کیا ہمارے مذہبی پیشواؤں میں جدید علوم کا مقابلہ کرنے کی قابلیت ہے؟


کچھ میرے خیر خواہ قسم کے لوگ مجھے یہ کہتے رہتے ہیں کہ تم مذہبی معاملات، مذہبی طبقہ یا تبلیغی جماعت جیسے موضوعات پر مت لکھا کرو کیونکہ یہ بہت حساس موضوعات ہیں اور لوگ مذہبی معاملات میں عقل کی بجائے جذبات کی پیروی کرتے ہیں۔ حتی کہ ایک مہربان قاری نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ”اگر تم مذہب سے اتنے نالاں ہو تو مذہب کو ترک کردو“ ان تمام باتوں کا جواب میں کچھ اس طرح سے دینا چاہوں گا کہ تنقید برائے تعمیر کسی بھی فلسفہ، سوچ یا مذہب کو اندر سے مضبوط بناتی ہے اور وہی تنقید صحیح طور پر نشانے پر لگتی ہے اگر تنقید کرنے والا گھر کا بھیدی ہو اور تمام کمزور پہلوؤں پر اچھے سے نظر رکھتا ہو۔

میرا تعلق بھی اسی روایتی دائرے سے ہے جس میں آپ آنکھ کھولتے ہیں اور آپ کے کان میں اذان کے بول پڑھ کر مسلمان ڈکلیئر کر دیا جاتا ہے، میری ابتدائی سکولنگ کا آغاز مدرسہ سے ہوا اور زندگی کے انتہائی قیمتی ماہ و سال دیوبند سکول آف تھاٹ کے ساتھ وابستگی میں صرف ہو گئے۔ بطور دیوبندی میری نظر میں دیوبند فرقہ سب سے سچا، کھرا اور جنت کا مستحق تھا اور میری محدود سوچ کے مطابق شیعہ، بریلوی، اہل حدیث اور اب تک جتنے بھی فرقوں کے برانڈ پائے جاتے ہیں وہ سب کافر اور وارثان جہنم ٹھہرے ہوئے تھے اور نفرت کا یہ عالم تھا کہ اپنے فرقہ کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے دوسرے فرقوں کے لوگوں سے ایویں الجھتے رہتے تھے۔

یہ نفرت اتنی بڑھی کہ گیارہویں اور محرم کی نذر و نیاز کو لینے سے صاف انکار اور اگر کوئی زبردستی دے گیا تو اس کے جانے کے بعد اس نذر و نیاز کو صرف اس وجہ سے ضائع کر دینا کہ وہ ہمارے فرقہ کے حساب سے کافر ہیں اس لئے ان کے گھر کا کھانا بھی حرام ہے۔ میں بھی دوسرے بچوں کی طرح ایک نارمل ذہن لے کر دنیا میں آیا تھا مگر آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں کہ یہ نفرت کا بیج میرے ذہن میں بو کر مجھے ایک ابنارمل انسان کس نے بنایا تھا؟

جب بالوں میں چاندی کا ظہور ہونے لگا تو پتہ چلا کہ زندگی کے قیمتی سال اپنے ذہن کی تمام کھڑکیوں کو بند کر کے ایک دائرے کی نذر کر دیے اور لوگوں کے درمیان اپنے ذاتی عقیدہ و سوچ سے اوپر اٹھ کر کیسے جیا جاتا ہے اس آداب معاشرت کا ایک جنونی و جذباتی سحر سے باہر نکلنے کے بعد پتہ چلا۔ اس لئے ان لوگوں سے گزارش ہے جو مجھے مذہب دشمن سمجھتے ہیں ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ میں تو خود اسی مذہبی سسٹم کی پراڈکٹ ہوں اور میری یہ خواہش ہے کہ ہم اپنی مذہبی کلاس کو جھنجوڑیں، انہیں صرف اپنی عقیدتوں کا محور بنا کر ہاتھ پاؤں چومنے کی بجائے انہیں خود کو آج کے جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور چیلنجز کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جائے۔

کیونکہ جہاں تک میں اس طبقے کو جانتا ہوں ان کے اندر بہت زیادہ علم کا فقدان پایا جاتا ہے اور ان کا علم زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے فرقوں کے خلاف استعمال کرنے میں تو موزوں ہو سکتا ہے مگر انٹرنیشنل لیول پر ان کے علم کی حیثیت زیرو ہے اور اس سے اہم بات یہ ہے کہ ان کا علم جدید علوم کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ علمی جواب تو درکنار یہ مذہب مخالفین کے اعتراضات کی گہرائی کو بھی جاننے سے قاصر ہیں اس لیے ہمیں انہیں مجبور کرنا چاہیے کہ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ان سوالوں کا علمی جواب دینے کے لیے خود کو تیار کریں کیونکہ اب تک کا ان کا ٹریک ریکارڈ کسی کو علمی جواب دینے کی بجائے اس بندے کو کافر ڈکلیئر کر کے اس کا باب ہمیشہ کے لیے بند کر دینے کا ہوتا ہے۔

دراصل ایسا رویہ اختیار کر کے یہ مشکل سوالات سے راہ فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور خود کو ہیرو بنا لیتے ہیں، گول چکر آرگیومنٹ کا سہارا لے کر یہ سب اپنے اپنے ہجوم کے سامنے رنگ بازیاں کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو انٹلیکچوئل گیپ کس چڑیا کا نام ہے بالکل نہیں جانتے اور جن کو پتہ ہے وہ میسنے بن کے اور لوگوں کی کم علمی کا فائدہ اٹھا کر اس علمی خلا کو جذباتیت، عاشقانہ، آوارگی اور عقیدت بھری کہانیوں سے پر کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔

ہمارے مذہبی پیشواؤں نے مذہبی انجینئرنگ کچھ اس حساب سے کی ہے کہ جسے جو بہتر لگا اپنے اپنے فرقہ کے حساب سے اسے مذہبی دائرے میں داخل کرتا چلا گیا اور اسی نظریاتی مبہم پن کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ جب سوالوں کا جواب نہیں دے پاتے تو دھمکیوں اور موب لیچنگ پر اتر آتے ہیں۔ فکری اپج کو بہتر بنانے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے سے الجھ کر لوگوں کی توجہ اہم سوالوں سے بھٹکاتے رہتے ہیں، یہ جو آج آپ کو مذہبی عناصر ٹھاٹ باٹ کے ساتھ وی آئی پی لائف سٹائل انجوائے کرتے نظر آ رہے ہیں یہ سب کچھ معصوم اور عقیدت کے مارے لوگوں کا ”فیضان جیب“ ہے اور ان کی یہ رنگینیاں اس وقت تک چلتی رہیں گی جب تک عوام عقیدت کے حصار میں خود کو قید رکھیں گے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہمارے مذہبی پیشوا ہمیں الف لیلوی داستانوں کے سحر میں قید رکھ کر مشکل سوالوں کا جواب دینے کی بجائے راہ فرار کی ترکیب کھوجنے میں لگے رہتے ہیں اور جو مینٹل جمناسٹک میں مہارت رکھتے ہیں وہ اپنے چاہنے والوں کو ”کنفرمیشن بائس“ کا شبہ بھی نہیں ہونے دیتے۔ جاننے والوں کی دلچسپی کے لیے بتاتا چلوں کہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ”اپنے عقائد اور سوچ کو تقویت دینے کے لیے متبادل تصورات سے جان بوجھ کر آنکھیں بند کرلینا اس وجہ سے کہ کہیں اپنے ذاتی عقائد کی ناؤ نہ ڈوب جائے“ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ”سٹار پاور“ کا یہ لوگ بہت زیادہ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں سب سے بڑا ناجائز فائدہ اپنے عقیدت مندوں کی سوجھ بوجھ کو اپنے پاس گروی رکھ کر اپنا راشن پانی چلانا ہوتا ہے، دراصل یہ لوگ ہمیں عقل انسانی کی ”انسلٹ“ کرنا سکھاتے ہیں سوچ کی صلاحیت رکھنے کے باوجود سوچ کو عمل میں لانے سے بچنا اس سے بڑی ذلت اور  ناشکری کیا ہو سکتی ہے؟

اب تبلیغ کا دور گزر چکا ہے چو نکہ اب سب کچھ بہت بہتر انداز میں انٹرنیٹ پر موجود ہے ڈھونڈنے والے مطلوبہ مواد خود ڈھونڈ لیتے ہیں۔ آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہماری مذہبی کلاس کے لیے یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر لوجیکل بنیادوں پر مذہب کو آج کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیسے کرنا ہے؟ ہم دنیا کو لاکھ بتاتے پھریں کہ ہمارا مذہب امن کا مذہب ہے مگر سیالکوٹ جیسے المناک سانحہ کے بعد اور مذہبی پیشواؤں کا اپنے ہی ہم مذہبوں کے ساتھ رویہ کو دیکھ کر کوئی بھی ہم پر اعتماد نہیں کرے گا۔

یہ حقیقت ہے ”آٹری از نون بائی اٹس فروٹ“ یعنی درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے جب پھل گلا سڑا ہو گا تو درخت کے متعلق سوالات کا ذہنوں میں جنم لینا ایک فطری عمل ہوتا ہے۔ جب تک ہماری مذہبی کلاس اپنے کمزور پہلوؤں کو علمی سطح پر پرکھنے کی کوشش نہیں کرے گی تو پھر وہ زیادہ دیر تک اپنے اس عقیدتی حصار کو قائم نہیں رکھ پائیں گے کیونکہ کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے اور جو کچھ آپ ارشاد فرما دیتے ہیں اسے کبھی بھی ری پلے کر کے دیکھا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments