پاکستان میں تفریح کی دوغلی نفسیات اور “اوئے لکی۔۔۔لکی اوئے۔۔۔”


شخصی و سماجی سطح پر زندگی گذارنے کے مبہم اور غیر واضح دہرے معیار سے میری ملاقاتیں بچپن میں ہوئیں۔ والدہ محترمہ سینما کی بہت شوقین رہی ہیں۔ اب تو عمر اور حالات کی وجہ سے شوق محدود ہو چکا لیکن بچپن میں تقریبا ہر جمعہ کی رات محترمہ شبنم، محترمہ بابرا شریف، محترم ندیم، محترم افضال، محترم طالش اور دوسرے فن کاروں کی نئی فلموں کے لئے سینما جانا ایک تہوار جیسا ہی ہوتا تھا۔ میں ذاتی طور پر چھوٹے بچوں کو سینما لے جانے کو پسند نہیں کرتا کیونکہ وہاں سکرین کی تیز روشنی، شور شرابا، ہجوم وغیرہ بچوں کے لئے شاید مناسب نہیں ہے لیکن متوسط طبقے کے لئے یہ چیزیں کوئی خاص معنی نہیں رکھتیں۔ اسی لئے جمعہ کی شام میں لاہور کی میکلوڈ روڈ کے کسی نہ کسی سینما میں پایا جاتا تھا۔ شاید یہی وہ وجہ بنی جس نے مجھے سکرین اور میڈیا کی طرف راغب کیا۔ شروع میں تو مجھے فلم اور سینما کے ماحول سے ڈر لگا لیکن پھر یہی چلتی پھرتی تصویریں تجسس کا سبب بنیں اور فن کی راہ کا سفر شروع ہونے لگا۔

انھی دنوں گھر کے کاٹھ کباڑ میں کہیں سے ایک پرانا لیکن نہایت عمدہ ہارمونیم ہاتھ لگا جس کے وہاں ہونے کی وجہ مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکی۔ بارمونیم کو صاف بنا کر اچھے طریقے سے رکھا تو ایک دن والد صاحب میرا شوق دیکھتے ہوئے موسیقی کے استاد کو گھر لے آئے۔ انھوں نے ہارمونیم کو جانچا اور اسے سنبھال کر رکھنے پر مجھے داد دی۔ استاد صاحب نے ہارمونیم کو درست کر کے کچھ سر چھیڑے۔ دنیا دلکشی سےبھر گئی اور میں ایک نئی اڑان سیکھنے والے پرندے کی طرح سروںکی فضاؤں میں تیرنے لگا۔ یہ معجزہ ابھی جاری تھا کہ میری والدہ کہیں باہر سے لوٹیں اور گھر میں ہارمونیم کی آواز سن کر سیدھی کمرے میں آگئیں۔ استاد جی کو ہارمونیم بجاتے اور مجھے سامنے بیٹھ کر سیکھتے ہوئے دیکھ کر ماں جی کا پارہ آتش فشانی ہوگیا۔ والد صاحب نے کوشش کی لیکن وہ کہاں سنتی تھیں۔

” ہن اے واجے وجاوے گا، کنجراں والے کم کرے گا۔ ہائے میرا پتر وگاڑ دتا۔ ہائے میرا پتر ہن مراثی بنے گا۔ گشتیاں نال نچے نچاوے گا۔”

استاد جی شاید اس طرح کے رویے کو پہلے بھی دیکھ چکے تھے اور ان کے چہرے پر اداسی تھی۔ والد صاحب نادم تھے۔ میں حیران تھا کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ گھر میں فن اور فنکاروں کو سب سے زیادہ سراہنے والی میری والدہ تھیں۔

“ہائے ہائے برادری والے تے پہلے ہی سانوں چنگا نہیں سمجھدے۔ ہن اسی واجیئاں والے وی ہو گئے۔ کنجر ہو گئے۔ منڈیا تو اندر دفع ہو جا تے باہر نہ نکلیں۔ تے تسی اے اپنا واجا چکو تے مہربانی کرو۔”

” یہ میرا نہیں ہے۔” استاد جی جانے لگے۔

” جس دا وی ہے۔ مہربانی کرو تے اینھوں ایتھوں لے جاؤ۔ اے دوزخ دا مال سانوں نہیں چاہی دا۔ “ 

استاد جی نے والدصاحب کی طرف دیکھا۔ وہ سر جھکا کر کھڑے رہے۔ انھوں نے ہارمونیم اٹھایا اور گھر سے باہر چلے گئے۔ میں دوسرے کمرے میں چلا آیا۔ والدہ کے چلانے کی آوازیں وہاں بھی آ تی رہیں جہاں وہ فن اور آرٹ سے جڑے ہر انسان کو اب مزید سخت الفاظ میں کوس رہی تھیں۔

اس واقعہ کے کچھ دن بعد جمعہ کی شب میکلوڈ روڈ کے ایک بڑے سینما گھر میں سوڈے کی بوتل کے ساتھ آلو کے سوکھے چپس کھاتے ہوئے میں نے ڈرتے ڈرتے اپنی والدہ کی طرف دیکھا۔ سکرین پر کوئی رومینٹک سا گانا چل رہا تھا۔ ہیروئین اور ہیرو دونوں گا رہے تھے ناچ رہے تھے۔ ہارمونیم بج رہا تھا موسیقی چل رہی تھی اور میری والدہ کی نظریں مبہوت انداز میں سکرین پر گڑیں تھیں۔ میں نے اردگرد دیکھا۔ شو ہاؤس فل تھا۔ کم و بیش تمام حاضرین کا میری والدہ والا ہی حال تھا۔ فلم ختم ہوئی۔ سب لوگ باہر آگئے کچھ دیر فلم کے بارے میں باتیں ہوئیں اور پھر سب اپنے اپنے گھر ہو لئے۔ گھر پہنچنے تک سب نے خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ صرف تماشائی تھے۔ گناہ کے اس کنجر خانے سے ان کا یا ان کے گھر والوں کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ سب کے بچے بچیاں بھائی بہنیں اس کفر سے محفوظ تھے۔ خدا سب کو اپنی امان میں رکھے اور دوزخ کی آگ سے بچائے رکھے۔ آمین۔

 ایک بڑھتے ہوئے بچے کے لئے اس بات کو سمجھنا مشکل تھا کہ جس سکرین، سینما، موسیقی، فنکار کو اس کے گھر میں پسند کیا جاتا ہے، ہر نئی فلم کا انتظار ہوتا ہے، سینما جانے کے لئے تانگہ لیا جاتا ہے، ٹکٹ خریدے جاتے ہیں، ہال میں کھانے پینے پر بھی خرچہ ہوتا ہے وہاں اگروہ اسی فن کو سیکھنا چاہتا ہے تو پھر یہ سب کچھ گناہ کیسے بن جاتا ہے۔ موسیقی، رقص، سکرین کے لئے کام کرنے والے مرد و خواتین کم ذات کیسے ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ سب حرام ہے تو پھر یہ فلمیں ڈرامے وغیرہ کیوں بن رہے ہیں اور کیوں دیکھے جا رہے ہیں؟

 مذہبی خطوط کے حوالہ سے دیکھا جائے تو گانا، بجانا، ناچنا، اداکاری، مخلوط محفلیں، یہ فعل مکروہ ہیں، گناہ ہیں اور شرع میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ ثقافتی پس منظر کو کھنگالیں تو ڈیجیٹل میڈیا کے آنے سے بہت پہلے پنجاب میں گاؤں گلیوں سڑکوں بازاروں میں موسیقی، رقص، گانے وغیرہ کے فن سے پیسے کمانے والوں کو ڈوم ڈومنیاں، میراثی میراثن ہی کہا جاتا تھا اور معاشرہ میں ان کے کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ پاکستان میں بسنے والے ایک بڑے طبقہ کے لئے آج کے چمکتے دمکتے فنکار بھی ڈوم اور ڈومنیوں کی ارتقائی اشکال ہیں۔

 انٹرنیٹ کی معلومات کے مطابق پاکستان ٹیلی ویژن، ریڈیو پاکستان اور وزارت اطلاعات کے سب ملا جلا کر کوئی دس ہزار کے قریب ملازم ہیں۔ کچھ کمی بیشی ہو تو معذرت۔ ان اداروں میں نوکری کے لئے تعلیم کا ایک معیار ہے پھر بعد از ملازمت میڈیا کے فن کی تربیت ہے اس کے علاوہ تحقیق و حوالہ جات وغیرہ کے لئے دنیا بھر کا میڈیا فون اور لیپ ٹاپ پر موجود ہے۔ ان تمام عناصرکے ساتھ ان اداروں میں تخلیق سے زیادہ تبلیغ کا رجحان غالب نظر آتا ہے جو شاید پاکستان کے سابق بیانئے سے مطابقت بھی رکھتا ہے۔ ان اداروں میں کام کرنے والے تمام نہیں تو شائد آدھے دوست دن بھر کی فراغت آمیز ملازمت کے بعد واپس جانے کی تیاری کرتے ہیں۔ کچھ دیر دیگر دوستوں کے ساتھ دن کے مشاغل کا ذکر ہوتا ہے اور پھرسب اپنے اپنے گھروں کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔ گھر پہنچنے تک خدا کا شکر کرتے ہیں کہ وہ صرف تماشائی ہیں۔ ٹی وی ریڈیو موسیقی جیسے گناہ کے ان قحبہ خانوں سے ان کا یا ان کے گھر والوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ صرف اپنے بچوں کی روزی روٹی کے لئے اس مکروہ نوکری سے منسلک ہیں۔ خدا ان کو معاف کرے۔خدا سب کو اپنی امان میں رکھے اور دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

 پاکستان کے ان تین اداروں سے ہمیں یہ ڈیٹا ملتا ہے کہ کسی بھی ملک کے سرکاری میڈیا کو کامیاب طریقے سے ناکام کرنے کے لئے کتنے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یار لوگ شاید آج بھی اس کشمکش کا شکار ہیں جو میڈیا میں کام کرنا حلال ہے یا کفر۔ فلم یا ٹی وی ڈرامہ وغیرہ بنانا، ان میں کام کرنا، رقص موسیقی یہ سب گناہ سے لتھڑے فعل ہیں۔دوسری طرف نجی نشریاتی ادارے ہیں جن میں سے اکثر تو سکرین پر ہڑبونگ مچاتے ہی نظر آتے ہیں اور ویسے بھی نجی ادارے کئی ماہ اپنے ملازمین کو اجرت ہی نہیں دیتے جبکہ سرکاری میڈیا میں ہر مہینے اجرت الاؤنس تو بندھے مل ہی جاتے ہیں اسی لئے ادارے سرکاری ہوں یا نجی تخلیقی عمل جیسے بیکار بے دین، کفری فعل سے جتنا دور رہیں اتنا ہی اچھا ہے۔

کہتے ہیں کارگل کے بعد کہیں کسی محفوظ کمرےکی بہری دیواروں کے پیچھے نئےرنگ برنگے بھارتی میڈیا کی یلغار کو روکنے کے لئے نجی میڈیا کو اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا جس کا میڈیا کی آزادی جیسے نعروں سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ بات اتنی سی تھی کہ دوردرشن اور پی ٹی وی عرصہ سے دونوں ملکوں میں میڈیا کی گدی کے مجاور بنے بیٹھے تھے۔ جب بھارت میں سجے سجیلے چمکیلے چینل شروع ہوئے اور پاکستان میں بھی مقبول ہونے لگے تو پاکستان میں ڈیپ سٹیٹ کی بازی ڈگمگانے لگی۔ جواب میں یہاں بھی لائسنس دے دیئے گئے ثقافتی محاذ شروع ہوا اور مبہم بیانئے کو مزید ہوا فراہم ہونے لگی۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ آرٹ، فن اور تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے والے میڈیا کے ذریعے ہی ان فنون کی نفی کی گئی اور الجھے ہوئےذہن مزید دھندلا دیئے گئے۔ دوہرے پاکستان میں ٹی وی سکرین پر مبینہ توہین کرنے والے پریانتھا کو زندہ جلانے کی مذمتیں ہوتی ہیں وہیں اگلے لمحے حرمت رسول پر گردنیں تن سے جدا کر دینے کی تلقین بھی کر دی جاتی ہے۔

دنیا کے زیادہ تر مذاہب میں کسی بھی خدا یا خدا کے اوتار کی توہین کی سزا موت ہے۔ یونانی خداؤں سے لے کر سعودی عباؤں تک اور فرعونی نقارے کی چوٹ سے لے کر سیالکوٹ تک ہر دور میں توہین کرنے والوں کا سرعام قتل کرنا ثواب حاصل کرنے کا آسان ترین طریقہ بتایا جاتا ہے۔

 سماجی طور پر میرے نزدیک پاکستان میں توہین کو ایک بہترین ہتھیار کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔ شرع اور احادیث میں توہین کی سزا کے بارے میں دوٹوک دلائل ملتے ہیں۔ ظاہر ہے کچھ ایسی باتیں کی جاتی ہیں کہ مذہب میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے یا یہ کہ نبی ؐ تو اپنے اوپر کوڑا پھینکنے والی کو بھی معاف کردیتے تھے لیکن عقیدت شاید ایک جنون ہے اور اسی جنونیت کا بہترین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں توہین کا معاملہ مذہبی گروہوں اور ڈیپ سٹیٹ کی ایک نئی اور شاندار حکمت عملی کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ توہین کی کلنگ مشین ایک ایسے منفرد کارٹل کے طور پر ابھر رہی ہے جو ریاستی اداروں نے اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہے۔ یہ جب چاہو جس کو چاہو راستے سے ہٹا دو کی پہلی کڑی ہے۔کھلے دن میں سب کی نظروں کے سامنے لوٹ مار ہوتی ہے، زندہ انسانوں کو وحشیانہ موت دی جاتی ہے، نظام تہس نہس ہوتا ہے اور کوئی کچھ نہیں کر پاتا۔ 

 مذاہب اور بین الاقوامی امور کے انٹرنیشنل جرنل کی ڈاکٹر وائٹ کے نزدیک جنوب ایشیا میں توہین کارٹل دنیا میں ظالم سمجھی جانے والی میکسیکو اور کولمبئین کارٹل سے زیادہ منظم و خطرناک مافیا کے طور پر سامنے آرہی ہے۔ عام طور سے کارٹل یا مافیا کے ممبران یا قانون آپس میں دشمنی کرتے لڑتے بھڑتے قتل وغارت کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں ابھرنے والے توہین کارٹل کا میکینزم منفرد ہے جہاں عام شہری کبھی بھی کہیں بھی اس کارٹل کا حصہ بن کر لوٹ مار اور قتل وغارت کا حصہ بن جاتے ہیں کیونکہ انھیں یقین ہے کہ توہین کے لئے اٹھایا جانا والا ان کا ہر قدم، لوٹ مار، مبینہ ملزم کو ماری جانے والی ہر ٹھوکر، ہر اینٹ، ہر ضرب ان کے لئے جنت کا ٹکٹ ہے۔ سڑکوں پر بہنے والا ملزم کا باطل خون ان کے لئے جنت کی خوشخبری ہے۔ ملزم کو لگائی جانے والی آگ ان کو ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ سے محفوظ کر دے گی۔ سر عام قتل کرنے کے اس فعل میں شامل ہر شخص کو اس بات کا بھی یقین ہےکہ اگر اس کے بعد انھیں موت کی سزا بھی دی گئی تو اخرت میں ان کے لئے اور ان کے خاندان کے لئے نبی کا ساتھ اور جنت میں محل موجود ہے۔ عام شہری ہوں یا ہائی پروفائل شخصیات کوئی بھی اس کارٹل سے محفوظ نہیں ہے۔ ریاست، عدلیہ، میڈیا سب چپ ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی نے بھی بات کی تو وہ دنیا کے سامنےسڑکوں پر زندہ جلا دیئے جائیں گے۔ اس وقت پاکستان میں ریاست سے زیادہ توہین کی رٹ قائم ہے۔

 دنیاوی تقاضوں اور سوشل میڈیا وغیرہ کے لئے کچھ عالم اور مذمتی لہجہ والے لوگ آگے آ کر اسلام میں اس کی اجازت نہیں ہے، توہین کا قانون موجود ہے، نبی تو دو جہانوں کے لئے رحمت ہیں، کی دلیلیں پیش کرتے ہیں لیکن اندر سے یہ سب بھی جانتے ہیں کہ توہین کی سزا عملی طور پر سرعام قتل ہی ہے اب قانون ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ توہین کے ملزم کو کوئی بھی کہیں بھی قتل کر کے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے جنت کے ابدی حقوق حاصل کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر وائٹ کے مطابق تاریک دور کے پادریوں اور راہبوں کی طرف سے اپنے مخالفین اور بالخصوص عورتوں کو ڈائین قرار دے کر زندہ جلانے کے بعد اکیسیویں صدی میں مذہبی بربریت کی تازہ تاریخ پاکستانی عوام رقم کر رہے ہیں اور اس سارے منظر کو سجانے والے بلاشبہ اپنی کامیابی پر نازاں ہیں۔

 یہ ڈیپ سٹیٹ کے بیانئے کی جیت ہے یا خوف جہاں پاکستان کے چوٹی کے اداکار بڑی اور چھوٹی سکرین پر مذہب و مقتدرہ کی ستائش سے آراستہ پراجیکٹس میں نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں حکومت کی طرف سے ایک تاریخی سنی کردش جنگجو سلطان پر بننے والے پراجیکٹ کا حصہ بننے کے لئے ملک کے صف اول کے فنکاروں کی طرف سے سفارشات و قبولیات کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں رات کو عوامی جذبات، ریاستی سوچ اور میڈیا نہایت سمجھدار، آزاد، شخصی، سماجی و مذہبی آزادی کے حامی و پیروکار ہوتے ہیں اور اگلے دن سڑکوں اور سرحدوں پر مذہب و قومیت کے نام پر ایک دوسرے کے جسموں کے پر خچے اڑانے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ یہ آج کے دور میں ریاستی اور عوامی بیانئےکو من چاہا روپ دینےوالی پاکستانی مقتدرہ کا حیرت انگیز کارنامہ ہے۔

پاکستانی تفریحی میڈیا میں کام کرنے والے فنکار، ہدایتکار، لکھاری اور دوسرے عملہ کی معاشرہ میں موجودگی تو ہے لیکن اپنائیت نہیں۔ لوگ فلمیں دیکھتے ہیں، ہر وقت ٹی وی کے سامنے جڑے رہتے ہیں لیکن ان میں کام کرنے والوں، خاص طور سے خواتین کو آج بھی انھی القابات سے نوازا جاتا ہے جو میں اس مضمون کے شروع میں عرض کر چکا ہوں۔ مجھے لگتا ہے اسی وجہ سے پاکستانی انٹرٹینمنٹ برادری کی کوئی نظریاتی اساس نہیں بن سکی۔اس شعبہ سے منسلک پیسہ اور شہرت کی قیمت چکاتے ہمارے زیادہ تر فنکار دوست نظریاتی طور پر غیر فعال ہی نظر آتے ہیں۔

 جہاں دنیا بھر کے ڈاکٹر اور جینیاتی سائینسدان خاندانی شادیوں کی طبی پیچیدگیوں کے بارے میں آگاہ کرتے رہتے ہیں وہاں پاکستان کے سب سے بڑے چینل پر پاکستان کی معروف اداکارہ ماہرہ خان ڈرامہ سیریل” ہم کہاں کے سچے تھے” میں کزن میریج کو رومانوی تناظر میں جذبات سے آراستہ کرتی ہوئی ایک ستائیشی قبولیت فراہم کرتی ہیں۔ جب دنیا میں خواتین کی برابری، خود اعتمادی اور خود اختیاری کی بات ہوتی ہے وہاں ہر دوسراپاکستانی ڈرامہ سیریل خواتین کو ایک سازشی کردار، کمتر شے اور مرد کی ملکیت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ خود اعتماد، خود مختار عورت بری عورت ہے بد چلن ہے۔ ایک ہی طرح کے میڈیا کانٹینٹ کو بار بار پیش کرنے کے لئے مارکیٹنگ اور پبلک ڈیمانڈ کا عذر پیش کیا جاتا ہے۔

 جارج واشنگٹن کی میڈیا سٹڈیز کی سکالر بیکی سٹونز کے مطابق عوامی میڈیا میں جو چیز ایک بار یا دو بار پیش کی جائے وہ ٹرینڈ ہے اور جو چیز بار بار پیش کی جائے وہ ایجنڈا ہے۔اس کے لئے وہ سپر ہیروز کی فلموں کی مثال دیتی ہیں جن کی بار بار نمائش ان فلموں سے منافع کے ساتھ دنیا بھر میں سپر ہیرو مرچنڈائز کی بلین ڈالر فروخت کا سبب بنتی ہے۔ ڈاکٹر سٹونز کا یہ بھی ماننا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں میں کسی ایک بیانئے کو مستحکم کرنے کی بجائے مذاہب، فرقہ بندی، رنگ، نسل، زبان جیسے عوامل کو لے کر ایک غیر واضح غیر مستحکم معاشرے کی راہ استوار کی جاتی ہے جو صاحب دسترس اور صاحب اقتدار گروہوں کے ذاتی اور آپسی مفاد کے لئے کارآمد ہے۔ ڈاکٹر سٹونز کینیڈا کی مثال دیتی ہیں جہاں ہم آہنگی کے ایک مستحکم ریا ستی بیانئے کی بدولت ہر مذہب، ہر فرقہ اور ہر فرد چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اس اصول کے ساتھ ہی زندگی بسر کرتے ہیں جبکہ یہی افراد اپنے آبائی ممالک میں کثیرالثقافت، سماجی برابری، اور مذہبی ہم آہنگی جیسےنظریات کو یکسر مسترد کر دیتے ہیں۔

مبہم میڈیا، غیر واضح آزادی، دوہرے معیار وغیرہ کے بارے میں میر ی اچھل کود اپنی جگہ لیکن اس کا پرچار ہوتے دیکھنا بھی اپنے آپ میں ایک دلچسپ تحقیق ہے۔ کینیڈا کے شہر وینکوور میں پاکستانی کونسلیٹ کی طرف سے کونسلیٹ جنرل کا 14 اگست 2021 کا بیان جاری ہوا جو ایک مقامی ریڈیو سٹیشن پر نشر کیا گیا۔ صاحب نے ایک گرم جوش خطابت اور مطالعہ پاکستان کے انداز میں پاکستان کی آزادی کو ہندوؤں کی مکروہ اور متعصبانہ سوچ سے آزادی قرار دیا اور شکر ادا کیا کہ آج مسلمان ایک آزاد ملک میں جی رہے ہیں۔ پاکستان زندہ باد۔ خطاب کے بعد ریڈیو شو کے پاکستانی میزبان نے بھی ایسی ہی ولولہ انگیز باتیں کی اور پاکستانی جنگی ترانے لگائے۔ یہ سب مواد جس کمپنی کے ریڈیو سٹیشن پر نشر ہوا اس کا نام آکاش میڈیا ہے جس کے مالک بھارتی نژاد کینیڈین ہندو اور سکھ ہیں۔ ایک کثیرالثقافتی معاشرے میں رہنے والے پاکستانی کونسلیٹ اور شو کےمیزبان نے ایک بار بھی کینیڈا میں پاکستان اور بھارتی نژاد شہریوں کےباہمی روابط کے بارے میں نہیں سوچا اور نہ ہی یہ خیال کیا کہ پاکستان میں بھی ہندوؤں کی ایک بہت بڑی تعداد بستی ہے اور ایسے بیانات ان کی مصیبتوں میں مزید اضافہ کا سبب بنتے ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کا ادارہ جہاں وہ ملازمت کرتے ہیں وہ بھی ہندوؤں کا ہی ہے۔ اب زیادہ گرمجوشی کس چیز میں ہے ہندوؤں سے آزادی لے کر یا ان سے اجرت لے کر یہ تو وہ میزبان صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔

اسلام آباد ریڈیو کے اکمل شہزاد گھمن سے ریڈیو پاکستان کی حالت زار کا رونا رویا تو انھوں ” سنو ایف ایم 89.4″ سننے کا مشورہ دیا۔ بولے آئی ایس پی آر کا ریڈیو ہے۔ اچھا کام ہو رہا ہے۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ آن لائین ریڈیو سنا۔ 6 ستمبر کے حوالہ سے شو چل رہا تھا۔ شو کے میزبان بھٹی صاحب جوش اور ولولہ میں بھارتی دشمنوں کے چھکے چھڑا رہے تھے، ایک کال آئی اور مہمان کالر صاحب نےمزید جوش میں لال قلعہ پر ہرے پرچم لہرانے کی قسم کھائی۔ فضا وطن کی محبت کے جذبات سے معطر ہوگئی۔ کال ختم ہوئی، میزبان نےدشمن کو فتح کرنے کا عزم کیا۔دشمن کانٹینٹ کو پاکستانی ریڈیو پر تاقیامت بند رکھنےکی صدا بلند کی۔ پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے اور بریک لے لی۔ شو کا بیک گراؤنڈ میوزک شروع ہوا۔ بھڑکتا تھرکتا گانا میرا جانا پہچانا تھا۔میں نے ریڈیو کی آواز اونچی کی۔

مشہور بھارتی اداکار بوبی دیول کی بھارتی فلم” اوئے لکی۔۔لکی اوئے” کا ٹائیٹل بھنگڑا بجنے لگا۔

 ” او چل ہو جا شروع۔۔۔۔۔ اوئے لکی۔۔۔لکی اوئے۔۔۔آہا۔۔۔ او بلے۔۔۔۔ہاں ہو جا شروع۔۔۔اوئے لکی۔۔لکی اوئے۔۔۔۔۔او چک دے۔۔۔۔۔واہ واہ۔۔۔”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments