سال کے جاتے جاتے


کائنات کی ابتدا یعنی ازل ہے مگر وقت کی ابتدا نہ تھی۔ کائنات کی انتہا یعنی ابد ہے مگر وقت لامنتہا البتہ ہم نے اس کا حساب رکھنے کو ثانیہ، سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ، شب و روز، ہفتہ، ماہ و سال وضع کر لیے ہیں تاکہ اپنی اور اوروں کی زندگی، واقعات اور تاریخ کا حساب رکھ سکیں۔ اسی طرح کا ایک سال اپنے اختتام کو پہنچتا ہوا ہمارے حساب سے 2021 کہلاتا یہ سال رہا۔
اس سال بھی گذشتہ برس کی طرح 2019 کے اختتام سے شروع ہوئی عالمی وبا کی تباہ کاری جاری رہی۔ اس سال میں جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس موذی و مہلک مرض کے خلاف ویکسینیشن لی وہاں ایک بڑی تعداد اس کے استعمال بارے مشکوک یا مخالف رہی۔ اس برس اس مرض میں مبتلا ہونے والوں اور اس کے سبب مرنے والوں کی بڑی تعداد ویکسینیشن نہ لینے والوں کی رہی۔
پھر ایسا بھی ہوا کہ استعمال کی جانے والی مختلف ویکسینوں کے بارے میں پہلے بتایا گیا تھا کہ وہ سال بھر تحفظ کے قابل رہیں گی لیکن مشاہدہ سے معلوم ہوا کہ اس کا موثر پن 6 ماہ میں بہت ہی کم ہو جاتا ہے بلکہ کل یعنی 26 دسمبر کو منظر عام پر آنے والی تحقیق میں ثابت کیا گیا ہے کہ مروج ویکسینوں کا موثر پن پانچ ماہ بعد 40% رہ جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس عرصے کے بعد اضافی ویکسین یعنی بوسٹر ڈوز لینی ہوگی۔ چونکہ پاکستان میں بوسٹر ڈوز یکم جنوری 2022 سے شروع ہوگی اس لیے پاکستان میں اس دوران وہ لوگ بھی مرے جنہوں نے چینی ویکسین کے دونوں ٹیکے لگائے ہوئے تھے مگر بوسٹر ڈوز نہیں لے سکے تھے۔
عام لوگوں میں اس برس بھی یہ غلط فہمی عام پائی گئی کہ دوسری امراض کے سبب انتقال کرنے والوں کو بھی کورونا سے مرنے والوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسا علم طب سے ناشناس لوگ ہی سوچ سکتے ہیں۔ عالمی وبا کے دوران یہ ایک ان لکھا اصول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی اور عارضہ میں مبتلا ہو اور ساتھ ہی زیادہ مریض ہونے کی صورت میں عالمی وبا کا ٹیسٹ بھی مثبت ہو تو موت کی وجہ عالمی وبا کا مرض ہی ہوگا جس کی وجہ سے پہلے سے موجود امراض شدید تر ہو گئیں۔ اس ضمن میں روس کے ایک نامور شخص کی موت پر اس کی عزیز کا یہ بیان درست تھا کہ وہ دو سال سے مختلف عوارض میں مبتلا تھے مگر انہیں ڈسا کورونا نے۔
میں 5 جنوری 2020 کو کراچی میں اپنے چہیتے بھتیجے اور ہم عمر دوست ندیم احمد مرزا سے ایک خانگی تقریب میں مل کر 6 جنوری کو کراچی سے روانہ ہو گیا۔ 15 جنوری کی صبح میرے فون کی گھنٹی بجی تو دور کے ایک کمرے سے بھتیجی کا فون تھا جس نے پوچھا کہ آپ کو کوئی کال آئی۔ میرے انکار پر اس نے بتایا کہ ندیم بھائی جان کا انتقال ہو گیا ہے۔ تعزیت کے لیے پھر کراچی پہنچا۔ ندیم احمد مرزا میں نہ کورونا کی کوئی علامت تھی اور نہ ہی اس کا ٹیسٹ مثبت تھا چنانچہ اس کی موت کو کورونا کے کھاتے میں نہیں ڈالا گیا۔
اس کے برعکس ستمبر 2020 میں میری ہمشیرہ، جسے ویکسین لیے ہوئے سات آٹھ ماہ ہوئے تھے، کورونا کے مرض میں مبتلا ہوئیں۔ تین ہفتے آکسیجن اور پھر وینٹی لیٹر پر گذار کے اسی مرض کے سبب راہی ملک عدم ہوئیں۔
ایسے ہی میرے ہم جماعت اور دوست لیفٹیننٹ کرنل ( ریٹائرڈ) ڈاکٹر عبدالخالق جو کورونا کے خلاف احتیاطوں پر حد درجہ عمل کرتے تھے، گذشتہ دو ہفتوں سے کورونا کے مرض کی ہی وجہ سے ملٹری ہسپتال راولپنڈی میں پہلے ہائی آکسیجن پر اور اب وینٹی لیٹر پہ ہیں۔ اللہ انہیں جلد صحت یاب کرے۔
میرے ایک اور دوست اور ہم جماعت ڈاکٹر ابرار حسین بلوچ ایف آر سی ایس، جو ایک ماہر پلاسٹک سرجن تھے۔ انگلستان، پاکستان، ابوظہبی اور سعودی عرب میں اپنی مہارت دکھانے کے بعد اپنی مستقل شہریت والے ملک انگلینڈ میں تھے اور سکن سرجری کرنے لگے تھے۔ وہ کینٹر بری میں ہسپتال کی دی رہائش گاہ پہ تھے۔ بیٹی جس کا گھر نزدیک تھا سے ایک اتوار کے روز دو تین بار بات ہوئی۔ آخری فون پہ کہا کہ طبیعت ٹھیک نہیں مجھے آئس کریم لا دو۔ بیٹی اور داماد آئس کریم لے کے پہنچے تو دیکھا ہاتھ پاوں ٹھنڈے تھے۔ چونکہ ذیابیطس کے مریض تھے مگر مکمل صحت مند چنانچہ یہ سوچ کر کہ خون میں شکر کم ہو گئی انہیں آئس کریم کھلائی مگر ایمبولینس آنے سے پہلے وہ حرکت قلب بند ہونے کے سبب انتقال کر گئے۔ پوسٹ مارٹم ہوا۔ وجہ معلوم نہ ہو سکی۔ ان کی موت کو بھی کورونا پر محمول نہیں کیا گیا۔
البتہ اب کورونا کی نئی نوع اومیکران افریقہ سے شروع ہوئی ہے اور ستر سے زیادہ ملکوں تک پہنچ چکی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ بے تحاشا پھیلنے کی استعداد اور کم مہلک ہونے کے باعث شاید اتنے زیادہ لوگ مریض ہو کر بدن میں مدافعت پیدا کر لیں کہ پھر ماسوائے 60 سال کی عمر سے زائد یا کم قوت مدافعت والے لوگوں کے باقیوں کو ویکسین ہی نہ لگانی پڑے۔ تاہم 65 برس سے زائد لوگوں کو ہر چھ ماہ بعد بوسٹر ڈوز مزید دو یا زیادہ سال لگانی ہی پڑے گی۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments