پرویز مشرف نے بے نظیر کے قاتلوں بارے مخبری پر ”نو ایکشن“ کیوں لکھا؟


پاکستان پیپلز پارٹی ہر سال 27 دسمبر کو ملک گیر سطح پر اسی طرح اپنی پارٹی کی چیئرپرسن و سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت پر جلسے منعقد کر کے اپنی قائد کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے جس طرح ہر سال 4 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ 27 دسمبر 2021 ء کو بھی بے نظیر بھٹو کے 14 ویں یوم شہادت پر ان کے جائے شہادت پر پھول چڑھائے گئے اور گڑھی خدا بخش میں جلسہ منعقد کیا گیا جو آج بھی پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت کا مرکز ہے۔

ہر سال کی طرح اب بھی پیپلز پارٹی کے ”جیالے“ بینظیر ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں، کے نعرے لگاتے ہوئے اپنے اپنے گھروں میں واپس چلے گئے ہیں۔ 14 سال گزرنے کے باوجود تاحال بے نظیر بھٹو کے ”اصل“ قاتل اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکے یہ الگ بات ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ”سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں“ کو مختلف مقامات پر ڈرون حملوں میں مار دیا گیا یا پھر دیگر وارداتوں میں ٹھکانے لگا دیا گیا بے نظیر بھٹو کے اصل قاتل تا حال آزاد پھر رہے ہیں۔ آصف علی زرداری جنرل پرویز مشرف کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں لیکن جنرل پرویز مشرف اس کا ذمہ دار ان کے شوہر کو قرار دیتے ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ قتل کا فائدہ جس شخص کو ہوا وہی ذمہ دار ہے۔

اس اندھے قتل میں ملوث لوگوں کا تاحال بے نقاب نہ ہونا بھی ہمارے ریاستی اداروں کی ناکامی کہہ لیجیے یا پھر انہوں نے دانستہ ایک قومی لیڈر کے قتل پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ لیاقت باغ وہی مقام ہے۔ جہاں 16 اکتوبر 1952 ء کو جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے لیاقت علی خان کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا۔ اس مقام سے چند کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک فوجی ڈکٹیٹر نے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔

ایسا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کل ہی کی بات ہے۔ سورج ڈوب رہا ہے۔ دن کا اجالا اندھیرے میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اچانک خون آشام لیاقت باغ میں بم دھماکے سے پورا علاقہ لرز اٹھتا ہے۔ گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ہر طرف اندھیرا چھا جاتا ہے۔ بم دھماکے سے بلٹ پروف گاڑی چھلنی ہو جاتی ہے۔ گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے تمام افراد محفوظ ہوتے ہیں لیکن گاڑی سے باہر سر ہونے کی وجہ سے ان کی گردن میں گولی لگتی ہے جسے بعد ازاں میڈیکل رپورٹ میں تبدیل کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ ان کی موت گاڑی کے سن روف کا لیور لگنے سے ہوئی۔ اب تو سابق وزیر داخلہ رحمنٰ ملک نے بھی اپنے کتاب میں سن روف کا لیور لگنے سے موت کی تصدیق کی ہے لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بے نظیر بھٹو کو ہر قیمت پر شہید کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

پاکستان کی دو بار منتخب ہونے والی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو ایسی کاری ضرب لگی کہ وہ ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ گئیں انہیں بے نظیر ہسپتال (راولپنڈی جنرل ہسپتال ) مری روڈ لایا گیا اسے حسن اتفاق کہیے کہ اس روز میاں نواز شریف بھی راولپنڈی میں ایک جلوس کی قیادت کر رہے تھے۔ وہ استقبالی جلوس چھوڑ کر سیدھے بے نظیر بھٹو ہسپتال پہنچ گئے وہیں انہیں بتایا گیا اب محترمہ بے نظیر بھٹو اس دنیا میں نہیں رہیں جوں ہی بے نظیر بھٹو کی شہادت کا اعلان کیا جاتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے غمگین کارکن دھاڑیں مار میاں نواز شریف سے لپٹ کر رونے لگے۔ وہ ”میثاق جمہوریت“ پر دستخط کرنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی والوں کے اتنے قریب ہو گئے تھے کہ ان سے لپٹ کر رو رہے تھے۔ یہ انتہائی جذباتی منظر تھا۔ پیپلز پارٹی کے مشتعل کارکنوں نے مری روڈ پر سرکاری و غیر سرکاری عمارت اور گاڑیوں کو نذر آتش کر کے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔

میں نے رات کو اسلام آباد آفس سے اپنے گھر واپس آتے ہوئے مری روڈ پر تباہی و بربادی کا بھیانک منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بڑے بڑے سیاسی قتل ہوئے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے اندھے قتل کی شہادتیں جائے وقوعہ سے راتوں رات مٹا دی گئیں اگرچہ قاتلوں تک پہنچ جانے کے باوجود پولیس انہیں کوئی سزا نہیں دلوا سکی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بے نظیر بھٹو کے قتل کا کیس اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکا۔

آصف علی زرداری نے جنرل پرویز مشرف پر بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام لگایا تو دوبئی میں بیٹھے جنرل پرویز مشرف نے ان پر جوابی الزام عائد کر کے خود ہی اپنے آپ کو قتل سے ”بری“ قرار دے دیا بے نظیر بھٹو کو سیاسی منظر ہٹائے جانے کے بعد ملک کا سیاسی نقشہ ہی تبدیل ہو گیا نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں جنرل پرویز مشرف کے جبر کے دور میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اسی جبر و استبداد نے دو متحارب سیاسی قوتوں کو مئی 2006 میں ”میثاق جمہوریت“ پر دستخط کرنے پر مجبور کر دیا یہی وجہ ہے جب 2008 ء میں عام انتخابات ہوئے تو نواز شریف اور آصف علی زرداری نے مل کر حکومت تو بنائی لیکن یہ الگ بات ہے کہ دونوں جماعتوں پر مشتمل حکومت ڈیڑھ ماہ سے زائد نہ چل سکی

پاکستان مسلم لیگ (ن) ججوں کی بحالی کا وعدہ پورا نہ کرنے پر پیپلز پارٹی کی حکومت سے الگ ہو گئی۔ مجھے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور بلاول بھٹو زرداری سمیت تین نسلوں کی کوریج کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ میں 16 سال تک مسلسل راولپنڈی و اسلام آباد پریس کلب کا صدر رہا ہوں اس دوران دو بار محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی پریس کلب مدعو کیا پہلی بار جب 1990 ء صدر غلام اسحق نے ان کی حکومت برطرف کر دی تو میں نے قومی اسمبلی کے سابق رکن شاہد ظفر کی وساطت سے بے نظیر بھٹو سے میٹ دی پریس پروگرام کے لئے وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن پریس کلب میں راقم السطور سے شکست کھانے والے رہنماؤں نے ان کو راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب آنے سے روک دیا۔

میں نے ہمت نہیں ہاری دوسری بار جب 1997 میں سردار فاروق احمد خان لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی تو میں نے شاہ محمود قریشی کی وساطت سے ان کو راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب مدعو کر لیا لیکن ان کی طرف سے میٹ دی پریس پروگرام کی دعوت قبول کرنے کی بھنک دوبارہ ان ہی عناصر کو ہو گئی جو پہلے ان کے پریس کلب میں آنے کی راہ میں حائل تھے۔

سو دوسری بار بھی وہ جیت گئے اور میں بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب جسے اب نیشنل پریس کلب کا نام دے دیا گیا ہے۔ میں لانے میں ناکام ہوا بہر حال میں نے سینئر صحافی شمیم اختر کے ہمراہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے وزیر اعظم ہاؤس میں روزنامہ نوائے وقت اور ہفت روزہ فیملی کے لئے انٹرویو کیا اس انٹرویو میں ان سے کھل کر ملکی سیاسی صورت حال پر بات چیت ہوئی میں نے ان کو ایک ذہین خاتون پایا جسے ملکی سیاسی امور پر گہری دسترس حاصل تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی تربیت کا ان شخصیت پر گہرا اثر تھا۔ وہ ایک معاملہ فہم خاتون تھیں اپنے سیاسی مخالفین سے خوب لڑنا جانتی تھیں یہی وجہ ہے۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی منظر سے ہٹائے جانے کے بعد کم و بیش 29 سال تک پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی۔

میں نے ان سے جولائی 2007 ء میں لندن میں روزنامہ نوائے وقت اور وقت نیوز (نشریات شروع کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں ) کے لئے اس وقت کے لندن میں روزنامہ نوائے وقت کے نمائندے آصف بٹ کے ہمراہ انٹرویو کیا اس مقام پر میں نے راجہ نوید آف بریڈ فورڈ جن کا تعلق خطہ پوٹھوہار سے ہے، کی بے نظیر بھٹو سے ملاقات کرائی۔ مجھے یاد ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے انٹرویو میں ہم سے اپنی پاکستان واپسی کے شیڈول کی تفصیلات شیئر کیں لیکن مجھے یقین نہیں تھا کہ بے نظیر بھٹو ”جبر کے ماحول“ میں پاکستان واپس آئیں گی کیونکہ ان کو مختلف ہتھکنڈوں سے ڈرایا دھمکایا جا رہا تھا۔ انہیں پاکستان واپس آنے کی پاداش میں سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں شنید ہے جنرل پرویز مشرف نے انہیں عام انتخابات اے قبل پاکستان آنے پر ”حفاظت“ کی ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا لیکن اس بہادر خاتون نے ”خود ساختہ“ جلاوطنی ختم کر کے تمام تر خطرات مول لے لئے۔

اکتوبر 2007 کو کراچی پہنچنے پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا لیکن رات کے وقت ان کے استقبالیہ جلوس میں بم دھماکہ کرا کر ان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی بے نظیر بھٹو قاتلانہ حملے میں تو بچ گئیں لیکن بم دھماکے میں پیپلز پارٹی کے بیسیوں کارکن اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن یہ بہادر خاتون اپنے سیاسی مورچے میں ڈٹی رہیں چونکہ وہ جنرل پرویز مشرف کی مرضی کے خلاف پاکستان واپس آئی تھیں لہذا ان کی جان کو خطرہ تھا۔ ان کو لیاقت باغ کے جلسہ جانے سے قبل بھی حامد کرزئی نے جلسہ میں جانے سے روکا اور اس خدشہ کا اظہار کیا کہ ان پر جلسہ میں قاتلانہ حملہ ہو سکتا ہے۔ وہی ہوا 27 دسمبر 2007 ء کو لیاقت باغ کے جلسہ میں خطاب کرنے پہنچیں تو انہیں قتل کر دیا گیا۔

بے نظیر بھٹو نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ ”مجھے کچھ لوگوں نے سیا ست چھوڑ دینے کی نصیحت کی ہے۔ انہوں نے مجھے متنبہ کیا ہے کہ میری قسمت بھی میرے والد اور بھائی جیسی ہو سکتی ہے لیکن میرا ایسے لوگوں کو جواب ہے کہ میری پارٹی کے کارکن ہر خطرے میں میری حفاظت کریں گے۔ میں نے اپنی مرضی سے کانٹوں کا راستہ چنا ہے اور موت کی وادی میں قدم رکھا ہے۔“ لیکن بے نظیر بھٹو قتل ہو گئیں بے نظیر بھٹو کے قاتل اپنے انجام کو نہ پہنچ سکے پیپلز پارٹی کے کارکن ”بے نظیر ہم شرمندہ ہیں۔ تیرے قاتل زندہ“ کے نعرے لگاتے ہی رہ گئے۔

پیپلز پارٹی کی پانچ سال حکومت رہی بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کچھ نہیں بگڑا۔ یہ اہم واقعہ الزام تراشی کی نذر ہو گیا اس کیس کو اس طرح خراب کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کے اندر آصف علی زرداری مخالف عناصر نے اس کا ذمہ دار انہیں ہی ٹھہرایا جب آصف علی زرداری نے اس قتل کی ذمہ داری جنرل پرویز مشرف پر عائد کی اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا تو انہوں نے انتہائی ڈھٹائی سے بے نظیر بھٹو کا قاتل آصف علی زرداری کو قرار دے دیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے جب جنرل پرویز مشرف کے پاس خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ آئی کہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کے لئے بیت اللہ محسود کے کرایہ کے قاتل آ گئے ہیں تو انہوں نے کارروائی کا حکم دینے کی بجائے اس فائل پر ”این اے“ (نو ایکشن) کیوں لکھا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments