اکرم کنجاہی کی کتب :غزل کہانی اور شعور سے لاشعور تک


”مجھے دل سے یقین ہے کہ میں لکھنے کے لیے پیدا ہوئی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ میں لکھ کر اپنی زندگی کا مقصد پورا کر رہی ہوں۔ میرے کتبے پر یہ

الفاظ قابل تعریف ہوں گے ۔ ”وہ لکھنے کے لیے زندہ تھی“ ۔

مارگریٹ منکس کی طرح شاید ہر لکھنے والے کی کم از کم یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ اس کے بعد کہیں نہ کہیں یہ تذکرہ ضرور ہوتا رہے کہ وہ لکھنے کے لیے زندہ تھا۔ بہرکیف یہ جاننے کے باوجود اکرم کنجاہی کی مذکورہ بالا کتب پر لکھتے ہوئے جہاں ان کی شخصیت میرے سامنے ہے وہاں یہ سوال ابھی تک میرے روبرو ہے کہ آخر ہم کیوں لکھتے ہیں؟ اس سوال کے کئی ممکنہ جوابات ہو سکتے ہیں۔ مثلا۔ مجھے یہی آتا۔ میں لکھنے کے لیے زندہ ہوں۔

میں پیسا کمانے کے لیے لکھتا ہوں۔ میں بطور مصنف شہرت چاہتا ہوں۔ میری کوئی سنتا نہیں اس لیے میں لکھ کر اپنے آپ سے ہم کلام ہونا چاہتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب میں اکرم کنجاہی کو دیکھتا ہوں تو مجھے میرے سوال کے مذکورہ جوابات میں سے کوئی بھی ایسا جواب نہیں ملتا جس کے حوالے سے میں یہ وثوق سے کہہ سکوں کہ اکرم کنجاہی کیوں لکھتے ہیں۔

اکرم کنجاہی کے ساتھ ابھی تک میری ایک بالمشافہ ملاقات ہے۔ انھیں میں جتنا سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ ایک مجلسی آدمی ہیں اور مجلس کے لیے زندہ ہیں۔ ان کی کمائی کے ذرائع کتاب اور قلم کے علاوہ ہیں۔ انھیں محافل میں اور اسٹیج پر بڑی مہارت سے گفتگو کرنی آتی ہے۔ وہ بینکنگ کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ اگر انھیں محض شہرت درکار ہے تو ان کے سامعین کے لیے ان کی گفتگو اور تقریر ہی کافی ہے۔ اور جو سامع نہیں۔ ؟ باقی رہا تحریر سے شہرت حاصل کرنا اور ادبی تاریخ کا حصہ بننا یہ ہمارے ہاں نصیب اور کرم کا معاملہ ہے۔ جہاں تک لکھ کر اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا سوال ہے تو ایسا وہ کرے، جسے بزم یاراں میسر نہ ہو۔

بہرحال میں کوشش کرتا ہوں کہ مجھے کوئی معقول جواب مل جائے۔ سبھی جانتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں کہ تحریر میں مصنف کی شخصیت موجود نہ ہو ”غزل کہانی“ اور ”شعور سے لا شعور تک“ کو پڑھتے ہوئے میں نے یہی سوال اکرم کنجائی کی تحریر کے بین السطور چھپی ان کی شخصیت کے سامنے رکھا کہ آخر آپ کیوں لکھتے ہیں؟ وہ کیا جواب دیتے۔ ان کی تحریر کے ہر لفظ نے گواہی دی۔ ”بھئی! اسے لکھنا آتا ہے اور جب لکھنا آ جائے تو اسے چھپانا غیر فطری ہے۔ اکرم کنجاہی کو صرف سامعین کافی نہیں اسے قارئین بھی چاہیں۔ وہ لکھ کر بہت سے دلوں میں زندہ رہنا چاہتا ہے“ ۔ یقیناً اکرم کنجاہی کی تحریر سے مجھے میرے سوال کا معقول جواب مل گیا ہے اور اب میرا کام شروع ہو چکا ہے۔

اکرم کنجاہی کے فکر و فن پر بات کرنے سے پہلے ان کے اسلوب نگارش اور تنقیدی شعور کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے تاکہ ان کی تحریر سے اخذ شدہ جواب کو تقویت مل سکے۔

”اڑتے ہوئے لمحے“ ان کی شاعری کا ابتدائی پڑاؤ تھا۔ وہ وقت کے برق پا لمحوں کے پیچھے معصوم بچوں سی پاکیزہ اور معصومانہ خواہشات لیے بھاگتے چلے جا رہے ہیں اور ان لمحوں کو زنجیر کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی غزل داخلیت کی منشور سے پھوٹنے والی ہفت رنگی کا نام ہے۔ (۔ سیف الرحمن سیفی۔ کتاب : غزل کہانی )

شاید تو نیند ہی میں مرے پاس آ سکے
میں نیند میں بھی تیرے لیے جاگتا رہا

اردو غزل کی تاریخ پر مبنی اکرم کنجاہی کی کتاب، غزل کہانی ”کے ذریعے میرا تعارف اکرم کنجاہی کی تحریروں سے ہوا۔ کہانی لکھنے والے کے پاس تاریخ میں طے شدہ کرداروں کے علاوہ یہ پورا اختیار ہوتا ہے کہ اس نے کس کردار کو کہانی میں کتنی جگہ دینی ہے اور کس کردار کو کہانی سے ڈراپ کرنا ہے۔ کیونکہ کہانی کار کا سروکار کہانی سے ہوتا ہے کرداروں سے نہیں۔ وہ اپنے وژن کے مطابق اپنے منتخب کردہ کرداروں کو کہانی میں چلاتا ہے۔

بہرحال کہانی کی کامیابی کا دار و مدار پلاٹ اور کرداروں کی ماہرانہ پیش کش سے ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اکرم کنجاہی نے غزل کی داستان کے اہم کرداروں کے ساتھ کچھ نئے کردار بھی متعارف کروائے ہیں۔ ان کا یہ کارنامہ بھی کچھ کم نہیں کہ انھوں نے غزل کی ہزار ہا صفحوں پر پھیلی ہوئی وسیع داستان کا، اپنی کتاب“ غزل کہانی ”میں خلاصہ کر دیا ہے۔ میرے نزدیک یہ عمل دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔

بہرحال کتاب پڑھتے ہوئے میرے سامنے یہ سوال تھا کہ اس کتاب کو انھیں لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ غزل پر بہت سی کتابیں اور مضامین پہلے سے موجود ہیں؟ کتاب پڑھنے کے بعد میں نے ”غزل کہانی“ کے اختتام پر یہ جواب اخذ کیا کہ ایک تو وہ نو واردان علم کو اردو غزل کا نیا روڈ میپ دینا چاہتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ بالغ نظر اردو دنیا کے ناقدین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ غزل کے نئے استعارے اس صنف کے دامن میں نئے تخلیق کاروں کے ہاتھوں کتنے روشن تر ہو رہے ہیں۔ اس لیے ابھی اس صنف سے اکتانے کی ضرورت نہیں۔

یہ حقیت ہے کہ غزل کی کہانی، اس کی ابتدا سے اب تک جاری ہے اور غزل کہنے والے اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کہانی نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے لیکن یہ اتنی سخت جان ہے کہ 1نتقادی غلغلہ کے باوجود ہمارے شعرا اس کی انگلی پکڑے ہوئے تخلیقی سفر پر گامزن ہیں۔ نقاد بارہا یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ اس تنگنائے سے باہر نکل کر ہی جدید تخلیقی رفعتوں کو چھوا جا سکتا۔ غالب نے جس اوج پر اسے پہنچانا تھا پہنچا دیا۔

لیکن ان بالغ نظر صاحبان علم و دانش کو کون سمجھائے کہ اس کے امکانات کے اختتام کا تو تب پتا چلے جب ہمارے تہذیبی، ثقافتی اور نفسیاتی رویے اس نہج پر پہنچیں جن کے بیان کے لیے کسی اور ہئیت کو قبول کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہم غربت اور استحصالی رویوں کے ماروں کے پاس جیسا کیفیات اور احساسات کا خزانہ اور وژن ہے غزل اس کا پورا پورا ساتھ دے رہی ہے۔ مغرب کے اپنے مسائل ہیں وہاں کے معاشرتی اداروں کا چلن اور ہے۔ وہ چلن جب یہاں فطری انداز میں رائج ہو جائے گا تب اس صنف کے مستقبل کا فیصلہ بھی ہو جائے گا۔

اس صنف سخن میں کتنے مزید امکانات ہیں یہ طے کرنا ابھی ناقدین کا کام نہیں۔ جس طرز زندگی سے ہمارا واسطہ ہے۔ اسے یہ صنف قبول کر رہی ہے۔ بڑی شاعری کا انحصار ہئیت پر نہیں، شاعر کے وژن اور تجربے پر ہوتا ہے۔ اور شاعر کا وژن اور تجربہ جس ہئیت میں اپنا تخلیقی وجدان اتارتا ہے، وہ اپنے جوہر سے، اس صنف کی وسعتوں کا تعین بھی کر دیتا ہے اور حیات بھی دے دیتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ مسئلہ صنف کے ساتھ ہے یا ہمارے تخلیق کار کے ساتھ ہے یا پھر اس تہذیب کے ساتھ جو ابھی تک غزل کے روپ میں گنگنا رہی ہے۔

ایک بات بڑی اہم ہے کہ کسی بھی فن پارے، تخلیق کار اور صنف کا تعین اس کے ثقافتی منظر نامے میں ہوتا۔ بہرحال یہ ایک طویل مکالمہ ہے، جس کی فکری اساس مجھے ”غزل کہانی نے فراہم کی۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اکرم کنجاہی کی یہ کتاب سوچنے والے اذہان پر دستک کا باعث بنے گی اور ایسے کئی سوال اٹھائے گی۔ کتاب سوال نہ اٹھائے تو وہ بے معنی ہوتی ہے۔ جیسے جیسے یہ کہانی آگے بڑھے گی سوال اٹھتے رہیں گے۔ بہرحال سردست یہ کیا کم ہے کہ اکرم کنجاہی کی اس کتاب کے ذریعے بہت سے نئے اور فراموش شدہ کردار اردو غزل کی اس کہانی میں محفوظ ہو گئے اور غزل کے وجود کو اپنے ہونے کا ایک اور بھرپور جواز مل گیا۔

اکرم کنجاہی کی دوسری کتاب ”شعور سے لاشعور تک“ جو میرے اس مختصر مضمون کا موضوع ہے۔ اس کا بنیادی مقدمہ تخلیق کار کے وہ انفرادی اور اجتماعی نفسیاتی معاملات ہیں جو خارجی اور داخلی دنیاؤں سے جنم لے کر لمحۂ بصیرت کے دوران میں ایک ارفع ترین تخلیقی صورت میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ کتاب کے پہلے حصے میں جہاں انھوں نے تخلیقی عمل میں کار فرما لاشعوری محرکات کا جائزہ لیا ہے وہاں اردو تنقید کے نفسیاتی دبستان کے ان مباحث کو بڑے سادہ، عام فہم اور رواں اسلوب میں پیش کیا ہے جن کو سمجھتے سمجھتے ادب کے بہت سے طالب علم تھک ہار کر کتاب طاق میں رکھ کر سو جاتے ہیں۔

اسلوب کی یہ روانی تب میسر آتی ہے جب صاحب کتاب اپنے موضوع کی تمام تر باریکیوں سے آگاہ ہو۔ آگہی کا یہ سفر مطالعہ اور مسلسل سوچ کا متقاضی ہے۔ اکرم کنجاہی کی اس کتاب میں سوچنے اور سمجھنے والے اذہان کے لیے بہت کچھ ہے۔ مذکورہ کتاب میں شامل اکرم کنجاہی کی چند سطور جو صنف۔ غزل میں موجود لاشعوری کیفیات کی طرف اشارہ کرتی ہیں، انھیں میں احباب کی نذر کرنا چاہوں گا۔ یہ جانتے ہوئے کہ سیاق و سباق کی عدم موجودگی میں معانی بدل جاتے ہیں لیکن باشعور لاشعور تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔

سطور پڑھیے اور سمجھیے۔ ”غزل میں تو حسن و جمالیات کو موضوع بنا کر جو کچھ کہا جاتا ہے اس کو عملی شکل دے دی جائے تو سماج میں افراتفری پھیل جائے۔ واہ واہ گردن زدنی ٹھہر جائے۔ لاشعور میں جو عناصر موجود ہوتے ہیں وہ غیر معمولی حد تک غزل کی فضا اور اس کے مزاج سے ہم آہنگ ہوتے ہیں“ ۔ یاد رہے یہاں غزل کے تغزل میں رچے بسے موضوعات کے تنوع کی طرف ایک بلیغ اشارہ ہے۔ غالب نے کہا تھا ”بنتی نہیں ہے بادہ ساغر کہے بغیر“ ۔ یہ اردو غزل کی علامتی ساخت کا وہ اشاریہ ہے جو اس خطے کی تہذیب کا ایک اہم پہلو ہے۔ ”صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں“ ۔

کتاب کا حصہ دوم کچھ شعرا کے کلام کا تجزیاتی و تاثراتی مطالعہ ہے۔ یقینی بات ہے جس طرح تخلیق کار کا لاشعور اس کی تخلیقات میں ظاہر ہوتا ہے اسی طرح نقاد کا لا شعور بھی اس کی تنقیدی آرا سے عیاں ہوتا ہے۔ اس حصے کو پڑھتے ہوئے جہاں ہم کچھ شعرا کے کلام کے اہم پہلوؤں سے آگاہی حاصل کرتے ہیں وہاں اکرم کنجاہی کے تنقیدی نظریات سے بھی متعارف ہوتے ہیں۔ بلاشبہ مذکورہ بالا دونوں کتابوں کا اسلوب، مواد اور ان میں موجود تجزیاتی افکار، اکرم کنجاہی کو لکھنے اور بہت لکھنے کا بھرپور جواز فراہم کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments