کھانے پینے میں احتیاط کیوں ضروری ہے؟


ایک مشہور کہاوت ہے کہ کچھ لوگ جینے کے لیے کھاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ کھانے کے لیے جیتے ہیں۔ بقول شخصے کہا جا سکتا ہے کہ کھانا تو کھانا ہوتا ہے، پھر پرہیزی کھانے سے کیا مراد ہے۔ ؟ آج کل انسانی زندگی تیزی سے مشینی ہوتی جا رہی ہے۔ اور ہم لوگ گھر میں پکے ہوئے کھانوں کی بجائے بازار سے پکے پکائے یا ڈبے میں تیار شدہ کھانوں کو زیادہ ترجیح دینے لگے ہیں جن میں سے بیشتر کو گھر لا کر گرم کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ لیکن اس کا نتیجہ صحت کی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس وقت ویسے ہی ہر چیز میں مصنوعی یا مضر صحت مادوں کی زیادتی ہو رہی ہے۔

دراصل اگر دیکھا جائے تو کھانے سے جو امراض مثلاً موٹا پا، بلند فشار خون، ذیابیطس وغیرہ صرف تین چیزوں یعنی نمک، گھی، چینی زیادہ اور مسلسل، یعنی مرغن کھانے کھانے سے لاحق ہوتے ہیں۔

چنانچہ آج ہی سے بلکہ اپنے بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اسے پرہیزی یا دوسرے الفاظ میں قدرے کم مزیدار، کم مرغن کھانوں کی عادت کروا دیجیے۔ اگر بچپن سے قدرے کم مزیدار کھانوں کی عادت نہ کروائی جائے تو اس سے ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ جب طبیب پرہیز کی ہدایت کرتے ہیں تو وہ اس پر عمل کرنے کے لیے خود پر جبر نہیں کر پاتے۔ مثال کے طور پر آپ نے علامہ اقبال کا وہ مشہور واقعہ سنا ہی ہو گا کہ انہیں ان کے طبیب نے آم کھانے سے منع کیا تھا اور بہت اصرار کے بعد صرف ایک آم کھانے کی اجازت دی۔

ایک دن وہ معائنے کے لیے تشریف لائے تو دیکھا کہ علامہ کے سامنے کلو بھر سے زائد وزن کا بڑا آم پڑا ہے اور وہ اسے کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں۔ انہوں نے غصے سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو علامہ نے معصومیت سے جواب دیا کہ صرف ”ایک آم“ کھا رہا ہوں۔ اب بظاہر تو یہ واقعہ اکثر علامہ کی ہوشیاری اور چالاکی سے بہانہ بنانے کی صلاحیت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اگر آپ اصل میں اس کی حقیقت پر غور کریں تو یہ علامہ کا خود پر جبر نہ کرنے کا احساس بے بسی اور خود کش رویہ تھا اور اس کی یہی وجہ تھی کہ بچپن سے اگر مرغن، میٹھے کھانے میں تھوڑا پرہیز کیا ہوتا تو اس وقت آم کھانے سے پرہیز نہ کرنے کے لیے یہ بہانہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

اگر وہ پرہیز کرتے تو یقیناً اپنے خواب کو تعبیر پاتا دیکھنے کے لیے زندہ ہوتے۔ اگر آپ پرانی کلاسک فلموں کے شوقین رہے ہیں تو آپ نے الفریڈ ہچکاک کی سنہ 1940 کی فلم ”فارن کو ریسپونڈنٹ“ ضرور دیکھی ہوگی۔ اس میں ہیرو  کے محافظ کا کردار کرنے والا اداکار ایڈ منڈ گوین جو اصل میں مجرم ہوتا ہے اور ہیرو کو قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے، چھبیس ستمبر سنہ 1877 کو آسٹریلیاء میں پیدا ہوا تھا اور اس فلم میں علامہ اقبال کی وفات کے دو سال بعد کام کیا تھا اور چوکس اور زندگی سے بھرپور نظر آتا تھا اور اس کا انتقال چھ ستمبر سنہ 1959 ءکو کوئی اسی سال کی عمر میں ہوا تھا۔

یعنی وہ علامہ اقبال سے کوئی دو مہینے عمر میں بڑا تھا لیکن اس کا انتقال علامہ کی وفات کے بیس سال بعد جا کر ہوا تھا۔ اب آپ شاید سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تو پرانی اور ترقی یافتہ ملک کی مثال ہے لیکن ایک تو یہ کہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں طب کے میدان میں زیادہ ترقی نہیں ہوئی تھی۔ اور اس دور میں آسٹریلیا کوئی زیادہ ترقی یافتہ ملک نہیں تھا۔ لیکن چلیں اگر موجودہ دور اور اپنے ملک کی بات کریں تو ائر مارشل اصغر خان سنہ 1921 میں پیدا ہوئے اور سنہ 2018 میں فوت ہوئے یعنی چھیانوے سال کی لمبی عمر جیے ہیں۔

جبکہ ایک اور سابقہ سرکاری افسر روئیداد خان جو تئیس ستمبر سنہ 1923ء کو پیدا ہوئے تھے، یعنی محمد رفیع سے ایک سال چار مہینے بڑے ہیں، اٹھانوے سال کی عمر میں اب بھی زندہ ہیں۔ اسی طرح محمد رفیع اور طلعت محمود کی مثال لیں۔ طلعت محمود، محمد رفیع سے چھ مہینے بڑے تھے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ طلعت کا انتقال کب ہوا؟ ان کا انتقال 9 مئی سنہ 1998ء کو ہوا لیکن جوہری دھماکوں کی خبر میں ان کی وفات کی خبر اس بری طرح سے دبی کہ زیادہ تر پرستاروں کو پتا ہی نہ چل سکا۔

اور اس وقت تک محمد رفیع کی وفات کو اٹھارہ سال بیت چکے تھے۔ دلیپ کمار ان دونوں سے عمر میں بڑے ہونے کے باوجود ننانوے سال کی عمر میں اب فوت ہوئے ہیں۔ اسی طرح اداکارہ زہرہ سہگل ایک سو سال سے زائد کی عمر میں فوت ہوئیں جبکہ شمشاد بیگم کوئی چورانوے سال سے اوپر کی عمر میں فوت ہوئیں۔ ”مضامین رشید“ میں پروفیسر رشید احمد صدیقی اپنے ایک دوست کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلا کا حافظہ پایا تھا، جو چیز پڑھ لیتے تو ہمیشہ یاد رہتی، آم اور میٹھے کے شوقین تھے اور اطبا کی بار بار کی تاکید کے باوجود میٹھے سے پرہیز نہیں کرتے تھے، میں ان کی وفات سے پہلے ان کے ہاں عیادت کے لیے گیا تو نزاع جیسی کیفیت کے باوجود مجھ سے بار بار اپنی کتاب بھجوانے کی تاکید کرتے رہے۔

یہ خاکہ بار ہا ہمارے نصاب کی کتب میں آتا رہا ہے لیکن اس میں کبھی کسی استاد یا شاگرد نے نشاندہی نہیں کی کہ ایک طرف تو وہ صاحب بلا کا حافظہ رکھتے تھے یعنی بہت ذہین تھے لیکن دوسری طرف جان بچانے کے لیے میٹھا کھانے سے خود کو روکنے میں قاصر تھے۔ اس کے مقابلے میں آپ عدنان سمیع خان کی مثال دیکھیے۔ بچپن سے فربہ تھے اور پرہیز نہ کیا۔ سنہ دو ہزار دس کی دہائی تک اتنے موٹے ہو گئے کہ لندن کے ڈاکٹروں نے صاف بتا دیا کہ اگر آپ نے وزن کم کرنے کے لیے جراحی اور پھر پرہیز سے کام نہ لیا تو چھ مہینے سے زیادہ نہیں جی پائیں گے۔

انہوں نے ہمت دکھائی اور ڈاکٹروں کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے جراحی بھی کروائی اور آج تک پرہیز سے کام لے رہے ہیں تو اب تک زندہ اور بھرپور فعال ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے فیس بک پر پاکستان پوائنٹ کے بانی وقار عظیم کی تصویروں کا خاصا چرچا رہا جس نے خوراک میں پرہیز کر کے اپنا وزن پچاسی کلو تک کم کر لیا۔ آپ پاکستانی پوائنٹ پر ان کی خوراک کی تفصیل دیکھ سکتے ہیں۔

تو اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اگر انسان اپنی صحت کا خیال رکھے اور مرغن کھانوں سے پرہیز کا معمول اپنائے تو لمبا عرصہ جی سکتا ہے۔

پرہیز علاج سے بہتر ہوتا ہے۔ کسی چیز کو کھانے میں زیادتی سے کام مت لیجیے۔ اگر آج آپ امیر ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر زیادہ کھانے سے بیمار پڑے تو کوئی بات نہیں مہنگے سے مہنگا علاج کروا لیں گے۔ تو کوئی ضروری نہیں کہ آپ کو جو بیماری لاحق ہو، اس کا علاج بھی دستیاب ہو اور لکشمی دیوی کے منہ موڑنے کی کچھ خبر نہیں ہو پاتی۔ ضروری نہیں کہ جس وقت آپ بیمار پڑیں، اس وقت آپ علاج کروانے کی سکت بھی رکھتے ہوں۔

ایک اور مثال آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔ اپنے گھر کے صحن یا چھت پر چڑیوں کو دانہ ڈالیے۔ جب وہ دانہ چگ رہی ہوں تو ذرا ان کے قریب جانے کی کوشش کیجیے، وہ آپ کو دور ہی سے آتا دیکھ کر تیزی سے اڑ جائیں گی۔ اب کیا وہ بھوکی نہیں ہوتیں؟ یقیناً انہیں بھوک لگی ہوتی ہے۔ لیکن انہیں بھوک مٹانے سے زیادہ اپنی جان بچانے کی فکر ہوتی ہے۔ اور اس کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ کبھی کسی چڑیا کو موٹاپے سے مرتا نہیں دیکھیں گے۔

اس کے مقابلے میں بلیوں کو دیکھیے، زیادہ تر بلیاں بہت زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے دیوار پر چڑھنے کے قابل یا چوہے کے پیچھے بھاگنے کے قابل نہیں رہتیں اور ان کا گارفیلڈ فلم میں گارفیلڈ کی طرح جواب ہوتا ہے کہ جان تم خود ہی چوہے کو پکڑ لو۔ کچھ عرصہ پہلے ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ اسی موٹاپے کی وجہ سے بلیوں کی عمر بھی کم ہو رہی ہے۔

اس کے مقابلے میں ہم میں سے بیشتر لوگ ورزش بھی صحیح طریقے سے نہیں کرتے۔ آپ کسی باغ وغیرہ میں جا کر دیکھیں، لوگ ورزش کر رہے ہوں گے اور پسینے سے شرابور ہو رہے ہوں گے۔ اب جب وہ باہر نکل رہے ہوں تو تھوڑی دور تک ان کا مشاہدہ کیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے بیشتر لوگ یا تو کسی قریبی دکان سے عام جوس کا ڈبا یا بوتل لے کر پی رہے ہوں گے یا سموسے یا اس طرح کی کوئی اور بازار کی پکی ہوئی چیز خرید کر کھا رہے ہوں گے۔

جس میں نمک اور چینی کی بہتات ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں دکاندار ذائقے کو مدنظر رکھ کر پکاتے ہیں جس میں نمک، چینی یا گھی کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ یوں جو چربی یا نمک انہوں نے ورزش کے ذریعے کم کیا ہوتا ہے۔ وہ اسے بازاری کھانے سے دوبارہ پورا کر لیتے ہیں۔ حالانکہ اس کی جگہ عام پانی بھی پیا جا سکتا ہے اور ورزش سے ہونے والی کمزوری کسی پھل مثلاً مالٹے، تربوز، انار، کیلا وغیرہ یا پھر گھر میں پکائے گئے کسی ایسے سالن جس میں گھی نمک وغیرہ کم ہوں، کو ساتھ لا کر ورزش کے بعد کھا کر کمزوری ختم کی جا سکتی ہے۔

اسی طرح یہ لوگ ورزش سے فارغ ہونے کے بعد گاڑی میں بیٹھ کر گھر روانہ ہو جاتے ہیں حالانکہ زیادہ تر کے گھر کا فاصلہ فرلانگ دو فرلانگ سے زیادہ نہیں ہوتا اور انہیں پیدل گھر جانا چاہیے تاکہ عام حالات میں بھی پیدل چلنے کی عادت ہو سکے۔ لیکن ایسا نہیں کیا جاتا اور پھر ورزش پر لعن طعن کی جاتی ہے کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ ہم جو چیز بھی کھاتے ہیں، وہ ہمارے جسم میں جا کر چینی یا مٹھاس میں بدل جاتی ہے چنانچہ ہمیں الگ سے باقاعدہ چینی لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

آپ نمک، چینی، گھی سے اس طرح پرہیز کر سکتے ہیں کہ مثلاً گھی اگر آپ چھ چمچ ڈالتے ہیں تو اسے ساڑھے پانچ اور پھر پانچ اور اسی طرح کم کرتے ہوئے ایک دو چمچ تک لے آئیے۔ اسی طرح اگر آپ چائے میں چار چمچ چینی ڈالتے ہیں تو اسے ساڑھے تین کر لیجیے اور اسی طرح بتدریج کم کرتے ہوئے ایک یا آدھا چمچ یا بالکل ہی ختم کر دیجیے۔ اسی طرح نمک کو بھی بتدریج کم کرتے ہوئے ختم کر سکتے ہیں۔ جب آپ ایک دفعہ اس طرح کے کھانوں کے عادی ہو جائیں گے تو پھر جب کبھی آپ مرغن چیز کھائیں گے تو وہ آپ کو زیادہ مزیدار بھی لگے گی۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم آپ کو مرغن کھانے کھانے سے بالکل منع کر رہے ہیں۔ تو ایسی بات نہیں۔ آپ اپنے محلے میں یا دوستوں رشتہ داروں کے گھر ہر ایک دو ہفتے بعد کسی نہ کسی تقریب میں شریک ہوتے ہوں گے تو ایسی تقریبات میں کوئی پرہیزی کھانا نہیں ہوتا، چنانچہ آپ مروتاً کوئی نہ کوئی مرغن کھانا کھا ہی لیتے ہوں گے۔ یوں آپ اپنے مرغن کھانا کھانے کی خواہش وہاں سے پوری کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہفتے دو ہفتوں میں ایک دن کسی مرغن، بازاری کھانے مثلاً پیزا یا پلاؤ یا روسٹ یا قورمہ کھانے کے لیے مختص کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ باقی دن نمک، چینی، گھی وغیرہ سے جتنا ہو سکے، پرہیز کیجیے۔ اور قدرے کم ذائقے والے کھانے کھائیے۔ اور یہ اصول بھی یاد رکھیے کہ کسی بھی چیز کو کھانے میں اعتدال و میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments