صہیونی تحریک: آغاز سے اب تک قسط 6


عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انیسویں صدی میں صہیونی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کا مقصد فلسطین کو تقسیم کر کے یہودیوں کے لیے ایک الگ ملک کا حصول تھا۔ جیسا کہ میں نے پچھلے صفحات میں ذکر کیا ہے کہ یہودی ایک عرصہ سے ایسا چاہتے تھے، وہ ایک الگ بات ہے کہ تھیوڈر (Theodor Herzl) کو موجودہ صہیونی تحریک کا بانی مانا جاتا ہے۔ اسرائیل کا قیام اسی تحریک کا ایک کار نامہ سمجھا جاتا ہے۔

2007 میں ایک مرتبہ جب میں مانچسٹر کی ایک مسجد سے جمعہ کی نماز کے بعد باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک صاحب پمفلٹ تقسیم کر رہے تھے جس پر لکھا ہوا تھا کہ ہم مارکس اینڈ اسپینسر کے مال کے سامنے ایک مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں اور آپ مسلمانوں کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ اپیل ایک یہودی تنظیم کی طرف سے تھی (امام صاحب نے بھی اس مظاہرے میں شرکت کی اپیل کی تھی) ۔ میرے لیے یہ بات بڑی حیران کن تھی کہ ایک یہودی تنظیم، یہودیوں کے سب سے بڑے خیرخواہ کے خلاف مظاہرہ کرنے جا رہی ہے۔ اس پر میں نے اپنے دوست ڈاکٹر مقصود سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہودی بھی دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ ایک وہ جو اسرائیل کے حامی ہیں اور مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں (انہیں عام طور پر صہیونی (Zionsit) کہا جاتا ہے ) اور دوسرے وہ جو ان کے مخالف ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تمام یہودی مسلمان دشمن نہیں ہیں۔

عام طور پر ان سب لوگوں کے لیے لفظ یہودی ہی استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ صہیونیوں کی تعداد دوسرے گروہ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ لیکن میں اس تحریر میں لفظ صہیونی ہی استعمال کروں گا۔ میں یہاں پر حالیہ صہیونی تحریک کی ایک مختصر داستان ضرور بیان کرنا چاہوں گا۔

میں نے یہ جاننے کی بہت کو شش کی کہ ( Zionist) کا ترجمہ صہیونی کیسے ہو گیا، لیکن مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ عربی میں بھی اسے صہیونی ہی لکھا جاتا ہے۔ عمومی طور پر یہ اصطلاح قیام اسرائیل کے حامیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ فلسطین کے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ یہودیوں کے فلسطین میں قیام کے خلاف نہیں ہیں البتہ وہ یہودیوں کے لیے ایک الگ ملک اسرائیل کے قیام کے خلاف ضرور ہیں۔

موجودہ صہیونی تحریک کا آغاز مشرقی یورپ سے ہوتا ہے۔ پہلی مرتبہ اس اصطلاح کو آسٹریا کے ایک یہودی نے استعمال کیا۔ عبرانی زبان میں Zion کا لفظ یروشلم کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہودی پہلے دن سے ہی صہیونی تحریک کا مقصد یروشلم کا حصول ہی سمجھتے ہیں۔

تمام صہیونیوں کا ایک ہی خواب تھا کہ وہ کسی طرح فلسطین میں ( اپنے آبائی وطن میں ) دوبارہ سے ایک الگ ملک قائم کریں۔ وہ فلسطین کی زمین پر وہ اپنا حق جتاتے تھے۔ اس کام کے لیے دنیا کے مختلف مقامات پر بسنے والے یہودیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا شروع کیا گیا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ دو ہزار سال قبل وہ اس علاقے میں حکمران تھے اور انہیں وہاں سے نکالا گیا تھا، اب وقت آ گیا ہے کہ اپنے ملک کو دوبارہ حاصل کیا جائے۔ (میں نے پچھلے صفحات میں قبل مسیح ایک اسرائیل نام کی ریاست کا ذکر کیا تھا) ۔ دنیا میں جمہوری طرز سیاست کے فروغ کی وجہ سے انہوں نے یہ طے کیا کہ فلسطین میں ان کی کثیر تعداد میں آبادکاری ہی ایک قابل عمل اور مناسب راستہ ہے۔ اس کام کے لیے انہوں نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی ترغیب دی، اور پھر ایسا ہی ہوا۔

جن لوگوں نے صہیونی تحریک کے نظریات کو پسند کیا وہ صہیونی کہلائے اور ان لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ پہلے سے بھی زیادہ تیز ہو گیا۔ اس سے قبل بھی یہودی فلسطین میں آتے رہے تھے لیکن وہ کھلے عام کبھی بھی اپنی آمد کا مقصد اسرائیل کا قیام نہیں بتاتے تھے۔

یہ سب جان کر میں کہہ سکتا ہوں کہ ان کے ذہنوں میں ایک الگ وطن کی خواہش تو طویل عرصے سے موجود تھی لیکن وہ اس موقع پر ( جب کہ وہ ابھی کمزور تھے اور سامنے سلطنت عثمانیہ بھی موجود تھی ) کھلے عام اظہار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ایسا انہوں نے اسی وقت کیا جب انہوں نے سمجھا کہ اب وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں فلسطین میں یہودی آبادی کا تین فیصد بھی نہیں تھے۔ وہاں دس فیصد عیسائی تھے اور نوے فیصد کے قریب مسلمان آباد تھے۔

صہیونی تحریک کا باقاعدہ آغاز آسٹرو ہنگری کے صحافی تھیوڈور ہرزل نے کیا۔ اس نے 1897 میں ایک کتاب ڈیر جوڈین اسٹاٹ (یہودی ریاست) لکھی جس میں اس نے دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین میں نقل مکانی کے لیے کہا۔

صہیونی تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی پہلی جنگ عظیم کے بعد مشرقی یورپ خاص طور پر جرمنی میں یہودیوں پر ہونے والے مظالم نے صہیونی تحریک کے لیے ایک مہمیز کا کام کیا اور اپنے لیے ایک الگ وطن کی ضرورت کے نظریے کو اکثر یہودیوں نے اپنایا اور اس کام کے لیے اپنی کوششیں مزید تیز کر دیں۔

انیسویں صدی میں روس میں ایک پروگرام کے تحت یہودیوں کے خلاف ایک مہم چلائی گئی۔ جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں یہودیوں کا قتل عام کیا گیا۔ دنیا کے کئی ممالک خاص طور پر مشرقی یورپ میں اس طرح کے واقعات نے یہودیوں کی اپنے لیے ایک الگ وطن کی خواہش کو مزید تیز کر دیا۔

ایک اور بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ سب یہودی ایسا نہیں چاہتے تھے۔ کچھ کا خیال تھا کہ انہیں اسی ملک کے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیے جہاں وہ رہتے ہیں۔ لیکن صہیونیت کے حامیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا۔ اس دوران لاکھوں کی تعداد میں یہودی فلسطین آ کر آباد ہونا شروع ہو گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے ایسا مذہبی نقطہ نظر سے کم اور سیاسی بقاء کی جنگ کے نقطہ نظر سے زیادہ کیا۔ اب تک جو میں نے پڑھا اس کے مطابق یہودی اس علاقے میں مذہبی معاملات کو بہتر طریقے سے ادا کرنے کی خاطر نقل مکانی نہیں کر رہے تھے۔ وہ یہ سب کچھ اپنی سیاسی بقا کی خاطر کر رہے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ مذہب کی وجہ سے نقل مکانی کر رہے ہوں اور کچھ سیاسی وجوہات کی بنا پر۔

یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ جنگ عظیم اول کی وجہ سے ایک مشکل دور سے گزر رہا تھا۔

اس وقت وہ دنیا کے بیشتر حصوں پر قابض تھے اور اپنے ہی بوجھ تلے دبے جا رہے تھے۔ ایسے موقع پر یہودیوں نے انگریزوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت انہوں نے برطانیہ کی مدد کی اور اس کے بدلے میں برطانیہ نے ان کے لیے ایک الگ وطن کی حمایت کا وعدہ کیا اور پھر صہیونیت کا وہ پرچار (جو 1897 میں شروع ہوا ) 1948 میں اسرائیل کی شکل میں سامنے آ گیا۔

ان پچاس سالوں میں ایک نئے ملک کی بنیاد، دنیا بھر سے یہود کی ایک ویران اور پسماندہ خطے میں آمد، کثیر تعداد میں ان کی بستیاں اور ہر سال ان کے زیر قبضہ علاقے میں اضافہ ممکن ہوا اس سب میں یہودیوں کا ایک بڑا کردار تھا لیکن اس کے ساتھ مغرب اور کئی مشرقی ممالک کی حمایت نے ان کا کام آسان کر دیا۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ اکیسویں صدی کے اوائل تک پوری دنیا میں بسنے والے یہودیوں کی چالیس فیصد سے زائد آبادی صرف اسرائیل میں رہتی تھی۔ ایک لحاظ سے یہ پچھلے دو ہزار سالوں میں یہودیوں کی سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ ایسا اب تک کبھی نہیں ہوا کہ ایک ملک ہو جس میں نوے فیصد سے زائد لوگ نقل مکانی کر کے آئے اور انہوں نے نہ صرف وہ علاقہ پہلے سے رہنے والے باشندوں سے بزور طاقت چھینا ہو اور بلکہ دولت کا سہارا لے کر خریدا بھی ہو۔ اب تک کی معلوم تاریخ میں ایسا صرف اسرائیل میں ہی ہوا ہے۔

اس سیریز کے دیگر حصےیہودیوں کی فلسطین میں آمد – قسط 5اسرائیل میں یہودیوں کی نقل مکانی: قسط نمبر 7

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments