ربّا سچّیا توں تے آ کھیا سی


یہ کوئی دن کے گیارہ بجے کا ٹائم ہو گا۔ چھٹی  کا دن، دسمبر کی دھوپ، باد شہر یاران، اور فیض  احمد فیض کی شا عر ی۔ میں فیض صاحب کی شہرہ آفاق پنجابی نظم “ربا سچیا توں تے آکھیا سی” کا لطف لے رہا تھا کہ وٹس ایپ پر ١٩٦٥ کے صدارتی ا لیکشن میں مادر ملت محترمہ فاطمه جناح اور صدر ایوب خان کے مقابلے کی  با رے ایک فکر انگیز تحریر موصول ہوئی۔ تحریر میں جمع شدہ مواد کافی محنت سے مختلف حوالوں سے جمع کیا گیا تھا اور بتا یا گیا تھا کہ کس طرح اس وقت کی اسٹبلشمنٹ نے ایوب خان کو جتوا نے اور مادر ملت کو ہرا نے کے لئے  مختلف ریاستی وسائل کا بے دریغ ا ستعمال کیا۔  کس طرح سیاسی خانوا دوں کی وفاداریاں خریدنے کے لئے، دھونس، دھاندلی اور پیسہ چلا۔ کس طرح مادر ملّت کو غدار ثابت کر نے کے لئے  مذہبی رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا کر مس جناح کے خلاف  فتوے لئے گئے۔ کس طرح محترمہ فاطمه جناح اور ان کے ساتھیوں پر جھوٹے مقدمے قائم کئے گئے اور کس طرح میڈیا کو اور  ججز کو ساتھ ملا کر مس جناح اور ان کے ساتھیوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا گیا۔ کس طرح ابلاغ کے ذرائع میں مس جناح کی کردار کشی کی مہم چلائی گئی اور انھیں غدار وطن ثابت کر نے کے لیے کوئی  دقیقہ فروگزاشت نہ کیا گیا۔

اس رپورٹ میں ان تمام کرداروں کو بے نقاب کیا گیا تھا ان کے نام اور زہریلا کردار بالکل واضح د کھا یا گیا تھا۔ یقیناً مادر ملت کو بعد میں تاریخ نے سرخرو اور ان تمام کرداروں کو رو سیاہ کیا۔ رپورٹ کافی دلچسپ اور تاریخی حقائق سے بھرپور تھی لہذا بے چینی سے ایک سامع کا انتظار کرنے لگا تا کہ اس پر اپنی علمیت اور معلومات کا رعب جمایا جا سکے۔ تھوڑی ہی دیر میں میرا شکار آ گیا۔ بوٹا جس کا پورا نام بھی بوٹا ہی ہے۔ پہلی ملاقاتوں میں کسی دن تبحر علمی جوش میں تھا کہ میں نے کہ دیا کہ “بوٹے میرا خیال ہے تمہارا پورا نام، تمھارے والدین  نے محمّد بوٹا رکھا ہو گا ” کہنے لگا ” باؤ جی آپ پڑھے لکھے ہیں جو مرضی کہ لیں ویسے میرا پورا نام بھی بوٹا ہی ہے”۔  اس ناک آوٹ  پنچ کے بعد میں نے بوٹے کو ایزی لینا کم کر دیا تھا۔ وہ پیشے کے لحاظ  سے مالی ہے تعلیم وا جبی سی ہے  لیکن میری خود ساختہ دانشوری سے بلکل مرعوب نہیں۔

آج مجھے پورا یقین تھا کہ میں اس کم علم آدمی کو کافی پرمغز اور فکر انگیز تاریخی حقائق سے مرعوب کر لوں گا اور اپنے علم سے لاجواب کر دوں گا۔ بہرحال میں نے بڑے مزے لے  لے کر رپورٹ کے اہم نکات اپنے مفکرانہ انداز سے بیان کیے اور وہ غور سے سنتا رہا۔ رپورٹ مکمل سنانے کے بعد میں نے فاتحانہ انداز سے اسے دیکھا تو وہ کہنے لگا ” وڈا تیر چلایا باؤ جی”  یعنی بڑا تیر چلایا آپ نے۔ میں نے کہا کیوں کیا ہوا۔ کہنے لگا ” اے سارا کج  تے او سراں ای ہے ہجے تک” یعنی  “یہ سب کچھ تو اب بھی ویسا ہی ہے ” 2018 دے الیکشن وچ وی تے ایہو کج ای ہویا سی، اوہو ای ڈاڈیاں دی زورا وری، اوھو ای جانبدار میڈیا تے غداری تے کرپشن دے چوٹھے مراسیان دے فتوے، کینیڈا آلا بابا تے اوہدے ترنے دھرنے)، تے دوجا بابا جیہڑا گالاں کڈدا سی (فوت ہو گیا اے)  ا و  تے، او جج ثاقب نثار تے او پنڈی دا شیخ  تے وڈیاں ناساں والا حسن نثار، ایناں نے جیهڑا کردار ادا کیتا امران خان دے جتن واسطے، اس الیکشن تے پینٹھ آ لے الیکشن اچ ہے کوئی فرق؟ “
 تھوڑی دیر بعد وہ پھر بولا “باؤ جی منوں اک گل ہور دسو ” میں نے کہا وہ کیا ” اے ساریاں گلاں تے سارے کردار کدوں بے نقاب ہونڑ گے، کدوں ماڑیاں تے کمزوراں دی ارزاں سنے گا رب سچا، کدوں ظالمان دا یوم حساب آے گا،  ایس رپورٹ بنانڑ  تے وی پچپن سال لاؤ گے؟”  یعنی ” 2018 کے الیکشن میں بھی تو یہی کچھ ہوا تھا، وہی طاقت وروں کی زورآوری، وہی جانبدار میڈیا اور اس پر بیٹھے جانبدار تجزیہ نگار اور ان کے جھوٹے غداری کے سرٹیفکٹ، کینیڈا والے بابا جی کے دھرنے، بابا جی گالیوں والی سرکار کی ریاست کے اوپر ریاست، جج ثاقب نثار اور شیخ رشید اور حسن نثاروں کے کردار، یہ سب کب اپنے انجام کو پہنچیں گے غریب اور محروم طبقات کے دن کب پھریں گے، ظالموں کا یوم حساب کب آے گا کب سنے  گا رب سچا ہماری دعائیں” بوٹے نے ایک بار پھر مجھے لاجواب کر دیا تھا میں نے خفت مٹانے کے لیے اسے کہا بو ٹے  چھوڑ یہ ساری باتیں میں تجھے فیض صاحب کی  پنجابی نظم سناتا ہوں اور وہ فیض صاحب کی نظم سننے کے لئے مرے پاس آ  کے نیچے زمین پر آ لتی پالتی  بیٹھ گیا اور میں اسے فیض صاحب کی نظم ربا سچیا سنانے لگا۔

ربا سچیا توں تے آکھیا سیربا سچیا توں تے آکھیا سی ( اے مرے سچے رب تو نے تو کہا تھا )
جا اوے بندیا جگ دا شاہ ا یں توں (اے مرے بندے جا تو میری دنیا میں شاہی کر )
 
ساڈیاں نعمتاں تیریاں دولتاں نیں (میری نعمتیں تیری دولت ہیں )
ساڈا نا ئب تے عا لیجاہ ا یں توں ( تو میرا نائب ہے دنیا میں )
 
ایس لارے تے ٹور کد پچھیا ا ی  ( اس وعدے پر دنیا میں بھیج دیا اور کبھی پوچھا )
کی ایس نمانے نال بیتیاں نیں ( کہ اس نائب پر دنیا میں کیا بیتی ہے )
 
کدی سار وی لئ او رب سائیاں ( مرے پیارے خدا کبھی خبر بھی لے )
ترے شاہ نال جگ کی کیتیاں نیں ( تیرے شاہ کے ساتھ دنیا والوں نے کیا کیا )
 
کتے دھونس  پولیس سرکار دی اے  ( کہیں پر پولیس کی دھونس ہے )
کتے دھاندلی مال پٹوار دی اے  ( کہیں پر پٹوار گردی ہے )
 
ایویں ھڈاں و چ کلپے جان مری  ( میری کمزور جان ہر وقت ظلم کے شکنجے میں پھانسی کونج کی طرح تڑپتی ہے )
جیویں پھاھی و چ کونج کرلاندی اے
 
چنگا شاہ بنایا ای رب سائیاں (اچھا شاہ بنایا ہے خدایا ‘ اس غریب کا سر اور ہر ظالم کا جوتا ہے)
پو لے  کھاندیاں وار نہ آندی اے
 
مینوں شاہی نئیں چائیدی رب سائیاں (مجھے یہ شاہی نہیں چاہیے، مجھے صرف عزت کی روٹی دے دے) میں تے عزت دی ٹکر منگناں ہاں
 
مینوں تانگ نیئں محلاں ماڑیاں دی  (مجھے محل اور ماڑ یاں نہیں چاہئیں، صرف سر چھپانے کی جگہ دے دے) میں تے جیون دی نکڑ منگناں ھاں
 
تو میری منے تے تیریاں میں مناں ( اگر میری عرضی مان لے تو میں تیری ساری مان لوں) تیری سوں جے اک وی گل موڑاں
 
جے اے مانگ نئ پجدی  رب سائیاں (اگر غریب کی اتنی  التجا بھی قبول نہیں تو غریب کہاں جائے)
فیر میں جاواں تے رب کوئ ہور لوڑاں
محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments