اس نے بابل، عکادی اور اشوری تہذیبوں کی جنم بھومی منطقۃ بین النہرین میں عرصہ درازتک بادیہ پیمائی کی۔ بیابانوں کی خاک چھانتے، دشت پیمائی کرتے, بلادالشراۃ اور سینائی سے ہوتے ہوئے وادی نیل پہنچی۔ یمن سے لے کر یونان تک گرد میں اٹی، کہیں غبارمیں اڑی، دھول مٹی ہم رکاب ہوئی اور کہیں اڑتی خاک اس کی ہمسفر۔ ‘سفراندر وطن’ میں، ہر جگہ، دھرتی کے انمول خزانوں سے کچھ نہ کچھ ساتھ لیا۔ اس آبلہ پائی کے صلے میں اسے نئی سے نئی راہیں سجھائی دیں۔ وہ سندھ طاس کے میدانوں سے دریاؤں کی گاد اور بھل لے آئی۔ ایودھیا، متھرا اور لمبینی کی چکنی مٹی بھی ڈھونڈھ لائی۔ اس کا پدارتھ ابھی بھی پورا نہیں ہوا تھا۔ کوٹیل سے اس نے چونا لیا۔ پہلے انسان کے مدفن گولگوٹھا یعنی کھوپڑی کی جگہ اور کیلوری پہاڑی سے بھی لومی مٹی لے آئی۔

اس مالیدہ میں دشت پاران کے ‘مینڈ لگا کر روکے گئے’ چشمے کا پانی ملا کر ساننا شروع کیا۔

برسات کی پہلی شام میں کھلنے والی رات کی رانی کی مد بھری سگندھ چرا لائی، دھکتے انگاروں پر پڑی صندل کی جلتی لکڑی کی نکہت مستانہ مچلتے دیکھی، توپکڑ لائی۔ مر، مصطکی، لون، لبان کو ملا کر بنائے گئے پاکیزہ تیل لگی مقدس زلفوں کی بھینی بھینی لپٹیں بھی لیں۔ سب ملا کردیکھا، مٹی کا سوندھا پن نہ بھایا۔

خوشبووں کے شہر ختن سے آہوئے تاتاری کی مشک لائی، مہنگے داموں عود ہندی خرید کر لائی، عنبرسر سے عبنر اشہب لا کراس مٹی میں ملایا، کچھ بھی دل کو نہ بھایا۔ پھر تلاش میں نکلی۔ کائنات کی ساری خوشبویں بیگانہ لگیں۔

پہلی مرتبہ رجولا ہوئے کنوارے لڑکے کے پسینے کو اس گوندھی ہوئی مٹی میں ملایا، باس ہر طرف پھیل گئی، تو سرشار ہو گئی۔ اس کے بےرنگ گالوں پر گلابوں کا رنگ نکھر گیا۔

جب مٹی کے اس ڈھیلے کو کمہارن نے اپنے ہاتھ میں اٹھایا تو یوں لگا پوری کائنات ہاتھ میں آگئی ہے۔

اس ڈھیلے کو چاک پر رکھ کر اسے گھما دیا۔ مشاق ہاتھوں نے کہیں سے دبایا، کہیں سے ابھارا۔ نرم و نازک انگلیوں نے مختلف پیکر، چھوٹے بڑے، تراش کر دیکھے۔ پھر گوندھا، رکھا، پھر گھمایا۔ بار بار تراشا۔ بہتر سے بہتر۔ کال چکر کے ساتھ وہ خود بھی گھوم گئی۔ لیکن یہ کیا؟ مقصود نظر نہ پا سکی، تصویر ابھرتے ابھرتے گم ہوجاتی۔ مجمع سی اکائی نکلتے نکلتے کہیں کھو جاتی۔ یہ عمل مسلسل جاری رہا۔ اس کے اندر کوئی سایۂ متحرک مضطرب تھا، کوئی غیر محسوس آوازِ بازگشت تھی جو انوکھا پیکر ڈھونڈتی تھی۔ تصور میں موجود خیال کو قالب آرزو میں ڈھال نہ پائی۔

سالوں بعد ایک دن گھڑیال کی گھومتی سوئی کی طرح چکر کھاتے پہیے کے اوپر ایک اعلیٰ تصویر ابھر آئی۔ وہ عالم محویت اوراستغراق سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس حسین و دلکش چہرے پر نظر نہیں ٹکتی تھی۔ اس میں کوئی خاص بات تھی, ایک ایسی بات جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ شب و روز کی محنت رنگ لا رہی تھی۔ کام جاری رہا اور پھر اگلے کچھ دنوں میں ایک جوان مرد کا حسین مجسمہ تیار ہو گیا۔ خوشبو بھرا نور کا پیکر۔

اس کو نکھارنے کا کام پھر بھی جاری تھا۔ جب کبھی وہ تھک جاتی تو اسی کے سامنے سو جاتی خوابوں میں وہی مورت اس کے سامنے چلتی پھرتی نظر آتی۔ اس کے چہرے سے ٹپکتا نور کمہارن کی روح کو بھی منورکر دیتا۔ وہ اپنی ہی تخلیق کےعشق میں کھو گئی۔ اس کے گالوں پر بکھرے گلابوں کا رنگ گہرا ہو گیا۔

وہ ہوش میں بھی مدہوش ہی رہتی۔ بے خودی کےعالم میں اسے چھوتی تو نور میں رنگے ہوے برف پروردہ سراپا میں سختی و صلابت موجود پاتی۔ وہ پہروں اس کی طرف دیکھتی رہتی، باتیں کرتی، اپنے دکھڑے سناتی۔ سوچتی، مٹی کا یہ مجسمہ کب لچک پائے گا اور جھک کراسے اپنی پناہ میں لے گا؟ وہ اسی غم میں گھلی جارہی تھی۔ وہ پاگل ہو گئی تھی۔ عشق میں پاگل پن نہ ہو، دکھ نہ ہو، محویت نہ ہو تو اسے اختیار ہی کون کرے! دن ڈھلتے رہے، طلوع و غروب آفتاب کے ارغوانی مناظر بدلتے رہے، عشق کی لذت و سرشاری بڑھتی گئی۔

جذب و اغراق کی حالت میں کبھی کبھی اسے یوں محسوس ہوتا کہ وہ زندہ ہے، ہمیشہ سے ہی زندہ اور اس کی باتیں سن رہا ہے۔

مہینوں گذر گئے۔ اس رات چاند اپنے پورے عروج و شباب پر تھا۔ وہ شکوہ گو ہوئی “تو کب میری التجائیں سنے گا؟ تمہارے لب کیوں نہیں ہلتے؟” وہ بولتی گئی اور روتی گئی۔ روتے روتے آنکھ لگ گئی۔ صبح ہوئی تو دیکھا ہاتھوں میں نرمی آگئی تھی۔ رنگ بھی بدل گیا تھا۔ یہ دیکھ کراس کی التجاؤں میں جوش آگیا۔ سورج نے اسے حرارت بخشی۔ روشنی زندگی دیتی ہے، اس پربھی مہربان ہو گئی۔ وہ بھاگ کر اس سے ہم آغوش ہو گئی۔ مجسمے نے جھک کر اپنے گرم گرم ہونٹ کمہارن کے ماتھے پر رکھ دیے۔ گلابی گالوں کا رنگ سرخ ہوگیا۔

سال ہا سال بیت گئے یا یگ بیت گئے۔ وہ متوالی اپنے محبوب، اپنے دیوتا، اپنے آقا کی خدمت میں مست رہی۔ وہ اسکی پجارن تھی۔ اس کی ہر خواہش پر واری واری جاتی۔ اس کی محبت، نرمی گرمی حتیٰ کہ مار پیار سب ہنسی خوشی قبول کرتی۔ بادل کی طرح برستا تو وہ پیاسی دھرتی بن جاتی۔ طوفان کی طرح گرجتا تو بھاگ کر اسی کی آغوش میں پناہ لیتی۔ وہ بھی اس سے دور نہ جاتا۔ اس کے ساتھ رہتا، ہمیشہ اس کے اندر سمایا۔

وقت گذرتا گیا اور کمہارن بوڑھی ہوگئی۔ ہر فانی شے کی طرح اس نے بھی مٹ جانا تھا۔ کہنے لگی “میرے جانے کا وقت آ گیا ہے۔ میرے بعد تیرے محلات کون سجائے گا؟ تو کہاں رہے گا؟”

بولا، “تیرے ہاتھوں نے مجھے بنایا۔ تیری سوچ نے مجھے نکھارا۔ تو ہی بتا؟”

کمہارن بولی “ہاں! میں تو نہیں جا سکتی لیکن آہوے تخیل پر سوار کر کے میں تجھے پہنچا دوں گی، یہاں سے دور، بہت دور، جہاں کوئی فانی نہ پہنچ سکے، کوہ اولمپس کی چوٹی پر۔ ہواوں کے دوش پر اڑتے، نور کی شعاوں پر تیرتے اڈایا پہاڑ پر۔ افق کے اس پار، چاند اور سورج کی حدود سے بھی اس پار۔ وہ اوپر، حد نگاہ سے بھی اوپر، جہاں مکین و مکاں کی شناخت اوجھل ہو جاتی ہے، لامکاں جو وہم و گماں سے بھی بالا ہے۔”

پھر کمہارن میرے آقا، میرے دیوتا پکارتی اس کے حضور ڈھیر ہوکر مکت ہو گئی۔