یورپ کی سیاست جدید دور میں اور اس کا پس منظر


ڈارون کا اصول طاقتور کا قائم رہنا اور اسی اصول کو میکیاولی کے ہاں فروغ ملنا اس بات کا عکاس ہے کہ اب وہی زندہ رہے گا جو اپنے حقوق خود مانگے گااور اپنے لیے خود جدوجہد کرے گا. اسی بات سے آگے چلتے ہوئے ہر فلسفی اور ہر ذی شعور انسان نے کچھ مخصوص نعرے لگانے شروع کر دیے. لوگوں کے احساسات اور جذبات ایسے سحر انگیز نعروں میں جکڑ لیے گئے. مثال کے طور پر حریت, مساوات, آزادی اظہار رائے, کسی رنگ, نسل اور عقیدے کے بغیر اپنے نمائندے خود چننا. ان اصولوں پر تمام مکاتب فکر متفق تھے. اور سب کو متفق کروانا ہی جمہوریت کہلاتا ہے.
جب جاگیرداری کا نظام ختم ہو رہا تھا تو کارخانوں کے مالکوں کو کثیر تعداد میں مزدور چاہیے تھے. اس لیے ہر مزدور تنظیم کا رہنما ایک سرمایہ دار تھا. یہاں سے بقول کارل مارکس کے بورژوائ طبقہ پیدا ہوا. ان تمام عوامل سے جہاں جاگیرداری کا نظام متاثر ہوا وہیں کلیسا کی طاقت کمزور ہوگئ. اب لوگ بادشاہ کے دربار میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں جاتے اور ان تمام ممبران کو خود عوام چنتی. اب عوام اپنی پسند اور ناپسند کا کھلے عام اظہار کرتی. اگرچہ جمہوریت کا نظام ویسے تو صدیوں پرانا تھا پھر بھی لوگ اس نظام سے خوش تھے. گویا سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت دو بدو چلنے لگے.
مغرب میں ہر موضوع پر بات کی جاسکتی ہے سوائے جمہوریت کے. یورپ میں جمہوریت کے متبادل لفظ آمریت ہے. آمریت خود بھی ایک ظالم نظام ہے. جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جہاں اکثریت مطلب ہجوم کی حکومت ہوتی ہے. جہاں لوگ تولے نہیں بلکہ گنے جاتے ہیں. اس بارے میں آرنلڈ ٹوینی کہتا ہے کہ جمہوریت کی اصطلاح کو استعمال کرنا فقط ایک دھوکے کا نام ہے. جمہوری ممالک اور اشتراکی ممالک دونوں ہی یہ دعوہ کرتے ہیں کہ اصل میں جمہوری وہ خود ہیں. مغرب ہر اس ملک پر پابندی لگاتا ہے جو جمہوریت کو نہیں اپناتے. مضحکہ طور پر اقوام متحدہ میں سیکورٹی کونسل میں ہی جمہوریت نہں ہے. اگر پانچ میں سے کوئی ایک رکن ملک کسی ایک قرارداد کو ویٹو کردے تو وہ قرارداد ردی کی ٹوکری کی نظر ہو جاتی ہے.
جمہوریت میں ہر بندے کو اپنی پارٹی بنانے کا اختیار ہوتا ہے. جمہوریت کی بہت سی اقسام ہیں مثال کے طور پر فرانس اور جرمنی میں کثیر پارٹی کا نظام ہے. جب کوئی قرارداد یا بل منظور کرنا ہوتا ہے تو ہارس ٹریڈنگ شروع ہو جاتی ہے. ایسا ہی کچھ برصغیر پاک و ہند اور افریقی ممالک میں بھی ہوتا ہے.جبکہ برطانیہ اور امریکہ میں دو پارٹیاں ہی اقتدار کے مزے لیتی ہیں. جمہوری نظام کی ایک سب سے غلط بات ایک جمع ایک ہے. مطلب پڑھے لکھے لوگ اور ان پڑھ لوگ ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں. اور پھر ممبر پارلیمنٹ کا پڑھا لکھا ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا. اورکسی بھی ملک کے آئین میں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ وزیر اپنے محکمے کا ماہر ہو. الیکشن والے دن یہ ضروری نہیں کہ سب رجسٹرڈ ووٹر ووٹ دینے آئیں. عام طور پر ٹرن آوٹ آدھے سے کچھ کم یا زیادہ رہتا ہے. یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں مثال کے طور پر ٹوٹل اگر سو ووٹ کاسٹ ہوئے. کوئی بیس تو کوئی تیس ووٹ لیتا ہے ایسے میں اگر کوئی امیدوار ستر ووٹ لیتا ہے تو وہ کامیاب ہوجاتا ہے. اور طے یہی پاتا ہے کہ یہ سو لوگوں کا نمائندہ ہے. اور کسی بھی نمائندے کے لیے یا کسی پالیسی کے لیے میڈیا میں پروپیگینڈہ کیا جاتا ہے. جب بھی کوئی خارجہ پالیسی زیر بحث ہو تو عوام کی رائے کو نہیں دیکھا جاتا. مثال کہ طور پر یورپی ممالک میں افغانستان اور ویتنام کہ جنگوں پر عوام احتجاج کرتے رہے کہ ہمیں اس بلاوجہ کی جنگ سے نکالا جائے جبکہ حکومتی اور اپوزیشن کے اراکین میڈیا کے توسط سے ان جنگوں کو جائز قرار دیتے تھے. کیونکہ سرمایہ دار ملک اپنے اسلحے کی نکاسی چاہتے تھے. پھر عوام کسی بھی نمائندہ کی قابلیت کونہیں پرکھتے بلکہ اپنے جذبات کے زیر سایہ کسی کو کامیاب یا ناکام کرادیتے ہیں. مثال کے طور پر جب صدر نکسن الیکشن ہارا تو اس نے کہا کہ میں اس لیے ہارا ہوں کہ ٹی وی والوں نے میرا میک اپ ٹھیک سے نہیں کیا تھا اور اپنے سینیٹر کینیڈی کو یہ تلقین کی کہ اگر الیکشن جیتنا چاہتے ہو تو اپنا وزن کم کرو حالانکہ یہ باتیں آئین کے کسی آرٹیکل میں نہیں لکھی ہوتی. یہ ایک مختصر سی تصویر تھی نام نہاد جمہوریت کی.
اگر جاگیردارانہ نظام کا ردعمل سرمایہ دارانہ نظام تھا تو سرمایہ دارانہ نظام کا ردعمل کمیونزم تھا. کمیونزم یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اس نے تاریخ کے سفر اور زندگی کی حرکت کا اصول دریافت کر لیا ہے جو جدلیات کا اصول کہلاتا ہے. کمیونزم کا بانی ویسے تو ہیگل کو سمجھا جاتا ہے مگر اس کو باقائدہ شکل کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے دی. کمیونزم بنیادی طور پر ایک خیالی ریاست یوٹوپیا کی اساس پر قائم ہے. کمیونزم مزدور طبقے کی سیادت پر ایمان لاتا ہے. جس کو پرولتاری آمریت کہتے ہیں. کمیونسٹ ریاست کی خاصیت یہ ہےکہ یہ اپنے نظریے کو ہمہ گیر سمجھتی ہے جو زندگی کے ہر مسئلے کی تشریح اور حل پیش کرتی ہے. یہ عقیدہ سب کو زندگی کے ایک ہی موثر عامل کے ساتھ جوڑتی یے اور وہ ہے اقتصاد کا مسلئہ. کمیونسٹ ریاست ایک اقتصادی طریق کار ہے جو قانون سازی اور انتظامی اختیارات پر مشتمل ہوتی ہے. اس کا مطلق کنٹرول کمیونسٹ پارٹی کے پاس ہوتا ہے. کمیونسٹ پارٹی خود کو مزدوروں کا واحد نمائندہ سمجھتی ہے اور وہ خود کو ہی عوام سمجھتی ہے. خارج سے کسی بھی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جاتا. اس نظام میں مذہب, رنگ, نسل کو ممنوع قرار دیا گیا. اس نظام کا عقیدہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ ریاست اور قومیت کا وجود ختم ہوتا جائے گا. اس نظام کے تحت اپنی پراپرٹی بنانے ,اپنی فیکٹری لگانے پر پابندی ہوتی ہے. خاندانی وراثت کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے. ہم دیکھ سکتے ہیں کہ لینن کی حکومت ایک فرد واحد کی آمریت تھی, سٹالین مذاہب کا دشمن تھا, خرد شوف کی حکومت ایک طرح کی سیاسی بیوروکریسی تھی, شمالی کوریا ایک ہی خاندان کے اندر حکومت رکھتا ہے اور چائنا ماوزے تنگ کے افکار کو اپنے لیے وحی کا درجہ دیتےہیں.
ان دو نظاموں نے نہ صرف آگے چل کر عام عوام کی معاشرت پر اثر ڈالا بلکہ اقتصادیات پر بھی اثر ڈالا. یہی یورپ کے وہ دہ نظام ہیں جنہوں نے پوری دنیا کے اقتصادی نظام کو دو واضح دھڑوں میں تقسیم کر دیا اور دنیا کولڈ وار کی صورت میں مسلسل حالت جنگ میں ہے. (جاری ہے)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments