کالم منیر نیازی کے اور باتیں ان کے احباب کی


منیر نیازی نے حنیف رامے کے زیر ادارت رسالے ’نصرت‘ میں فروری 1961 سے اپریل 1964 تک وقفے وقفے سے منوچہر کے قلمی نام سے ادبی کالم لکھے جو دو کتابوں میں محفوظ ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر صدف بخاری نے انھیں ’باب گزری صحبتوں کا‘ کے عنوان سے 2014 میں کتابی صورت میں ترتیب دیا۔ ڈاکٹر سمیرا اعجاز کی مرتب کردہ ’’کلیاتِ نثرِ منیر نیازی‘‘(2017) میں بھی یہ کالم شامل ہیں۔ منیر نیازی کی یہ ادبی گپ شپ ’نصرت’ کے پرچوں میں پہلے پڑھ چکا تھا لیکن اس کے ایک ساتھ مطالعے نے زیادہ لطف دیا۔ منیر نیازی کے کالم بھری پری ادبی دنیا کی تخلیقی روداد ہیں

منیر نیازی کی یہ تحریریں میرے بزرگ دوستوں اور آگے سے ان کے دوستوں کے تذکرے سے معمور ہیں، اس لیے، ان سے میں خود کو بڑی اچھی طرح متعلق کر سکتا ہوں۔ ان کا مطالعہ کرتے ہوئے یوں لگا جیسے میں بھی ان کا ایک کردار ہوں جو دوسرے کرداروں سے اچھی طرح مانوس ہے۔

یہ کالم اُس تخلیقی ذہن کے قلم سے ہیں جس کی طبیعت میں شوخی اور کاٹ دار بات کہنے کا حوصلہ تھا۔ جس زمانے میں یہ قلمبند ہوئے، وہ ادبی لحاظ سے بڑا زرخیز تھا۔ منیر نیازی کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ اپنے سوا کسی اور کو شاعر نہیں گردانتے تھے لیکن ان تحریروں میں جگہ جگہ ہم عصر شعرا کی شاعری نقل ہونا، ان کی ذہنی کشادگی اور بڑے ظرف کی دلیل ہے۔ منیر نیازی کی ان تحریروں کے بارے میں لکھنے کا خیال بریشم کی طرح نرم دوستوں کی وجہ سے آیا، اس لیے میں نے اپنے بیان میں حفظِ مراتب کا تعین ذاتی بنیادوں پر کیا ہے۔

استاذی محمد سلیم الرحمٰن سے بات شروع کرتے ہیں جن کی ’نصرت‘ سے وابستگی کے زمانے میں منیر نیازی سے دوستی ہوئی۔ اپریل63ء میں منیر نیازی نے ان کے یہاں جانے کا ذکر کیا ہے۔ اس وقت گھر کے نادر مکین کو وہاں رہتے گیارہ برس بیتے تھے، اور اب خیر سے ہو گئے ہیں 68 سال۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ پائوں میں گویا مہندی لگا رکھی ہو، اصل میں یہ مہندی قناعت کی مہندی ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے کلامِ میر کی ’شعر شور انگیز’کے نام سے چار جلدوں میں شرح کی ہے، اس کی چوتھی جلد سے برسوں پہلے فارسی کا ایک شعر، اس خیال سے ڈائری میں نقل کیا کہ کبھی سلیم صاحب پر مضمون لکھا تو اسے استعمال کریں گے لیکن محترم عزیز ابن الحسن ہم سے بازی لے گئے اور سلیم صاحب کے خاکے میں یہ شعر درج کردیا لیکن اس سے ہمارا حق ساقط نہیں ہوتا، اس لیے فاروقی صاحب کے ترجمے کے ساتھ بیدل کا وہ شعر ملاحظہ ہو:

دنیا اگر دہند نہ جنبم ز جائے خویش

من بستہ ام حنائے قناعت بہ پائے خویش

(اگر مجھے دنیا بھی دیں تو میں اپنی جگہ سے نہ اٹھوں

میں نے اپنے پائوں میں قناعت کی مہندی لگا رکھی ہے۔)

منیر نیازی کے کالموں میں سلیم صاحب کا ذکر کئی جگہ آیا ہے۔ دو دفعہ ان کے گھر جانے سے متعلق بھی لکھا۔ :

‘’پچھلے دنوں شالامار سے بھی آگے (داروغہ والا) محمد سلیم الرحمٰن کے گھر اور اس کے مضافات میں ایک شام بسر ہوئی۔ سلیم اور صلاح الدین محمود کا مرغوب مشروب کوکا کولا گاڑی میں تھا اور سلیم کے گھر میں اگے ہوئے ناشپاتی کے پیڑ کے سفید شگوفے نگاہوں میں کہ ایک جگہ ہمیں بدھ کا دیدار ہوا۔ محمود بوٹی بند کے ساتھ یوکلپٹس کے بے تحاشا بلند درختوں کے عقب میں کہیں ایک ہرے رنگ کی چھوٹی سی جھیل ہے جو آخر میں ایک نالے کی شکل میں لہلہاتے ہوئے کھیتوں میں گم ہوجاتی ہے۔ اس پر چھوٹی اینٹ اور لوہے کا پرانا پل ہے…اسی پل پر سے ہم نے گوتم بدھ کو ایک ایسے گوشے میں ریاضت کے انداز میں بیٹھے دیکھا جو ایک عام گزر گاہ کے قریب تھا۔ محبوب الحسن عرف ببو (ابنِ حسن کے برادرِکوچک) کو اعتراض تھا کہ یہ صرف ایک درخت کا تنا ہے جو کھڑے پانی کے کنارے گڑے گڑے اس خاکستری ڈھانچے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔‘‘

یہ اقتباس اپریل 1963 کا ہے۔ اب ایک ٹکڑا دسمبر کے کالم سے ملاحظہ ہو۔ :

‘’محمد سلیم الرحمٰن کے گھر کی طرف ہمیشہ ایک خوشگوار تجربہ ہوتا ہے۔ شالامار باغ سے دو میل آگے ایک پل کی سیدھی اور اونچی عمارت کے قریب، سلیم کی نیم دیہاتی کوٹھی اور وہاں سے ایک راستہ دریائے راوی کے کنارے اور زمینِ شہر کے درمیان بنائے ہوئے بند، ہری جھیل کے کنارے اگے ہوئے سیدھے، سفید، اور اونچے یوکلپٹس کے درختوں اور حشیش کی مہک سے مسحور جنگل کی طرف جاتا ہے۔’‘

میری بھی اس علاقے سے نسبت ہے اور منیر نیازی جس گھر کا بڑی محبت سے ذکر کر رہے ہیں، میں نے اپنے گھر کے بعد سب سے زیادہ اسی کی دہلیز پار کی ہے۔

منیر نیازی نے ’پاکستان ٹائمز’میں سلیم صاحب کے تبصروں کی تحسین کی ہے۔ ان کی لکھت کے جس بنیادی وصف کا ذکر کیا ہے، اس سے گزرے ستاون برسوں میں مبصر نے اعراض نہیں کیا۔

‘’سلیم کی تحریر کا بنیادی وصف یہ ہے کہ اس میں سرپرستی یا دشمنی نہیں ہوتی۔’‘

ایک جگہ ’سویرا’میں ان کی ایک ساتھ سترہ نظموں کی اشاعت کی خبر دی اور لکھا :

‘’شروع شروع میں وہ ترجمے والے محمد سلیم الرحمٰن تھے لیکن ساتھ ساتھ شاعر بھی ہو گئے۔ خاموش اور الگ تھلگ رہنے والے آدمی ہیں۔ ان کا حلقۂ احباب حنیف رامے، منیر نیازی، ناصر کاظمی، انتظار حسین، شیخ صلاح الدین، پیرزادہ احمد شجاع اور صلاح الدین محمود تک محدود ہے۔’‘

 منیر نیازی کی تحریریں ’اداس نسلیں‘کی اشاعت کے آس پاس کے زمانے کی ہیں۔ اس واسطے ان میں عبداللہ حسین اور ان کے ناول کا ذکربھی آتا ہے۔ عبداللہ حسین اور ان کی اہلیہ نے ادیبوں کو شیزان میں دعوت دی جس میں سلیم صاحب کو پہلی دفعہ نظم سناتے دیکھا گیا۔

 عبداللہ حسین کی شادی کی اطلاع قارئین کو ان الفاظ میں ملتی ہے۔

’’اداس نسلیں کے خالق عبداللہ حسین کی شادی ہوگئی۔ 25 دسمبر 1963’‘

 چند سال ہوئے سلیم صاحب نے مجھے وہ شادی کارڈ دکھایا جس پر عبداللہ حسین کے بجائے دلہا کا اصل نام محمد خان درج تھا۔

منیز نیازی نے عبداللہ حسین کو ’چُک‘ پڑنے کا ذکر کیا اور بتایا ہے کہ حکیم اجمل بھی اس عارضے میں مبتلا رہے اور انھیں اور حنیف رامے کو بھی ’چُک’ کی شکایت ہے۔

ایک دفعہ سلیم صاحب کے گھر سے واپسی پر عبداللہ حسین، صلاح الدین محمود اور منیر نیازی کے درمیان موت کا ذکر ہونے لگا۔ مکالمے کا آغاز اطالوی رائٹر کے ناول’ چیتا‘ سے ہوا، جس کے بارے میں صلاح الدین محمود کی رائے یوں سامنے آتی ہے:

‘’ذراغور کیجیے۔ ایک امیر آدمی جس کا زندگی بھر یہ کام رہا کہ وہ یورپ کے چیدہ چیدہ، پرانے، ابھرتے ہوئے شاعروں، ادیبوں اور مصوروں کو اپنے سسلی والے گھر میں مدعو کرتا، ان کی تواضع کرتا اور ان سے ان کے فنون کے بارے میں باتیں کرتا ہے۔ اس شخص کوایک دن اچانک ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ اسے کینسر ہو گیا ہے اور وہ صرف گیارہ ماہ زندہ رہ سکتا ہے۔ اس عالم میں وہ شخص ایک ناول لکھتا ہے۔’‘

’’اور کمال چیز لکھی ہے صاحب۔’‘انھوں نے عبداللہ حسین کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ’’چیتے‘‘ کی جلد تھپتھپا کر کہا۔

‘’میرے خیال میں تو موت زندگی سے زیادہ خوب صورت ہوگی۔’‘ منیر نیازی نے کہا۔

عبداللہ حسین کا لہجہ عہد کرنے والوں کا سا تھا جب اس نے کہا۔’’اگر موت آئے تو میں کھلے بازوئوں سے اس کا استقبال کروں گا۔’‘

حنیف رامے کے بعد موت کا اتنے پرتپاک لفظوں میں ذکر میں نے اسی شام کو سنا۔’‘

منیر نیازی جس ناول کی بات کررہے ہیں، اس کے مصنف گیو سپے تو ماسی دی لامپے دوسا( Giuseppe Tomasi di Lampedusa)ہیں۔ یہ ناول 1958 میں مصنف کی وفات کے ایک سال بعد سامنے آیا۔ تاریخی ناولوں میں اسے بڑی اہمیت حاصل ہے۔ 196 3میں اس پر فلم بنی۔

 سلیم صاحب کا ذکر منیر سنجیدہ اسلوب میں کرتے ہیں لیکن احمد مشتاق صاحب کے بارے میں لکھتے ہوئے ان کا قلم شوخ ہو جاتا ہے۔

‘’احمد مشتاق کی انتظار حسین اور ناصرکاظمی بلکہ سبھی سے بول چال نہیں ہے اور وہ قطار سے بچھڑی ہوئی کونج کی طرح اِدھر اُدھر مارامارا پھر رہا ہے۔’‘

اس کے بعد وہ ان کے شعر نقل کرتے ہیں:

 کوئی اپنی دھن میں گزر جائے گا

کوئی چلتے چلتے ٹھہر جائے گا

بڑے چاند کی آخری رات ہے

وہ دفتر سے نکلا تو گھر جائے گا

انوکھی چمک اس کے چہرے پہ تھی

مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا

………

پکارتی ہیں بھرے شہر کی گزر گاہیں

وہ روز شام کو تنہا دکھائی دیتا ہے

………

ہر آن برق چمکتی ہے دل دھڑکتا ہے

مری قمیص پہ تنکے ہیں آشیانوں کے

 وہ مشتاق صاحب کے ستار سیکھنے کی خبر دیتے ہیں اور ستار کی کلاسوں سے ان کی غیر حاضری کا سبب بھی بتاتے ہیں۔ :

‘’احمد مشتاق کو یار لوگوں نے پٹی پڑھا دی ہے کہ تمھیں تو دلیپ کمار بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ وہ ان دنوں خوشبو دار نسائی لفافوں کی توقع پر ستار کی کلاس سے بھی غیر حاضر رہنے لگا ہے۔’‘

احمد مشتاق صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کے استاد سراج احمد قریشی تھے جن سے اس زمانے میں پرویز مہدی بھی ستار بجانے کی تربیت حاصل کر رہے تھے۔

ایک جگہ ادیبوں کی مخاصمت اس رنگ میں بیان ہوئی:

‘’احمد مشتاق، شفقت تنویر میرزا، زاہد ڈار ایک میز پر اور انجم رومانی، ضیا جالندھری، سجاد باقر رضوی دوسری میز پر۔ ہلکی ہلکی دشمنی کی لہر دونوں میزوں پر چل رہی تھی۔’‘

اس کے بعد احمد مشتاق کے تازہ شعر نقل کرتے ہیں:

 حیران ہوں سحر کے نظارے کو دیکھ کر

روتا ہے پھول صبح کے تارے کو دیکھ کر

 کل دیکھنا کہ بحرِ فنا میں اتر گئے

چلتا ہے وقت جن کے اشارے کو دیکھ کر

………

دل بھر آیا کاغذِ خالی کی صورت دیکھ کر

 جن کو لکھنا تھا وہ سب باتیں زبانی ہوگئیں

 ایک جگہ احمد مشتاق، زاہد ڈار اور اختر احسن کا ایک ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ :

مادھو، اختر احسن اور احمد مشتاق ان تینوں میں ایک قدرِ مشترک ان کی جلد کی رنگت ہے۔ سپید پراسرار ممی کی طرح کی۔ کچھ کچھ موت کی طرح بھی۔ طبائع ان تینوں کے مختلف ہیں۔ مادھو خاموش ہے۔ اختر احسن خوش باش۔ احمد مشتاق سیکنڈل باز۔ ریگل کے ماڈل ٹائون والے بس سٹاپ پر رات کے دس بجے اختر احسن نے برملا کہا۔ ’’سچی بات تو یہ ہے کہ موجودہ شاعری میں کہیں اگر گہرے نشے کی کیفیت نظر آتی ہے تو ایمان کی بات ہے کہ وہ ہم تینوں کی شاعری ہے۔ مادھو نے ہنستے ہوئے کہا’’اپنے آپ کو نکال لو یا مجھے’‘ تیسرے شاعر منیر نیازی تھے۔

مادھو کی ایک نظم سنیے۔ اور یہ بھی کہ اس کا نام زاہد ڈار ہے۔

زاہدِ خشک ہوں، دنیا میں نہ پوچھو، مجھ کو

دیکھنا ہو تو کسی پگ پہ، کسی پیڑ کے نیچے، جس کی

 ایک بھی شاخ نہ پتوں سے ہری ہو، دیکھو

یا کسی نائو میں جو

 پار جاتی ہوئی روحوں سے بھری ہو، دیکھو

پار جانا ہے مجھے

 بہتے پانی سے ادھر، دور، جہاں

 ایک وادی ہے جو ویران بھی ہے خاموش بھی ہے

ایک دیوی نے وہاں گھاس اگا رکھی ہے

ایک جگہ زاہد ڈار کے نام کے ساتھ بریکٹ میں سابق مادھو لکھا۔

انتظار صاحب کی منیر نیازی سے بڑی دوستی تھی۔ وہ ان کی شاعری کے بھی بہت معترف تھے۔ انھوں نے ایک دفعہ بتایا: ’میرا یہ مسئلہ رہا ہے کہ یہ جو بظاہر حقیقت ہے اس سے پرے جو حقیقت ہے وہ کیا ہے؟ شاعری میں منیر نیازی کے ہاں یہ دیکھا تو مجھے لگا کہ جو میں کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہہ رہا ہے۔’‘

 انتظار صاحب کے بارے میں منیر نیازی لکھتے ہیں:

‘’انتظار حسین بھی خوب آدمی ہے۔ ترقی پسند اس کے مخالف۔ کراچی کے گزیٹیڈ ادیبوں کا نزلہ اس پر۔ ریڈیو اس کے ہاتھوں نالاں۔ مکتبۂ فرینکلن ہو یا نئی پود، دونوں اس سے ناخوش۔ پاک ٹی ہائوس میں ڈیرہ جما دیا تو پھر اٹھایا نہیں۔ ایک بار روزنامہ آفاق میں داخلہ ہوا تو جب تک وہ بالکل ہی برباد نہیں ہوگیا اسے چھوڑا نہیں اور ناصر کاظمی سے ایک بار دوستی کا بندھن باندھا تو اسے ابھی تک توڑا نہیں۔’‘

ایک دن انتظار حسین، منیر نیازی اور شہرت بخاری نے کمرشل بلڈنگ کی پرانی انارکلی والی نکڑ سے گول گپے کھائے لیکن مزہ نہ آیا۔ منیر نے گول گپے والے کو بے ہنر قرار دیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ دہی بڑے، نہاری، گزک اور گول گپے انتظار حسین کی مرغوب ثقافتی ڈشز ہیں جن پر وہ اردو غزل کی طرح جان چھڑکتے ہیں۔ گول گپوں سے بدمزہ ہونے کے بعد منیر نیازی نے دوستوں کو سیون اپ پینے کی دعوت دی جو انتظار حسین نے رد کردی اور کہا کہ وہ باہر کا مشروب نہیں پئیں گے البتہ مسالے دار چانپیں کھلا سکتے ہیں اور اس کے بعد کڑکڑاتی ریوڑیاں۔ یہ پیشکش قبول کرلی گئی۔

اس زمانے میں ساقی فاروقی نے انگلینڈ جانے سے پہلے اعلان کیا کہ وہ نوبل پرائز لے کر ہی وطن پلٹیں گے بصورتِ دیگر ان کا مزار وہیں بنے گا۔

اس بیان پر انتظار صاحب نے تبصرہ کیا:

’’اسے میری طرف سے کہہ دینا کہ مولانا محمد علی جوہر بھی کچھ اسی سے ملتی جلتی بات کہہ کر وہاں گئے تھے۔ البتہ ان کا مزار فلسطین میں بنا تھا۔’‘

حلقۂ ارباب ذوق کے اس الیکشن کا ذکر بھی پڑھنے کو ملتا ہے جس میں انتظارصاحب نے قیوم نظر کو شکست دی۔ ان کے ’ادب لطیف’ کا ایڈیٹر بننے پر ان کا تبصرہ ہے: ’’اتنی بڑی ادبی روایت والا جریدہ ترقی پسندی کا مقبرہ بنا ہوا تھا، اب مناسب ہاتھوں میں آیاہے۔ ’’نصرت’‘ اور ’’سویرا’‘کے ساتھ ایک اور روشن خیال ساتھی آن کھڑا ہوا ہے۔’‘

 انتظار حسین کے موٹر سائیکل سے گر کر زخمی ہونے اور اپنے بموں والے تانگے کے دو حملوں سے بچ نکلنے کا تذکرہ کرتے ہیں۔

عباس اطہر صاحب نے صحافی کی حیثیت سے ناموری حاصل کی۔ صحافتی حلقوں میں شاہ جی کے نام سے معروف ہوئے۔ ساٹھ کی دہائی میں وہ نئی نظم کے نمائندہ شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ انھوں نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ مجید امجد اور منیر نیازی سے ان کے والد کی دوستی تھی۔ ادبی میدان میں پر پرزے نکالنے کے بعد جب کبھی وہ منیر نیازی سے اختلاف کرتے انھیں ’چپ کر او بھتیجے’کہہ کر خاموش کروا دیا جاتا۔

منیر نیازی ان کی پہلی کتاب’’دن چڑھے دریا چڑھے’‘کی اشاعت کا بتاتے ہیں۔ ان کے بقول’’عباس اطہر کی شاعری ایک اچانک اندھے ہوجانے والے آدمی کی شاعری ہے۔’‘

اس کتاب کا فلیپ سلیم صاحب کے قلم سے ہے جنھوں نے راقم کو بتایا کہ اس زمانے میں عباس اطہر ریلوے میں ملازم تھے اور سائیکل پر ’نیا ادارہ’کے دفتر آتے۔ ’دن چڑھے دریا چڑھے’کی اشاعت کے 45 سال بعد میں نے سلیم صاحب کا انٹرویو کیا جو اس اخبار میں شائع ہوا جس کے ایڈیٹر شاہ جی تھے۔ اس وقت ان کی شہرت کا مدار اخباری سرخیاں جمانے میں مہارت اور کالم نویسی پر تھا، انھیں ٹی وی سکرین پر نظر آنے کی چاٹ بھی لگ چکی تھی۔ ایک دفعہ میں نے انھیں بتایا کہ ن م راشد نے ایک انٹرویو میں کہا ہے :

‘’عباس اطہر کا شعری سرمایہ ایک لحاظ سے احمد رضا احمدی سے قربت رکھتا ہے۔’‘

یہ بات جان کر انھوں نے یوں ظاہر کیا جیسے اس کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہ ہو۔ کوئی اور شاعر ہوتا تو راشد کی رائے اور اپنی شاعری کے ممتاز ایرانی شاعر سے تقابل پرخوش ہوتا لیکن شاہ جی ان باتوں سے بے نیاز ہوچکے تھے۔

فارسی زبان و ادب کے ممتاز سکالر معین نظامی صاحب کے خیال میں ’احمدرضا احمدی، فارسی نثری نظم میں احمد شاملو کے بعد سب سے نمایاں آواز ہیں۔’ ایک دلچسپ بات انھوں نے یہ بتائی کہ احمد رضا احمدی کی منیر نیازی سے ظاہری مشابہت بھی بہت ہے اور فکری و فنی بھی۔

 مبارک احمد نے اپنی مشہور نظم ’زمانہ عدالت نہیں ہے’ حلقۂ ارباب ذوق میں سنائی جس کی بہت تعریف ہوئی۔ عباس اطہر کی شاعری پر ان کے طویل مقالے کا اقتباس بھی ایک کالم میں نقل ہوا۔

 کالموں میں ظفر اقبال صاحب کا ذکر بھی آتا ہے:

 ’’اس کی وکالت جم گئی ہے۔ روزگار سے مطمئن ہو کر اب وہ غزل لکھنے بیٹھا ہے۔ ’سویرا’ کے تازہ شمارے سے لے کر ’نصرت’ اور ’فنون’ کے آنے والے شماروں میں اس کے کلام کی کثرت سے اندازہ ہوتا ہے’‘

ایک جگہ ’نصرت’ کے دفتر( سلیم صاحب نے بتایا کہ یہ لاہور ہوٹل کی بغل میں تھا) میں ان سے ملاقات کا ذکر کرتے ہیں جس میں ظفرصاحب انھیں بتاتے ہیں کہ اوکاڑہ عنقریب سب ڈویژن بن رہا ہے۔

 ناصر کاظمی کے مضمون’ میرا بائی کی بہن‘ کے جواب میں ان کے مضمون ’میرا بائی کا بہنوئی’ پر ناصر کے سخت ردعمل کی بابت بھی بتاتے ہیں۔

 فرید کے دوہے پڑھنے پر ناصر کاظمی کو اعلیٰ درجے کی غزلوں جیسا لطف آنے کا ذکر کرتے ہیں۔

 ناصر کا یہ اعلان بھی نقل کیا۔ :

 ’’بس جی شاعر اپنی پسند کا ایک ہے: محبوب خزاں‘‘

 ایک موٹر سائیکل سوار ناصر کاظمی کو زخمی کر گیا۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ کہاں جانا ہے تو انھوں نے لارڈز ریسٹورنٹ کا نام لیا۔ فوری طبی امداد کے بعد ڈاکٹروں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا کھانا پسند کریں گے تو ناصر نے نیم غنودگی کے عالم میں کہا:

پان کھلائیے۔

صفدر میر کے بارے میں لکھتے ہیں :

 ’’عجیب آدمی ہے۔ کبھی ترقی پسند، کبھی حلقہ ارباب ذوق میں کبھی پھر ترقی پسند۔’‘

‘’صفدر میر کی شاعری ان کی دانشوری کے نیچے دب کر دم توڑ گئی اب تو ان کی شاعری کا حوالہ کہیں آ جائے تو حیرانی سے کہا جاتا ہے ’اچھا صفدر میر شاعر بھی تھے’‘

منیر نیازی ان کی شاعری کے قائل ہیں، خاص طور پر ان کی نظموں، ’باربرا‘، ’بیمار لڑکی‘ اور’ بائولا‘ کی تعریف کرتے ہیں۔ ان کا منظوم ڈراما ’جنگل’ بھی انھیں پسند ہے جس کے بارے میں ضیا جالندھری کا خیال تھا کہ اس میں شکسپئیر کی چڑیلوں اور ایلیٹ کی فیملی ری یونین سے استفادہ کیا گیا ہے۔

 احمد مشتاق صاحب بھی صفدر میر کی شاعری کے مداح ہیں۔ انتظار صاحب نے ایک دفعہ بتایا کہ ٹی ہائوس میں ترقی پسند نقاد ممتاز حسین کے سامنے جب احمد مشتاق نے صفدر میر کی شاعری کے محاسن بیان کیے تو وہ حیرت سے ان کا منہ تکنے لگے۔ مشتاق صاحب کے خیال میں منیر نیازی کی بعض نظموں میں صفدر میر کا رنگ نظر آتا ہے۔

 منیر نے صفدر میر کے بارے میں یہ بھی لکھا:

 ’’ایک اکیلی جان ہے صفدر میر کی اور شوق اس نے بہت پال رکھے ہیں۔ شاعری، فلم، ریڈیو، سٹیج، باکسنگ، تدریس، ترقی پسندی، رومان پرستی، اخبار نویسی، تیراکی اور تصوف…زندگی کا آدھاحصہ محمد صفدر کے نام سے بسر کیا۔’‘

 صفدر میر کا ذکر مظفر علی سید کے ساتھ بھی کیا ہے:

‘’دونوں مجھے تپسیا سے بھاگے ہوئے پجاری لگتے ہیں۔ پوجا کسی بھی چیز کی ہو، زر کی ہو یا علم کی، ادھوری رہ جائے تو عمر بھر چین نہیں لینے دیتی۔’‘

صفدر میر کی کتاب ’’درد کے پھول’‘کے شائع ہونے کی خبر دیتے ہیں اور ان کے ماہنامہ ’شاعری’کے اجرا پر غور کرنے کا بھی بتاتے ہیں۔

 فیض احمد فیض کے ریلوے اسٹیشن پر والہانہ استقبال کی بابت رپورٹ کرتے ہیں، جس میں سیاسی رنگ زیادہ ہونے کے باوجود وہ اس بات پر خوش ہیں کہ چلو شاعر کی عزت افزائی تو ہو رہی ہے۔

فیض کی اسٹیشن آمد پر ہلچل کی وجہ سے ایک قلی نے اخلاق احمد دہلوی سے پوچھا :

کیا کوئی وزیر آیا ہے؟

’’نہیں ایک شاعر آیا ہے’‘

شاعر وزیر سے بڑا ہوتا ہے؟

’’ہاں’‘

 گورنمنٹ کالج کی مجلسِ اقبال میں حفیظ جالندھری کا کلام شوق سے سنے جانے کے احوال میں معروف حاضرین کا نام درج کیا اور دشتِ وفا کی ہرنیوں کے بارے میں لکھا:’’کچھ خوب صورت لڑکیاں بھی، جن کے وجود سے پوری محفل پر روشنی کا عکس سا پڑتا نظر آتا تھا’‘

حفیظ جالندھری نے بتایا کہ انھیں ٹیکہ لگ گیا تھا جس کی وجہ سے وہ مرنے سے بال بال بچے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہیں’’حفیظ صاحب کا اپنی زندگی کی نشوو نما کے لیے اپنی موت کے ذکر کا نسخہ بہت آزمودہ ہے۔’‘

1963میں خان فضل الرحمان خان کا ناول ’آفت کا ٹکڑا‘شائع ہوا جو فحاشی کے الزام میں ضبط ہو گیا اور مکتبۂ جدید کی معروف قانون دان اعجاز بٹالوی سے اس کا تعارف لکھوانے کی احتیاطی تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی۔ منیر نیازی نے ناول کے مصنف کا پرلطف اسلوب میں تعارف کرایا ہے۔ :

’آفت کا ٹکڑا’ والے خان فضل الرحمٰن خان حالانکہ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں مگر میرے سامنے جھینپے سے رہتے ہیں۔ وکیل ہیں اور دردمند قسم کے خالص پٹھان۔ ان کے سراپے میں ہڈی نمایاں چیز ہے اور سفیدی۔ کہیں کہیں سونے کی جھلک دینے والی سفیدی۔ غرض یہ کہ ایک شفاف اور سفاک ملائمت کا احساس ہے جو ان کی شخصیت محفل کو دیتی ہے۔ ان کا آبائی گائوں (محمد سلیم الرحمٰن کی طرح) سہارنپور ہے۔ بارش اور قطعاتِ ارض کو تاریک کردینے والے آم کے درختوں کا علاقہ۔’‘

 ان تحریروں میں منیر نیازی خود بھی چپکے سے داخل ہو جاتے ہیں۔ ادبی معاملات میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اپنی شاعری نقل کرتے ہیں۔ پنجابی شعری مجموعے ’چار چپ چیزاں’ کی اشاعت کی خبر بھی دی، جس کا سرورق انور سجاد نے بنایا اور دیباچہ صفدر میر نے لکھا۔ سب سے بڑھ کر ان کی موجودگی کا احساس اس تحریر سے ہوتا ہے جو ’منٹگمری کا سفر’ کے عنوان سے شائع ہوئی جس میں شہر کی اُن ادبی سرگرمیوں کا نقشہ کھینچا جس کا مرکز مجید امجد کی ذات ہے:

 ’’جھنگ کے مجید امجد نے منٹگمری کو جس طرح اپنایا اور سنوارا ہے اس کا احسان شاید منٹگمری کبھی نہ چکا سکے۔’‘

سٹیڈیم ہوٹل میں ادیبوں کی انجمن انھیں پاک ٹی ہائوس میں بیٹھے ادیبوں کے مماثل نظر آتی ہے۔ بتاتے ہیں کہ جوگی ہوٹل کے زندہ دل مالک نے ایک گیسودراز شاعرکے ہاتھ پر کچھ پیسے رکھے اور کہا :

‘’یا تو بال کٹوا لو نہیں تو بازار سے پراندا خرید کر ان زلفوں میں گوندھ لو۔’‘

 منیر نیازی کے ’نصرت’ میں مجید امجد کے بارے میں مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے وہ ساحر لدھیانوی کی تحریک پر ملے۔ یہ تقسیم کے بعد کی بات ہے، بقول منیر نیازی ’’ساحر لدھیانوی ان دنوں پاکستان ٹائمز کی ایک عمارت میں رہتا تھا اور فکر تونسوی بھی وہیں پناہ گزین تھا۔’‘

منیر نیازی نے منٹگمری جانے کا قصد کیا تو ساحر نے مجید امجد کی بڑی تعریف کی اور ان سے ملنے کو کہا۔ منیر نیازی نے لکھا ہے کہ وہ اس زمانے میں فیشن ایبل ادبی پرستار تھے اور ساحر کی ’تاج محل’ اور فیض کی غزل

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے

پر جان چھڑکنے والے دودھ پیتے مداح جو مجید امجد کی نظم ’امروز‘کا عنوان پڑھ کر صفحہ پلٹ دیتا۔

ساحر اور فکر تونسوی کے مجید امجد کے نام ایک زور دار تعارفی خط کے ساتھ وہ مجید امجد سے ملے اور دونوں میں دوستی ہو گئی۔

مجید امجد نے فضل محمود کے بارے میں عمدہ نظم ’آٹو گراف’ لکھی، منیر نیازی ہمیں ان کی فاسٹ بائولر سے ملاقات کی خبر بھی دیتے ہیں۔ یہ بھی بتاتے ہیں کہ نرگس ان کی محبوب فلمی فنکارہ ہے جس پر وہ نظم لکھ چکے ہیں۔

افسانہ نگار نوید انجم کے بارے میں ان کاکہنا ہے کہ وہ ایک ہی گلے سے مرد اور عورت کی آواز میں اس خوبی سے گاتے ہیں کہ سب حیران رہ جاتے۔

 ’’انھیں ذرا لہر میں لانے کی ضرورت ہے پھر کچھاکھچ بھرے ہوئے ٹی ہائوس میں کمالِ فن کا مظاہرہ شروع کر دیں گے۔’‘

منیر نیازی اس خواہش کا اظہار بھی کرتے ہیں:

‘’کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ کچھ ایسا بندوبست ہوجائے کہ ہمسایہ ممالک کے ادیبوں سے کھلے ماحول میں ملاقات ہو، خاص طور پر بھارتی دوستوں سے۔’‘

 ’ فنون‘ کی کامیابی کی خبر ان الفاظ میں دیتے ہیں:

‘’احمدندیم قاسمی کے ادارت میں شروع ہونے والا ’’فنون’‘ فلمی اصطلاح میں ہٹ ہو گیا ہے۔’‘

 منیر نیازی بتاتے ہیں کہ قومی کردار پر بات ہورہی تھی کہ اشفاق احمد بولے:

‘’جی چاہتا ہے ’سرفروش’کے مکالمہ نویس انور کمال پاشا کے ہاتھ چوم لوں :

 ’ چوری میرا پیشہ ہے نماز میرا فرض’

بس یہی ہمارا قومی کردار ہے۔’‘

اشفاق احمد کی بات درست ہے کہ ہمارا قومی کردار انور کمال پاشا کے جملے کا مصداق ہے لیکن اس کردار میں جو گراوٹ آئی ہے، اس میں اشفاق احمد جیسے دانش وروں کا بڑا حصہ ہے، منیر نیازی جب یہ سطور رقم کررہے تھے اس وقت اشفاق احمد کے ممدوح ایوب خان کو ملک کی باگ ڈور سنبھالے پانچ برس ہوچکے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مرحوم دانش ور بعد میں بھی ملک کا رستہ کھوٹا کرنے والے ڈکٹیٹروں کی حمایت کرتے رہے۔

 اے حمید سے ’لیل ونہار’ کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کے معاشی حالات ٹھیک نہیں اور گھر چلانے کے لیے دھڑا دھڑ ناول لکھنے پڑتے ہیں۔ اس کے بعد منیر نیازی بڑی اہم بات کرتے ہیں جو ساٹھ برس گزرنے کے بعد بھی ہمارے ادبی معاشرے کے حسبِ حال ہے:

‘’ادیب تکلیف میں رہ کر ہی اچھا ادب تخلیق کرسکتا ہے یہ فیشن ایبل بات اپنی جگہ درست سہی مگر آسودگی میسر ہو تو اس ادیب کی تحریر پر اس کا کیسا اثر پڑتا ہے۔ ذرا یہ تجربہ بھی کرکے دیکھیں، باہر کے ادیبوں پر تو سنا ہے اچھا ہی اثر ہوا ہے۔’‘

 یہ بھی لکھا:

‘’اس عہد میں نہ جاننے والے بولتے ہیں اور جاننے والے چپ ہیں‘‘

اب تو صورت حال اور بھی ابتر ہے، نہ جاننے والوں کو واہی تباہی بکنے کے لیے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کا ساتھ بھی میسر آ گیا ہے۔

 آخر میں منیر نیازی کا یہ شگفتہ فقرہ :

‘’میرے دوست سے ملیے۔ یہ بے وقوف ہونے کے علاوہ شاعر بھی ہیں۔’‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments