طلاق یافتہ یا بیوہ کے لیے ہمارے اکابر کا ردعمل


لڑکی کا شوہر انتقال کر جائے یا اسے طلاق ہو جائے تو وہ ایک نئی مصیبت کا شکار ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔

طلاق یافتہ عورت یا بیوہ کے لیے دوسرا ساتھی ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے کے دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو ایک عورت کے لئے نہ صرف تکلیف دہ ہے بلکہ نا ممکن بھی ہے اس سلسلے میں گو کہ مغرب میں کافی بہتری آئی ہے مگر ہم ابھی تک اپنے ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہیں۔ گو کہ شاہ ولی اللہ، سرسید اور اقبال نے اپنی اپنی جگہ پر اسلام کو جدید حالات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے عورت پر بہت کچھ کہا اور لکھا مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ان حضرات کے افکار محض گنتی کے کچھ پڑھے لکھے لوگوں میں محض دانشورانہ بحث مباحثے کا موضوع بن کر رہ گئے۔

لیکن ڈارون، فرائڈ اور کارل مارکس کے تصورات کی طرح سماج کی سوچ، رویوں اور عمل میں نتیجہ خیز انداز میں منعکس ہونے میں بری طرح ناکام رہے۔ ان لوگوں کی علمی موشگافیوں کی مدد سے انسان کو سمجھنا تو دور کی بات، ابھی تو ہم خود اس دنیا کے خالق کے تصور کے بارے میں متفق نہیں ہو سکے اور نہ ہی اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے کیونکہ الٰہٰیات کے مکتبہ فکر کا ماننا ہے کہ محدود کبھی لامحدود کی ماہیت نہیں جان سکتا۔

ڈارون اور فرائڈ کے نظریات آج مسلمہ طور پر ہر درجے تک ہمارے تعلیمی نصاب کا لازمی جزو ہیں۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ نصاب میں ان نظریات کی شمولیت کے پیچھے مغربی طاقتوں کی دھونس کھڑی ہے۔ بلکہ اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہمارے علماء ردعمل کی نفسیات کا شکار ہو کر حقیقی مسائل اور علوم کے ادراک سے قریب محروم ہوچکے ہیں۔ احساس کمتری کا ایک وسیع و عریض پھیلتا ہوا خلاء ہے جسے وہ غیر حقیقی دعووں سے پر کرنے میں مصروف ہیں

وہ عورت جو شادی ہو جانے کے بعد اپنی مرضی کو محدود کر لیتی ہے۔ اپنا ایک قدم سسرال اور شوہر کی مرضی کے خلاف نہیں اٹھاتی، تمام دن کام کاج میں گزارتی ہے، سسرال والوں کی جلی کٹی سنتی ہے بچے پیدا کرتی ہے انھیں مشقت سے پالتی ہے وہ ان کی ماں تو ہوتی ہے مگر اس پر حق باپ ہی کا ہوتا ہے اگر شوہر کا سایہ سر سے اٹھ جائے تو وہ جان کی بازی لگا کر انہیں پال پوس کر جوان کرتی ہے اور تمام زندگی ان کی حفاظت میں گزار دیتی ہے ایسی عورت جس کے سر پی شوہر کا سایہ بھی نہیں اور کوئی آمدن کا ذریعہ بھی نہیں وہ کیسے یہ کڑا وقت گزارتی ہے

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں اکہتر ملین یا سات کروڑ سے زیادہ پاکستانی خواتین اور لڑکیوں میں چار ملین سے زائد بیوہ عورتیں اور لڑکیاں ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں کسی بھی خاتون کے لیے بیوہ ہو جانے کے بعد مختلف مسائل، محرومیاں اور جدوجہد کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی 5۔ 5 ملین سے زائد بیوگان کی اکثریت کو بھی اسی صورت حال کا سامنا ہے۔ بیوہ خواتین اور لڑکیوں کی مجموعی تعداد کے حوالے سے عالمی فہرست میں پاکستان دسویں نمبر پر ہے۔

بین الاقوامی معاشرتی اور سماجی ماہرین کہتے ہیں کہ، کسی ملک میں قانون کی حکمرانی اور سماجی تحفظ کا معیار انتہائی بودہ ہو اور بیوہ خواتین کو جہاں اپنے لئے کوشش کرنا ہوتی ہے وہیں انہیں اپنے یتیم بچوں کی کفالت کا بوجھ بھی اٹھانا ہے، ایسے حالات میں ان کی زندگی ایک ایسی تکلیف دہ بن جاتی ہے جو اس کے علاوہ شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ اور اس جانب کسی کی نظر جاتی ہی نہیں۔

بیوگی میں معاشرہ صرف ایسی عورتوں پر بے چارگی کی نظر ڈالتا ہے اور لوگ صرف اپنے مطلب کے لیے ہی ان سے رابطہ رکھتے ہیں۔ سسرال والے اگر اچھے ہوں تو زندگی میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے ورنہ سسرال والے بھی مختلف طعنے دے دے کر اور منحوس کہہ کہہ کر ایک بیوہ کے دل پر تیر چلاتے ہیں کہ یہ ہمارے بیٹے کو کھا گئی اور ایسی عورتوں کے ساتھ اکثر شادی بیاہ کی تقریبات میں اچھوتوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

ایک شوہر کے انتقال کر جانے سے ایک بیوہ خاتون کے لیے اس کی زندگی میں جو خلاء پیدا ہو جاتا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت پر نہیں کر سکتی۔ ایک گھریلو خاتون جسے دنیا کا کچھ پتہ نہ ہو۔ شوہر کا گھر کے لئے باہر سے اشیائے خورد و نوش کا انتظام کرنا گھر کے دوسرے تمام کام کر نا۔ شوہر کے بغیر گھر اتنا خالی ہو جاتا ہے اور زندگی اتنی مشکل ہو جاتی ہے کہ ایک بیوہ عورت کے لئے پاکستان جیسے ملک میں زندگی اتنی اجیرن ہو جاتی ہے کہ کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔

بچوں سے رشتہ بے تکلفی کا نہیں ہوتا کئی ایسے مسائل ہوتے ہیں جو شوہر کے علاوہ کسی سے شیئر نہیں کیے جا سکتے نہ ہی شوہر کی طرح بے تکلفی سے بات کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں بیوہ عورتوں اور لڑکیوں کی صورت حال انتہائی گمبھیر ہے۔ عوامی سطح پر بیواؤں سے متعلق کوئی قابل اعتماد سرکاری یا غیر سرکاری اعداد و شمار موجود ہی نہیں ہیں جس وجہ سے حکومت تا حال ان بیوہ خواتین کے بارے میں ایسا مربوط نظام وضع نہیں کر پائی، جس سے خاص طور پر بیواؤں اور ان کے بچوں کو درپیش مختلف قسم کے سماجی، مالیاتی، طبی اور تعلیمی مسائل کا تدارک ہو سکے۔

اسی طرح ہمارے معاشرے میں طلاق کا لفظ بھی کسی گالی سے کم نہیں ہے۔ یہ لفظ ہمارے معاشرے میں کسی لڑکی کے خاندان اور متاثرہ لڑکی کے لئے نہ صرف گالی ہے بلکہ ایسا لفظ ہے جو مطلقہ کے لئے وبال جان ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں عموماً عورت کو ہی طلاق کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ معاشرے کی سوالیہ نظریں اور بولتی زبانیں، جس طرح اس کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں اس کا تصور کرنا محال ہے۔ جہاں طلاق خاندانوں کے ٹوٹنے اور ان کی بدنامی کا سبب بنتی ہے وہیں بہت سے معاشرتی، سماجی، نفسیاتی اور معاشی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں، جن کا زیادہ تر شکار مطلقہ لڑکی اور اس کے گھر والے ہوتے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں طلاق کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور زیادہ تر لڑکیاں طلاق کی مانگ کر رہی ہیں؟ طلاق کی شرح میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ عدم برداشت ہے۔ میاں بیوی جیسے نازک رشتے میں برداشت کا مظاہرہ کرنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ بہت اہم بھی ہے۔ اگر ہم طلاق کے اسباب تلاش کریں تو اکثر طلاق میاں بیوی کا ایک دوسرے کے معیار پر پورا نہ اترنا، لڑکے کا لڑکی کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ ہونا، لڑکے والوں کی طرف سے ضرورت سے زیادہ جہیز کا مطالبہ کرنا، اور پورا نہ ہونے کی صورت میں طعنہ زنی، ساس سسر کا لڑکی کی ہر بات پر ٹوکنا اور اپنی اجارہ داری قائم کرنا، شکوک و شبہات، متواتر لڑکیوں کی پیدائش، شوہر بیوی کے رشتہ کی اہمیت کا عدم احساس، انا پرستی، میکہ والوں کی بے جا مداخلت، کھانے میں نمک کم ہونا، کھانے کا مزیدار نہ ہونا، وقت پر شوہر کے کپڑے تیار نہ ہونا، حکومتی قوانین کا غیر متوازن ہونا، ذمہ داریوں سے فرار، فریقین کے رشتہ داروں کی بے جا مداخلت، ایک دوسرے کی عزت نہ کرنا، ۔

غربت کے طعنے، کسی ایک کے اسٹیٹس میں کمی، بیوی کا شوہر کے اختیارات میں مداخلت کرنا مثلاً کاروبار، معاش، وراثت یا شوہر کے بہن بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی میں دخل اندازی کرنا، اپنے میکہ میں چھوٹی چھوٹی باتیں بتاتے رہنا، سسرالی رشتہ داروں سے عناد رکھنا، اگر دونوں میں فرقہ پرستی کا رجحان ان ہے تو ایک دوسرے کے فرقے کے بارے میں بحث و مباحثہ کر نا، اگر لڑکی کسی جگہ پر ملازمت کرتی ہے تو اسے ملازمت چھوڑنے پر اکسانا اور آرام پسندی وغیرہ۔

جنسی معاملات تہذیب کا سب سے حساس ترین مسئلہ ہیں جن کا اظہار جہاں ایک طرف ہم جنسی، عصمت دری اور ’ناجائز تعلقات‘ کی صورت میں ہوتا ہے تو دوسری طرف یہی جبلت محبت کی اعلیٰ ترین شکلوں میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ کوئی مرد کسی طلاق یافتہ عورت سے شادی نہیں کرنا چاہتا اور اگر وہ ثواب کی نیت سے بھی یہ نیکی کرنا چاہے تو معاشرے کا خوف آڑے آ جاتا ہے۔ بعض اوقات مرد بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کر بھی لیتے ہیں لیکن اس کو رشتہ داروں سے پوشیدہ رکھتے ہیں گویا کہ انہوں نے کوئی نا پسندیدہ یا ناجائز کام کر لیا ہے۔

مسلم معاشرے کی یہی سوچ رہی تو مطلقہ و بیوہ خواتین دوبارہ ازدواجی زندگی کا سکون حاصل کرنے سے محروم رہیں گی۔ اگر ہمیں علم کی تلاش کا دعویٰ ہے تو پھر تاریخ میں گزر چکی ان شخصیات سے بے جا تقدس کے لبادے کو الگ کر کے ان کے رطب و یابس کا غیرجانبدارانہ جائزہ لینا ہو گا۔ اور سوچنا ہو گا کہ اگر ایک عورت کو کسی بھی وجہ سے طلاق ہو جائے یا وہ بیوہ ہو جائے تو اسے ظلم، تشدد، سسرالیوں کے طعنے۔ ماں باپ اور بہن بھائیوں کا غلط رویہ، شوہر کا مہر ادا نہ کرنا، جہیز کے سامان کی واپسی، ایسے تکلیف دہ مراحل ہیں جو ایک مطلقہ خاتون ہی برداشت کرتی ہے۔

یہ کسی ایک کی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی لاکھوں عورتوں کی کہانی ہے۔ معاشی ناآسودگی سماجی اقدار کو کھا چکی ہے۔ انسانیت دم توڑ چکی ہے۔ دوسری شادی کے حوالے سے خواتین زیادہ پریشانی کا شکار رہتی ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ شوہر کے بچے باپ کی دوسری بیوی جسے وہ ماں تو بالکل نہیں سمجھتے، اس کو قبول نہیں کرتے اس کے لیے مشکلات کھڑی کرتے رہتے ہیں۔ پھر یا تو وہ گزارا کر لیتی ہے ورنہ پہلی پناہ گاہ تو اس کو میسر ہوتی ہی ہے

ہمارے معاشرے میں عورت ہونا ایک گناہ ہے۔ ہم نے عورت کے بارے میں ایک تصور قائم کر لیا ہے کہ وہ مردوں کو صراط مستقیم سے بہکاتی ہے۔ اگر عورت نہ ہوتی تو یہ معاشرہ ایک جنت ہوتا۔ اس بیچاری کو تو احتجاج کا حق بھی نہیں دیا گیا۔ اس نے جب پہلے گناہ کا ارتکاب کیا تھا تو اب اس گناہ کا نتیجہ تو عورت کو اکیلے ہی بھگتنا ہے۔ عورت کا گناہ ہی اس کا عورت ہونا ٹھہرایا گیا۔ ہمارے معاشرے میں ایک عورت کو ہی خواہ وہ مطلقہ ہو یا بیوہ اس کو ہر طرف سے دباؤ میں رکھا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments