صلہ شہید کیا ہے؟


یہ تذکرہ ہے ان شہیدوں کا ،جنہوں نے اپنے خون سے گلزار وطن کی آبیاری کی،انہیں زندگی سے پیارتھا لیکن جمہوریت کے عشق میں کبھی سولی چڑھے تو کبھی سرعام سڑکوں پر قتل ہوئے ۔ یہ داستان ہے ان وفاداروں ،جانثاروں اور تمہارے پیاروں کی جن کی زندگیاں بھی حسین تھیں اور موت بھی شہادت۔ان کے چہرے  روشن تھے اور ان کی قبروں پر ہمیشہ چراغ جلتے ہیں۔محبتوں کے ،عقیدتوں کے،قربتوں کے،جرأتوں کے۔
سننے والیں سنیں،کہ بھٹو ازم کسی خاندان کا نہیں نظریہ کا نام ہے،یہ اعلیٰ نسبوں کی وراثت ہے جسے سدا کا دوام ہے۔یہ لاوارث نہیں بلکہ وارث ہیں حق و صداقت کے ،شجاعت کے ۔اور کیوں نہ ہو کہ ان کا خمیر ہی کربلا کی مٹی اور فرات کے پانی سے گوندھا گیا۔کرب و بلا کی وہ مقدس سرزمین جہاں معصوموں اور مظلوموں کا لہو بے دریغ بہا،یزیدیت نے وحشت اور بربریت کا ننگا ناچ ناچا تو چشم فلک نے اشک بہائے اور زمین خوف سے تھرائی۔قافلہ حسین کے ایک ایک جانثار نے جان کا نذرانہ پیش کیا ،سرکٹائے لیکن جھکائے نہیںاور سرخرو ٹھہرے اپنے اس رب کی بارگاہ میں جس کے قبضہ قدرت میں ہر ذی روح کی جان ہے۔
وقت نے ثابت کیا اور تاریخ میں لکھا گیا۔
”یزید تھا ،حسین ہے”۔
آمریت اور جمہوریت کی جنگ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی،سچ اور جھوٹ،حق اور باطل ،نیکی اور بدی کی طرح ،نفع نقصان ،منفعت اور خسارے ،شکست و فتح سے بے نیاز۔فطرت کا اپنا قانون اور قدرت کا اپنا ضابطہ انصاف ہے اور اس منصف اعلیٰ کاانصاف تو دیکھو جو سب منصفوں کا منصف ہے اور جس کی عدالت میں سب کو جواب دینا ہے کہ وہ لوگ جو زندگی بھر بھٹو کے اسلام کو مشکوک گردانتے رہے ،مرنے کے بعد اسے شہید کہنے پر مجبور ہیں۔جس نے سولی چڑھنے سے پہلے کہا تھا۔
”میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے اس آدمی کا خون نہیں کیا ،اگر میں نے اس کا ارتکاب کیا ہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اس کا اقبال کرلیتا۔میں مسلمان ہوں اور ایک مسلمان کی تقدیر کا فیصلہ قادر مطلق کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔میں صاف ضمیر کے ساتھ اس کے حضور پیش ہوسکتا ہوں اور اس سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس کی مملکت اسلامیہ پاکستان کو راکھ کے ڈھیر سے دوبارہ ایک باعزت قوم میں تعمیر کردیا۔”
آخری وقت تک خدا کو اپنا گواہ بنانے والے بھٹو کوپھانسی چڑھانے والے سمجھے کہ وہ مرگیا،دفن ہوگیالیکن وہ یزید کی طرح تاریخ کی غلط سمت کھڑے تھے وہ بھی اپنی پوری رعونت کے ساتھ۔اور پھر اپنی ہی نخوت کی آگ میں جل کر راکھ ہوگئے۔قدرت اور تاریخ دونوں نے اپنا انتقام لیا،سوئی ہوئی تاریخ جاگی ،وقت بدلا اور کفن پھاڑ کر نعرہ للگا۔
زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ،تم کتنے بھٹو ماروگے ،ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔
پھر بھٹو کی بیٹی بے نظیراپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان عمل میں اتری،وہ خار زار سیاست جہاں ایک نہتی لڑکی کا مقابلہ بندوقوں والوں سے تھا۔طویل جلاوطنی کے بعد جب اس نے پاک سر زمین پر قدم رکھا تو زار و قطار رو پڑی۔وطن کی مٹی کی خوشبو جب جسم وجاں کو معطر کرتی ہے تو الفاظ ،جذبات کا روپ دھار کر آنسوئوں کی صورت بہہ نکلتے ہیں۔اسے ڈرایا گیا ،دھمکایا گیا ،جان سے مارنے کی پیش گوئیاں کی گئیں۔وہ بہادر باپ کی نڈر بیٹی تھی ،جھکی نہیں ،ڈری نہیں ،رکی نہیں۔عوام کا ایک سمندر اس کے دیدار کو امڈ آیا ،اسے سر آنکھوں پر بٹھایا اور نعرہ لگایا ۔
”قدم بڑھائو بے نظیر ،ہم تمہارے ساتھ ہیں ”۔
آمریت زدہ چہروں پر مردنی چھاگئی ،رنگ فق ہوگیا،آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیںحیرانی تھی ،پریشانی تھی کہ یہ کون سی مخلوق ہے ،یہ کیڑے مکوڑے ،یہ مظلوم و محکوم عوام کہاں سے نکل آئے۔ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی۔ملین کیا ہوتا ہے ،ملین مارچ والوں کو شاید تب ہی پتہ چلا کہ پیپلز پارٹی ،پارٹی نہیں فرقہ ہے ،بھٹو ازم اصطلاح نہیں ،عقیدہ ہے جس کی حفاظت کیلئے اس کے ماننے والوں نے جانوںکے نذرانے پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا ۔گڑھی خدا بخش کی تمام قبریں اس کی گواہ ہیں ۔
جبے نظیر کون تھی؟
وہ سراپا محبت تھی ،وفاق کی علامت تھی ،چاروں صوبوں کی زنجیر تھی۔وہ پنجابی،سندھی،بلوچی،پشتون ،کشمیری سب سے پیار کرتی تھی ۔وہ سب کو اپنا سمجھتی تھی اور سب اس پر اپنی جان نچھاور کرتے ،وہ سب کی عزت تھی۔وہ ماں تھی،بہن تھی ،بیٹی تھی ،دختر مشرق تھی ۔عجیب عورت تھی ،جرأت اور استقامت میں چٹان،صبر و رضا کا پیکر،اس کے باپ کو مارا گیا،اس نے اف تک نہ کی،چھوٹے بھائی شاہنواز کو زہر دے دیا گیا ،وہ پیچھے نہیں ہٹی ،اس کے پیارے میر بھائی مرتضیٰ کو اسی کے دور حکومت میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا اور وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر رہ گئی ،اس کی رفیق اور شفیق ماں حواس کھو بیٹی  ،اس کے بچھڑنے پر وہ بس نتہائی میں تڑپتی رہی ۔
بھٹو کی بیٹی بے نظیر نہتی ضرور تھی لیکن کمزور نہیں۔عوام اس کی طاقت تھے اور وہ رکاوٹ تھی بہت سے لوگوں کی راہ میں۔ان جرنیلوں کی راہ میں جنہوں نے ہر دور میںجمہوریت پر شب خون مارا،ان جعلی سیاست دانوں کی راہ میںجو فوج کے گملوں میں اگائے گئے ،ان ججوں کی راہ میں جنہوں نے انصاف کے نام پر ہمیشہ نا انصافیاں کیں ،مذہب کے ان ٹھیکے داروں کیلئے جو عورت کی حکمرانی کو اپنے نام نہاد اسلام کے خلاف سمجھنے تھے،ان جہادیوں کی راہ میں جو ہمیشہ امریکی ڈالروں پر پلتے رہے،ان جاگیرداروں اور وڈیروں کی راہ میں جو عوام کو اپنا مزارع اور ان کی عزتوں کو مال غنیمت قرار دیتے رہے،ان علاقائیت پسندوں کی راہ میں جوفرقہ واریت کا نعرہ لگا کر پاکستان کو کمزور کرتے رہے،ان لسانیت پسندوں کی راہ میں جوزبان کے نام پر قوم کو تقسیم کرتے رہے۔
کب تک ،کب تک ،آخر کب تک؟
بالآخر آمریت کے شکنجے میں جکڑے ذہنوں نے اس رکاوٹ کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔یہ دسمبر کی منحوس اور خون آلود شام تھی ،دائمی زندگی سے پہلے اخروی زندگی کی آخری شام۔۔۔زندگی کا سودا کرکے موت خریدنے کی شام،اور موت کی آغوش میں جاکرزندہ ہوجانے کی شام۔فلسفہ حسینی کا پیغام سنانے اور شہادت کو گلے لگانے کی شام۔وقت کا شمر حملہ آور ہوا ،تاک کر نشانہ لیا اور ایک سنسناتی گولی بے نظیر کے دماغ سے آر پا ر ہوگئی ۔باپ کے مشن کی تکمیل کیلئے اپنی زندگی وقف کرنے والی بیٹی نے موت کو بھی اسی طرح گلے لگایاکہ ہمیشہ کیلئے امر ہوگئی۔زندہ رہی تو بھی بھٹو ازم کا پرچم ہی اٹھائے رکھا،سبز ،سرخ اور سیاہ رنگ کا پرچم،اسلام ،جمہوریت اور مساوات کا پرچم،اور جب وہ اپنے باپ کے پہلو میں ابدی نیند سونے قبر میں اتری تو اسی پرچم میں لپٹی تھی۔شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔سو افسوس کیسا،دکھ کیسا ،ماتم کیسا۔شہید بی بی کو اپنے انجام کا پتہ تھا اور یہ راہ اس نے خود منتخب کی تھی۔
سندھ سے پنجاب آکرلیاقت باغ میں جلسہ کرنے والے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو مار کر پاکستان توڑنے والوں کی سازش عوام نے ناکام بنادی اور قتل ہونے والے لیاقت علی خان کو”قائد ملت” کا خطاب دیا،پھر سندھ سے آنے والے ہی ایک اور سابق وزیر اعظم کو اسی شہر میں پھانسی دے دی گئی ،لوگوں نے اسے” قائد عوام” مانا۔پھر اسی کی بیٹی اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم کو اسی شہر میں سر عام گولیاں ماردی گئیں اور وہ پاکستان کی تاریخ میں غیر متنازعہ ”شہید جمہوریت” کہلائی۔بے نظیر بھٹو تو آج اپنے باپ کے پہلو میں لیٹی اس سے سرگوشیاں کررہی ہوگی۔شہید باپ ،بیٹی دونوں کتنے مسرور ہوں گے،بے چین روحوں کو کتنا سکون ملا ہوگالیکن کیا ان کے قاتل کبھی خوش رہ سکیں گے،ان کے ضمیر مطمئن ہوسکیں گے؟بھٹو اور بے نظیر کو قتل کرنے والے کیا ان کے نظریہ کو بھی قتل کرپائے ؟
آج پھر 27دسمبر ہے ۔وہی شام ،  وہی وقت اور وہی تاریخ ۔۔ایک طرف گڑھی خدا بخش کا قبرستان ہے اور دوسری طرف اسلام آباد کی مسجد کے احاطے میں ایک ویران اور تنہا قبر۔ایک طرف بھٹو کے وارث جمع ہیں اور دوسری طرف مردہ اور زندہ لاوارث۔فطرت کا اپنا قانون اور قدرت کا اپنا انصاف ہے۔بھٹو شہید نے تنِ تنہا سزائے موت کی کال کوٹھڑی سے جس سول سپرمیسی پر سودے بازی سے انکار کیا۔اس عظیم مقصد کے لئے اپنی اور اپنے دونوں بیٹے اور پیاری بیٹی بھی قربان کر دی۔آج بھٹو کا خون رنگ لے آیا اس کے بدترین مخالف بھی اس عظیم لیڈر کے فلسفہ جمہوریت کو لے کراسکی جنگ لڑ رہے ہیں۔
تاریخ بدل رہی ہے ،کٹھ پتلی تماشا ختم ہونے کو ہے ۔نعرہ مستانہ بلند ہونے کو ہے ۔۔۔۔۔زندہ ہے بھٹو زندہ ہے،زندہ ہے بی بی زندہ ہے ۔تم زندہ ہوکر مردہ ہو ،وہ مردہ ہوکر زندہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments