کھیل کو جان بنائیں جان کو کھیل مت بنائیں



ہمارے ہاں دکان کھولنا مشکل، مدرسہ یا اسکول کھولنا نہایت آسان ہے۔ شاید آپ نے نہ دیکھے ہوں ہم نے ایسے اسکول اور مدارس بھی دیکھے جہاں

عمارت تنگ ہونے کی بنا ء پر اسمبلی تک نہیں ہوتی۔ تنگ گھروں سے نکل کر بچے تنگ کمروں کے اسکولوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح پڑھتے ہیں۔ بریک میں بچے جماعت میں بیٹھ کر لنچ کرتے ہیں۔ ایسے اسکولوں میں بچے شوق سے اسکول نہیں جاتے۔ اکثر اسکول جانے کا بہانہ کر کے دوستوں کے ساتھ تفریح کرتے ہیں وہ تفریح جو پڑھائی کے ساتھ اسکول میں ہو سکتی تھی۔ بچوں میں کھیل اور تفریح کا شوق فطری ہے۔ لیکن یوں اسکول سے غیر حاضر ہو کر بچوں میں اپنے والدین کو دھوکا دینے سے دنیا کو دھوکا دینے کا آغاز ہو جا تا ہے۔

سرکاری درس گاہوں میں چند ایک کو چھوڑ کر ان کے تدریسی اور غیر تدریسی معیار سے سب واقف ہیں۔

نامی گرامی بھاری فیس والے اسکولوں میں بھی یہ ہی صورت حال ہے۔ والدین کی نظر انتخاب اس اسکول پر پڑتی ہے جس کے بینر پر کسی پوزیشن ہولڈر بچے کی تصویر چسپاں ہو۔

کسی بھی ملک میں خوشحالی اور امن کی وجوہات جانچنا ہو تو وہاں کھیلوں کے فروغ کے لیے ہونے والی کوششوں کا جائزہ لیں۔

ضیاء الحق کی پیروی میں عوام میں مقبول ہونے کے لیے اسلام کا نعرہ بلند کیا گیا اور نعرے کو سچائی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے طلباء کے نصاب کو اسلامی طرز پر ڈھالنے کی کوشش کی گئی۔ اسلامی جمہوریہ میں اسلام کے مروجہ اصولوں پر عوام، حکمران اور درس گا ہیں کتنی کاربند ہیں اس کے لیے کسی سروے کی ضرورت نہیں۔ موجودہ حکومت بھی عوامی مقبولیت کی اہل ہو نے کے لیے اسی نعرے پر عمل پیرا ہونے کے لیے نصابی اور تدریسی تبدیلی پر عمل پیرا ہو چکی ہے۔

اس سب میں اطمینان کا پہلو بھی ہے کہ بس ایک سال اور۔ لیکن اس کے بعد آنے والی حکومت کے امید واروں کو اپنے منشور میں نصابی اور تدریسی طریقۂ کا ر کو دور جدید میں سانس لیتی ذہین ترین نسل کے مزاج سے ہم آہنگ کرنے کے لیے واضح لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا۔ درسی مضامین کی تعداد کم کر کے بچوں کے اسکول بیگ کا وزن کم کیا جائے۔ ہفتے میں ایک دن نہیں کم از کم تین دن ان ڈور اور آؤٹ ڈور گیم ہوں۔ جن کے لیے ماہر اساتذہ مقرر کیے جائیں۔

کسی بھی مدرسے یا اسکول کی رجسٹریشن کے لیے کھیل کا مناسب میدان بنیادی شرط قرار دی جائے۔ ایسے تمام مدارس اور اسکولوں کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے جہاں کھیل کے لیے مناسب جگہ نہ ہو۔

کسی بھی معاشرے کے سدھار کے لیے کھیل جادوئی صفت رکھتا ہے، یہ رنگ نسل فرقوں امیری غریبی کے فرق کو مٹاتا ہے۔

کھیل، انسان کو انسان سے جوڑنے والا واحد عمل ہے۔ جس کے دوران کسی مایوسی، پریشانی، نشہ، چوری، زیادتی، نفرت، انتقام کا خیال بھی قریب نہیں پھٹکتا۔ کھلاڑی کا کا فوکس صرف اپنے کھیل پر ہوتا ہے۔ باجماعت کھیل کا قیام بھی گھر سے باہر ہی ممکن ہے۔ اس جماعت میں جتنے زیادہ افراد ہوتے ہیں انسان سماجی طور پر اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے۔ اس عمل سے پہلے کوئی لمبا چوڑا درس نہیں ہوتا، گناہ ثواب جنت، دوزخ میں جانے کے اسباب نہیں بتائے جاتے۔ کفر کا فتویٰ لگا کر کسی کو جماعت سے باہر نہیں کیا جا تا، فرق نہیں ہوتا۔ یہ واحد جماعت ہے جہاں مرتے دم تک انسان طبقاتی، مذہبی، لسانی، گروہی، فرق کے بنا مرتے دم تک ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔

اس جماعت کے قیام اور بلاوے کے لیے کسی عمارت کی تعمیر اور لاؤڈ اسپیکر کی ضرورت نہیں۔ نظم و ضبط، بھائی چارہ، وقت کی پابندی، شگفتہ مزاجی، در گزر، اخلاص، ناکامی کو سہنے اور اگلی کامیابی کے لیے کوشش، برائی اور بے حیائی سے اجتناب بھی بہتر کارکردگی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اور انعام کی نوید اسی زندگی میں سرخروئی کی صورت میں عطا کر دیا جا تا ہے۔ اسی زندگی میں انسان بہترین صحت کے ساتھ لوگوں کی محبت اور اپنوں کا احساس فخر محسوس کرتا ہے۔

پاکستان میں پندرہ سال پہلے کیے گئے اندازے کے مطابق سڑکوں پر زندگی گزارنے والے بچوں کی تعداد چودہ سے پندرہ لاکھ ہے۔

ہمارے ملک میں این جی اوز گلیوں اور سڑکوں پر آوارہ پھرنے، والے غریب بچوں کی بہبود کے لیے اپنی حد بھر کام کر رہی ہیں۔ ایسے بچوں کو کھیلوں میں حصہ لینے کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں، لیکن ابھی ان بچوں کی تعداد غیر تسلی بخش ہے۔

عالمی تحریک اسٹریٹ چائلڈ ورلڈ کپ کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ تحریک برطانیہ کی انسانی حقوق اور فلاح و بہبود کی تنظیم ”آموس ٹرسٹ“ نے شروع کی تھی۔ برازیل، روس اور اگلے سال ان بچوں کا ورلڈ کپ دوہا قطر میں ہو رہا ہے۔ پاکستان سے بھی فٹ بال ٹیم کے لیے بچوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔

فٹ بال کے ساتھ، بچوں کو بہت سے کھیل متعارف کرائے جائیں، تاکہ بچے اپنے شوق اور صلاحیت کے مطابق کھیلیں اور مقابلوں میں حصہ لیں۔

ملک کو جرائم سے پاک کرنے اور بچوں کو بے راہ روی اور زیادتی کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے سرکاری سطح پر انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے اندر پی ایس ایل کی طرز پر محروم طبقے سے گلیوں اور سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے والے بچوں کو کھیل کی جانب راغب کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر پارک بنائے جائیں، مختلف کھیلوں کے مقابلے منعقد کیے جائیں۔ دور دراز علاقوں میں رہنے والے بچوں کو پارک لانے لے جانے کے لیے اسپورٹس بسیں چلائی جائیں۔

تاریخی طور پر کسی ریاست کا مقابلہ کرنے کے امید کے بجائے ایک فلاحی، صحت مند معاشرے کی تشکیل یقینی ہو سکتی ہے۔ کھیل سے جان بنائیں، کھیل کو جان بنائیں مگر جان کو کھیل بننے اور بنانے کے لیے سڑکوں اور گلیوں میں مت چھوڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments