محروم تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے


پٹرولنگ پولیس میں، میں نے بہت زیادہ وقت تو نہیں گزارا مگر اس مختصر دورانیے کی خوشگوار یادیں ابھی تک دل و دماغ کے نہاں خانوں میں اس خوبصورت ترتیب سے سجی ہوئی ہیں کہ ایک دریچے کو کھولتا ہوں تو یادوں کا ایک لا متناہی سلسلہ چل نکلتا ہے اور قطار اندر قطار بہت سے چراغ روشن ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

اس قلیل مدت میں قدرت کی طرف سے کچھ خاص ساتھی عطا ہوئے جن کے ساتھ دوستی کا قیمتی رشتہ قائم ہو گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ اس رشتے نے عزت و احترام کی رفعت کو چھونا شروع کر دیا، وقت کے بے رحم پہیے نے زندگی کی کھردری سڑک کے نجانے کتنے چکر کاٹ ڈالے، آندھیاں چلیں، طوفان آئے اور نجانے کتنا پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا مگر تلخ و شیریں یادوں کے نقوش ہیں کہ مدھم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔

فیصل گل بھی میرے انھی دوستوں میں سے تھا جس کے ساتھ نوکری کے ابتدائی ایام میں ہی محبت اور احترام کا رشتہ قائم ہو گیا تھا، فیصل حسن و جوانی سے بھرپور ایک شاندار نوجوان تھا، جس کے قد بت اور نوخیزی دیکھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کرتی تھی، مصافحے کے بعد چھوڑے گئے ہاتھ کو اس کے مضبوط شکنجے کے اثرات سے باہر نکلنے میں کچھ وقت ضرور لگتا تھا، فیصل حسن انجمن تھا جہاں بیٹھتا محفل کو چار چاند لگا دیتا، ہنسنا کھیلنا، قہقہے لگانا اس کا محبوب مشغلہ ٹھہرا تھا۔

لیکن ”وقت“ بڑی عجیب چیز کا نام ہے، یہ وہ دریا ہے جس کی گہرائیوں کا اندازہ لگانا مشکل ترین کام ہے، یہ کبھی خاموش، گم سم اور اداس سا بہتا ہے اور کبھی یہ بے چین پرندے کی طرح پھڑپھڑاتا ہے۔ کبھی خوشیوں کے ڈونگرے برساتا ہے اور کبھی سوگ اور ماتم میں ڈبو دیتا ہے۔ خلیل جبران نے ٹھیک ہی کہا تھا ”جب خوشی تمہارے ساتھ بیٹھی چائے پی رہی ہوتی ہے تو غم تمہارے بستر میں تمہارا انتظار کر رہا ہوتا ہے“

فیصل کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ ایک بار اچانک اس کے سر میں درد ہوا، اس نے معمولی سمجھ کر اس کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ یہ خود ہی ختم ہو جائے گا، مگر یہ درد روز بروز بڑھتا چلا گیا تو اس نے ڈاکٹر سے رجوع کیا، ڈاکٹر نے اسے ایم آر آئی کروانے کو کہا، جب ایم آر آئی کروایا گیا تو پتہ چلا کہ اس کے دماغ میں ایک ٹیومر یعنی رسولی جنم لے چکی ہے، جس کے علاج کے لیے گیما ہاسپٹل کراچی سے رجوع کیا گیا اور لیزر کے ذریعے علاج کر کے رسولی کو ڈیڈ کیا گیا، لیکن اس لیزر کے علاج کے بعد فیصل کی بینائی کمزور ہونا شروع ہو گئی اور تین ماہ کے بعد اس کی بینائی ختم ہو گئی اور تیس سال کا یہ قابل رشک جوان مکمل طور پر نابینا ہو گیا۔

فیصل کے دماغ میں موجود ٹیومر کا علاج تو کر دیا گیا مگر اس کی ہنستی کھیلتی جیتی جاگتی زندگی میں اندھیروں نے دبیز چادر بچھا دی، اس کی بینائی جاتی رہی، اب وہ اپنے دو ننھے منے بچوں کو گود میں لے کر کھلا تو سکتا ہے مگر ان کی مسکراہٹ کو دیکھ نہیں سکتا، وہ بچوں کے گال چھو کر پدری شفقت کے لازوال جذبات کی تسکین تو کرتا ہے مگر وہ فیصل جو دوسروں کی آنکھوں میں جھانک کر ان کے احوال جان لیا کرتا تھا اب انھی لوگوں کو آواز سے پہچانتا ہے، چلتا پھرتا بھاگتا دوڑتا فیصل اب ایک قدم بھی دوسروں کے سہارے کے بنا چڑھ اتر نہیں سکتا۔

اس کے پاس ٹچ موبائل نہیں کیونکہ وہ اسے دیکھ سکتا ہے نہ اس کو آپریٹ کر سکتا ہے لیکن اس کے پاس ایک بٹن والا موبائل ہے جس کے ذریعے وہ محفوظ شدہ نمبرز میں سے کوئی نمبر درست انداز میں ملا لیتا ہے اور دوست احباب، رشتہ داروں سے بات چیت کر لیتا ہے۔

فیصل کی بینائی کو زائل ہوئے تین سال کا عرصہ بیت چکا ہے، یہ طویل دورانیہ اس نے کس کٹھن انداز میں گزارا اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا، مگر اس بہادر انسان میں پہاڑ جیسا حوصلہ ہے کہ گفتگو کے دوران اس کے لہجے میں مایوسی اور ملال کا شائبہ تک نہیں تھا، وہ بات بات پہ مسکرا رہا تھا اور ماضی کے دھندلکوں سے نکال نکال کر یادوں کے چراغ روشن کر رہا تھا۔

میں فیصل کو اپنا ہیرو مانتا ہوں کیونکہ ہیرو وہی ہوتا ہے جو سخت ترین حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے، جس کی آنکھوں میں امیدوں کے چراغ اس وقت بھی روشن ہوتے ہیں جب گھٹا ٹوپ اندھیروں کا راج چہار اطراف قائم ہوتا ہے۔

ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ اس کی بینائی کچھ عرصے تک لوٹ آئے گی۔ میرا دل بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کی بینائی ضرور واپس آئے گی اور وہ اپنی ہنستی مسکراتی کھلکھلاتی روشن زندگی میں واپس لوٹ آئے گا۔ انشاء اللہ

دوستو! فیصل کو ہماری دعاؤں کی ضرورت ہے، آئیں ہم سب مل کر دعا کریں کہ اے لا محدود خزانوں کے مالک اللہ ہمارے بھائی کی بینائی لوٹا دے۔ آمین ثم آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments