت حاصل ہے تاہم یہ واضح ہونا چاہئے کہ ایسی کسی صورت حال میں ان کا پاکستان میں موجود ہونا لازمی ہوگا۔

حکومت کو ایک طرف معاشی مسائل، منی بجٹ منظور ہونے کے بعد مہنگائی اور ممکنہ عوامی ناراضی میں اضافہ، وزیروں کی ناقص کارکردگی کے سبب گورننس پر اٹھنے والے سوالا ت کا سامنا ہے تو دوسری طرف پارٹی میں اختلافات اور انتخابی ناکامی جیسی مشکلات درپیش ہیں۔ ان حالات میں 2022 کے دوران نواز شریف کی واپسی تحریک انصاف اور عمران خان کی پریشانیوں میں اضافہ کرے گی۔ یوں تو حکومت نواز شریف کو ہر قیمت پر پاکستان واپس لاکر جیل بھیجنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن ان کی ممکنہ واپسی پر بے چینی اور تشویش کا اظہار حکومت کی بدحواسی کا پتہ بھی دیتا ہے۔

دریں اثنا گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کے بیان حلفی کے بارے میں نئی ’انوسٹی گیٹو رپورٹ‘ پر وفاقی وزیروں کا غم و غصہ ظاہر کرتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت حکومت میں ہونے کے باوجود یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ وہی برسر اقتدار ہے اور اس کا اصل کام ملکی حالات کو درست کرنا اور عوامی شکایات کا ازالہ ہے۔ اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہو کر ہی وہ بلدیاتی یا قومی انتخابات میں نئی کامیابی کی امید کرسکتی ہے۔ ایک بیان حلفی پر غیر ضروری مباحث عمران خان کے سیاسی مسائل کم نہیں کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments