نئے سال کا تحفہ


اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ لفظ سنوارتے بھی ہیں اور بگاڑتے بھی۔ جہاں خوشبو ہے وہاں بدبو بھی۔ جہاں پھول ہیں وہاں کانٹے بھی۔ جہاں لہلہاتی ڈالیاں ہیں وہیں خاردار جھاڑیاں بھی۔ پاکستانی معاشرہ کئی طبقاتی تقسیم کا شکار ہے جہاں مختلف پرکشش دلکش لوگ ہیں تو وہیں عدم دلچسپی کی صفات سے مرصع سخت مزاج بھی ہیں۔ اس معاشرے میں انسان کئی حیثیتوں سے منسلک ہیں۔ جس میں خاندانی و سماجی دینی و ایمانی معاشی و سیاسی تمام تر انسانی حیثیتیں شامل ہیں۔ ان سب میں اظہار ما فی الضمیر کے لیے لفظوں کا ہی سہارا لیا جاتا ہے جو یا تو ان شعبہ ہائے زندگی میں تعمیر کا کام دیتے ہیں یا تخریب کاری کا۔

آج کے موضوع میں لفظوں کی دو حیثیتوں تعمیر و تخریب میں سے تعمیر کی مناسبت سے عنوان قائم کیا گیا ہے۔ کیونکہ لفظوں کا استعمال تعمیر کے لیے ہو تو ہی وہ لفظ قرار پاتے ہیں ورنہ وہ اپنا اصل مقام کھو دیتے ہیں۔ ایسے الفاظ جو اپنی حیثیت کھو دیتے ہیں، دوسروں پہ اثر انداز ہونے سے پہلے اپنا وقار مجروح کر دیتے ہیں۔ ان کے بارے میں منبع علوم و معرفت حضرت علی حیدر کرار فرماتے ہیں :

تلوار کے زخم تو مٹ سکتے ہیں
مگر زبان کے زخم نہیں مٹ سکتے
تلوار کے گھاؤ بھر جاتے ہیں لیکن لفظوں کے زخم نہیں مٹتے۔ پھر اسماعیل میرٹھی کچھ یوں گویا ہوئے :
چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرا
لگا جو زخم زباں کا رہا ہمیشہ ہرا

دیکھا جائے تو تلوار کی تیز دھار جسم انسانی کو زخمی کرتی ہے، لیکن لفظ روح انسانی کو زخمی کر دیتے ہیں۔ دل چیر دیتے ہیں، مایوس کر دیتے ہیں۔ کیا ہو گیا ہے اس انسان کو کہ انسانوں کی دنیا میں ایک ساتھ رہنے سے بھی عاری ہو گیا۔

پیغمبر انقلاب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرب و عجم کے لوگوں کو یک جان، جسد واحد کی مانند بنا دیا تھا۔ جن کے لفظوں کی تاثیر سے صہیب کا دل روم موجود اٹلی میں پگھلا۔ سلمان کے دل مضطر کو قرار ایران میں ملا اور طویل العمر سلمان درخت سے چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ وہ لفظ جنہوں نے بلال کے دل پہ مرہم کا کام دیا اور امیہ کی سختیوں کو بخوشی قبول کرتے رہے۔ وہ کیسی طاقت تھی جس نے بلال کو ایتھوپیا سے لا کر در نبی کا مؤذن بنا دیا۔

ہزاروں کروڑوں رحمتوں کا نزول ہو ان جانثاروں پہ جن کے لیے رضائے خداوندی خوشخبری بنی اور ان کی حیات تا قیام قیامت انسانوں کے لیے مشعل راہ۔ پیغام الہی اور فرامین نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصل مخاطبین انسان ٹھہرے، کوئی دوسری، تیسری مخلوق نہیں۔ انسانوں میں سے بہترین انسان وہ جو لفظوں کے استعمال سے آشنا ہو جائے۔ دلوں میں چھپے کرب و الم کو زبان پہ آنے سے پہلے اپنے سینے میں پرو ڈالے۔ لفظ ذمہ داری کی تعبیر، نظم کی ترتیب ہیں۔ لفظ رشتوں میں توازن کا سبب ہیں۔ لفظ جو دل کے قریب ہیں وہی تو لفظ ہیں، باوقار، دل آشنا، نظر آفریں، خوشحال خاندان اور معاشرے کی تصویر۔ لفظ جو فاصلہ کر دیں، اپنوں کو دور اور بدگمان وہ لفظ کیسے؟ ایسا تو نہیں تھا خالق کا شاہکار فرشتوں سے سرفراز پروردگار کی تربیت کا ثمر یقیناً ایسا نہیں تھا۔

چار چیزیں اس جہاں میں نہ بدلی جانے والی حقیقتیں ہیں جو ہر انسان اس دنیا میں یکساں لے کر آتا ہے۔ آج انہی کی فکر نے انسان کو انسان سے دور، خالق سے دور کر دیا ہے۔ زندگی رزق عمر اور موت یہ وہ مستقل مزاجی سے چلنے والے انسان کے ہمسفر ہیں جو خالق کی تخلیق سے انسان کی سرشت میں رکھ دیے گئے چاہے وہ انسان مسلم ہو یا غیر مسلم۔ یہ خدائے بزرگ و برتر کے انعامات ہیں۔

زندگی کیا ہے۔ زندگی کا مقصد کیا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر انسان سے جڑے ہیں۔ زندگی کا خوبصورت تحفہ جو انسان کو ملا ہے اسے انسان پہلے گزارتا ہے پھر احساس و شفقت کا سائبان بنتا ہے۔ مقصد حیات قدرت سے شناسائی ہے، بندگی کا عظیم مظہر ہے۔

رزق کیا ہے۔ رزق کیوں دیا جاتا ہے۔ رزق ہر وہ نفع بخش سامان ہے جو انسانی زندگی کو راحت دے۔ عمومی طور پہ انسان رزق مال کو سمجھتا ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ جہاں مال عزت رزق ہیں وہاں وقت بھی رزق ہے۔ پھر قدرت کی طرف سے ہر انسان کو دی جانے والی توانائی رزق ہے ان کی صلاحیتوں کا اظہار رزق ہے ان کا استعمال رزق ہے۔ اچھا ہمسفر رزق ہے نیک اولاد رزق ہیں۔ اس وسعت پذیر لفظ میں پنہاں رزق کی رعنائیاں انسان کے لیے یکساں طور پہ تقسیم کردی گئی ہیں، مگر انسان عجلت پسند وقت سے پہلے اور نصیب سے زیادہ کا متلاشی حیران و سرگرداں رہتا ہے۔ خود کو دوسروں پہ قیاس کرنا پھر دوسروں کو خود پہ قیاس کرنا یہ پیمانے اس کے گھڑے ہوئے ہیں۔ جس خالق کی تقسیم پہ انسان کو قرار نہ ملا وہ اپنے خود ساختہ نظریات میں جو فانی ہیں کیسے منزل مل سکتی ہے۔ اسی لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے :

” کثرت مال کی طلب نے انسان کو ہلاک کر دیا“

عمر کیا ہے۔ عمر کتنی ہے۔ عمر کا اختتام کیا ہے۔ عمر ایک ایسا مخصوص، سنہری وقت ہے جس میں ہستی انسان قدرت کے اعلامیے کو اس کائنات میں پورا کرتا ہے۔ حدیث کے مطابق بہترین انسان وہ ہے جس کی عمر لمبی اور اعمال اچھے ہوں اور برا انسان وہ ہے جس کی عمر لمبی اور اعمال برے اور ناگفتہ بہ ہوں۔ عمر کا اختتام موت ہے۔

موت کیا ہے۔ موت کی مقصدیت کیا ہے۔ دراصل موت ایک نئے جہان کا آغاز اور عالم رنگ و بو کا اختتام ہے۔ موت اس کی جو بے ضمیر ہو موت اس کی جو بے لفظ ہو، موت اس کی جو نفع کی بجائے شر انگیزی کا سبب ہو۔ موت کی مقصدیت دنیا کی رنگینیوں میں گزارے ہوئے لمحوں کی جوابدہی ہے۔ ایک ایسی حقیقت جس سے سب نے یکساں نمٹنا ہے۔ جس سے مفر نہیں۔ اس لیے توجہ دینا ہوگی ان لفظوں کی طرف جو سنوارنے کا کام دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments