حسینی تحریک ایک مقدس حمادسہ از نگاہ ادبیات


حماسہ کے معنی شدت اور سختی کے ہیں۔ کبھی یہ لفظ شجاعت اور حمیت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شعر کے عالم شعروں کے مجموعوں کا شعر کی اقسام اور مقاصد کے لحاظ سے الگ الگ نام رکھ دیتے ہیں۔ بعض نظموں کو غنائی، بعض کو حماسی، بعض کو وعظی اور نصیحتی، بعض کو رثائی اور بعض کو مدحی کہتے ہیں۔ حافظ کی غزلیں اور دیوان سعدی، شمس تبریزی کا دیوان غنائی مجموعے ہیں، یعنی ان کا ہدف عرفان الہیٰ ہے، لیکن کم سے کم نشیب کے لحاظ سے ان کی زبان عاشقانہ ہے۔ جدائی کے دکھ، شب ہجر کے طول اور وصل کے دنوں کے مختصر ہونے کے تذکرے ہیں۔

فکر بلبل ہمہ آن است کہ گل شد یارش
گل در اندیشہ کہ چون عشوہ کند در کارش
دلربایی ہمہ آن نیست کہ عاشق بکشند
خواجہ آن است کہ باشد غم خدمت گارش

یہ غنائی شعر ہیں، اگرچہ آخر میں ایک بہت بلند پایہ عرفانی معنی تک رسائی ہو جاتی ہے۔ حافظ کا یہی طور ہے۔ اسی شعر کے آخر میں کہتا ہے :

صوفی سر خوش از این دست کہ کج کرد کلاہ
بہ دو جام دگر آشفتہ شود دستارش
غنائی اشعار زیادہ ہیں۔

شعر رثائی یا مرثیہ دین کے بزرگوں، دنیا کے دوسرے بڑے لوگوں اور ان لوگوں کے لیے جو خیر و برکت کا موجب رہے ہیں، کہا گیا ہے۔ یہ شعر کی دوسری قسم ہے۔ حماسی اشعار کی قسم ایک اور ہی ہوتی ہے، جو صرف ایک مخصوص لہجہ قبول کرتی ہے۔ شعر حماسی وہ شعر ہوتا ہے، جس سے غیرت، شجاعت اور مردانگی کی بو آتی ہے۔ یہ ایسا شعر ہوتا ہے، جو روح کو تحریک دیتا ہے اور اسے جوش میں لے آتا ہے۔ مثلاً

تن مردہ و گریہ دوستان
بہ از زندہ و طعنہ و دشمنان
مرا عار آید از این زندگی
کہ سالار باشم کنم بندگی

یہی قسمیں سرگزشتوں، سانحوں اور تاریخوں کی بھی ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں غنائی سانحے بھی ہیں، واعظی اور نصیحتی بھی، رثائی سانحے بھی ہیں اور حماسی بھی۔ جن رزمی شخصیتوں کے لیے رزمیہ نظمیں کہی گئی ہیں، ان کے نسلی اور قومی پہلو ہوتے ہیں، عام طور پر ایک قوم کے حقیقی اور افسانوی ہیرو چونکہ اس قوم سے منسوب ہوتے ہیں، اس لیے یہ افراد قوم کے جذبات ابھارتے ہیں۔

اب آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سانحہ کربلا میں حماسی پہلو ہے یا نہیں۔ ؟ فرزند زہراء حسین ابن علی علیہ سلام کی شخصیت حماسی ہے یا نہیں۔ ؟ عاشورہ کے سانحے اور کربلا کی تاریخ کے دو صفحے ہیں۔ ایک صفحہ سفید اور نورانی ہے اور دوسرا صفحہ کالا اور تاریک۔ اس لیے جب ہم تاریخ کربلا کے سیاہ صفحے کا مطالعہ کرتے ہیں تو صرف انسان کا جرم اور مرثیہ ہی دیکھتے ہیں۔ اب اگر ہم شعر کہنا چاہیں تو کیا کہیں؟ مرثیہ کہیں کیونکہ مرثیہ کے سوا اور کوئی بات بھی نہیں ہے، جو ہم کہ سکیں۔ ہمیں یہ کہنا چاہیے :

زان تشنگان ہنوز بہ عیوق می رسد
فریاد العطش ز بیابان کربلا

تو کیا عاشورا کی تاریخ کا صرف یہی صفحہ ہے؟ کیا فقط مرثیہ ہے؟ فقط مصیبت ہے اور دوسری کوئی چیز نہیں؟ ہماری یہی غلطی ہے، اس تاریخ کا دوسرا صفحہ ہے، جو روشن ہے۔ المیہ نہیں بلکہ حماسہ ہے۔ فخر و روشنی ہے۔ حقیقت اور انسانیت کا جلوہ ہے۔ حق پرستی کی چمک دمک ہے۔ اس صفحے کو جب ہم دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بشریت کو اپنے اوپر ناز کرنے کا حق ہے۔ امام حسین علیہ سلام کی شخصیت حماسی ہے لیکن ایسی نہیں جیسی جلال الدین خوارزم شاہ کی ہے اور نہ رستم جیسی افسانوی ہے۔ قومی اور ملی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ انسانی نقطہ نظر سے پوری دنیا امام عالی مقام علیہ السلام جیسی شخصیت پیش نہیں کر سکتی۔ امام حسین علیہ سلام انسانیت کا ترانہ ہیں، انسانیت کا نغمہ ہیں، اس وجہ سے اپنی نظیر نہیں رکھتے۔

اس وقت آج کے سے مرثیہ گو نہیں تھے۔ ”کمیت“ مرثیہ گو تھا، ”دعبل خزاعی“ مرثیہ گو تھا۔ وہی دعبل خزاعی جس نے کہا تھا کہ میں پچاس سال سے اپنی صلیب اپنے کاندھے پر اٹھائے پھر رہا ہوں۔ وہ ایسا مرثیہ کہتا تھا کہ اموی اور عباسی سلاطین کے تخت ہلا دیتا تھا۔ ہمارے ہاں کیا ہوا کہ ہمارے شاعروں نے امام عالی مقام کی شہادت کا ذمہ دار آسمان کو ٹھہرایا۔ کمیت اس قسم کا شاعر نہ تھا۔ وہ ایک مرثیہ کہتا تھا تو دنیا کو لرزا دیتا تھا، لیکن امام عالی مقام کے نام سے، امام کی شخصیت کے حماسی پہلو کو بیان کر کے۔

رزمیہ بات، نظم، شعر یا نثر وہ ہوتی ہے، جو عقیدے کے لیے جنگ آزمائی، مقابلے، قیام اور بچاؤ کی خاطر انسانی روح میں جوش اور ولولہ پیدا کرتی ہے، جبکہ حماسی شخصیت اسے کہتے ہیں، جس کی روح میں یہ لہر اٹھتی ہے اور جو عظمت، غیرت، حمیت و شجاعت اور انصاف طلبی کے مچلتے جذبوں سے سرشار ذہنیت رکھتی ہے۔ امام کی شخصیت مکمل حماسہ ہے، جس میں بزرگی، شجاعت، سچائی کی طلب اور حقانیت کی لگن موجیں مار رہی ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی ذات ایک مکتب ہے، جو آپ کی شہادت کے بعد اور زیادہ زندہ ہو جاتا ہے۔ حماسہ حسینی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بنی امیہ کی حکومت سمجھتی تھی کہ حسین علیہ السلام کو قتل کر دیا اور بات ختم ہو گئی جبکہ یہ بات بڑی دیر بعد سمجھ میں آئی کہ مردہ حسین علیہ السلام ان کے لیے زندہ حسین علیہ السلام سے زیادہ خطرناک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments