کرسمس کیک


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک سنی، وہابی اور شیعہ صحافی نے چرچ میں جاکر ایک عیسائی پادری کو کرسمس کی مبارکباد دی۔ ان کے ہاتھ سے کیک کھایا اور کھلایا۔ حیران کن طور پر نہ کیک کا ذائقہ خراب نکلا، نہ بیٹھ کر بات کرتے ہوئے کوئی تلخی سامنے آئی، نہ چائے اور گرین ٹی کے جو دو دور ہوئے اس میں کسی پیالے یا پرچ نے ہم سے گتھم گتھا ہونے کی اپیل کی۔ سچ پوچھیے تو وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ فادر شاہد معراج نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل حکمران وقت صدر جنرل پرویز مشرف بھی شیڈول کے پندرہ منٹ گزارنے چرچ آئے تھے مگر دو گھنٹے گزار کر گئے۔ ایسے ہی ان کی باغ و بہار شخصیت کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ہم صحافیوں کو بھی وقت گزرنے کا احساس نہیں رہا۔ اس ملاقات کے دوران چاہنے کے باوجود ایک واقعہ ذہن سے زبان تک نہ آسکا۔
کچھ دن قبل پریانتھا کمار کی ہجوم کے ہاتھوں بہیمانہ ہلاکت کے بعد میں سری لنکا میں اپنے چھوٹے بھائی راجا گوپا یاسی ہرن سے آنکھیں ملا نہیں پارہا تھا۔ ہلاکت کی خبر عالمی میڈیا پر نشر ہونے کے بعد یاسی کا چار دسمبر کو ایک واٹس ایپ پیغام آیا تھا۔ یاسی نے ٹویٹر پر موجود پریانتھا کمار کے آخری لمحات کی ایک ویڈیو شیئر کی تھی جس کے نیچے اس نے لکھا تھا “یہ خبر پڑھ کر مجھے بہت دکھ پہنچا ہے” میرے پاس جواب دینے کو کچھ نہیں تھا، میں نے ٹوٹے پھوٹے دل کے ساتھ ایک جملہ تحریر کرکے، یاسی، پریانتھا کے گھر والوں اور اہلیان سری لنکا سے معذرت کی۔ مگر میرا دل مطمئن نہیں تھا۔ یہ معافی ناکافی تھی، اور ایسی صورتحال کا قول سے نہیں فعل سے مداوا کیا جانا چاہیے تھا۔
اے آر وائی نیوز کے ساتھیوں نذیر بھٹی صاحب، اور اعجاز مقبول صاحب کے ساتھ پہلے کرسمس سے ایک دن پہلے کیک لے جانے کا پروگرام طے ہوا، مگر شاہد معراج صاحب کی مصروفیت کی وجہ سے تقریب موخر ہوئی۔ برحال 29 دسمبر کو ملاقات کا موقع ملا تو بین المذاہب ہم آہنگی کے سرخیل قاضی حسین احمد مرحوم، بشپ جان الیگزینڈر ملک، قاضی عبدالقدیر خاموش صاحب کی خدمات کا ذکر خیر بھی ہوا۔
کیتھڈرل چرچ آف ری زریکشن جسے لاہور کے عوام ککڑ چرچ کے نام سے بھی جانتے تھے، اس کی تاریخ پر کچھ لکھنے کو ادھار اٹھا رکھتے ہیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments