چینی یونیورسٹی میں پاک چین تعلقات پر سیمینار


چین سمیت دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں سیمیناروں میں شرکت کی، گفتگو کی مگر کورونا ایسا زندگی میں ”شامل“ ہوا ہے کہ بس آنلائن ہی دنیا رہ گئی ہے۔ چین کے فارن آفس اور جیانگ سو یونیورسٹی نے پاک چین ستر سالہ تعلقات پر سیمینار منعقد کروایا۔ یونیورسٹی اساتذہ کے ساتھ ساتھ سفارتکاروں اور اعلیٰ حکام نے شرکت کیں۔ جس میں پروفیسر سونگ جیسی شخصیت بھی شامل تھی جو پاکستانی امور پر اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہے پاکستان کے بیجنگ میں سفیر اور قونصل جنرل بھی شریک تھے۔ میں نے آنلائن تقریر کرتے ہوئے کہا کہ چین اور پاکستان کے درمیان خوشگوار امر یہ ہے کہ یہ دوستی صرف اسٹریٹجک پارٹنرشپ تک محدود نہیں ہے

پاکستان کا تجربہ یہ ہے کہ جب ہم نے دیگر ممالک سے اسی نوعیت کی پارٹنر شپ قائم کی تو کام نکلنے کے بعد وہ بار بار ناراض بچے کی مانند ہو جاتے ہیں کہ بس تم سے کٹی ہو گئی ہے

اس بار بار کے تجربے نے پاکستان کو یہ سکھا دیا ہے کہ چین سے ہماری دوستی سٹرٹیجک پارٹنر شپ سے بڑھ کر آل ویدر فرینڈ شپ ہے کہ جس کو موسم کے سرد و گرم سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ میں نے یہ کیوں کہا کہ یہ اسٹریٹجک پارٹنرشپ سے بڑھ کر آل ویدر فرینڈ شپ ہے تو اس دعوے کی جڑیں تلاش کرنے کی غرض سے ہمیں ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔

قیام پاکستان اور چین میں انقلاب کم و بیش ایک ساتھ ہی وقوع پذیر ہوئے۔ انیس سو پچاس کے عشرے میں ہی دونوں ممالک نے تعلقات کو آگے بڑھانے کی غرض سے اقدامات کرنا شروع کر دیے تھے پاکستان کا یہ بھی مسئلہ تھا اور اب بھی ہے کہ ہمیں ہمہ وقت سرحد پار کے خطرات سے نبرد آزما رہنا پڑتا ہے جب کہ چین اس زمانے میں دنیا سے الگ تھلگ زندگی گزار رہا تھا۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کی جانب بڑھے مگر اس بات کا ادراک موجود ہونا چاہیے کہ ان دونوں ممالک کی دوستی کا آغاز کسی ملک کے خلاف نہیں تھا اور نہ ہی آج ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے بلکہ دونوں اپنے عوام کو زیادہ سے زیادہ محفوظ کرنے کے لئے دوستی کے صفحے پر آ گئے۔

اس دوستی کے سفر میں سنگ میل اس وقت حاصل ہوا جب پاکستان اور چین نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم سرحدوں کی پیچیدہ موجودگی کو ختم کرنے کی غرض سے سرحدوں کی حد بندی کا ایک نیا معاہدہ کرتے ہیں۔ ایسا معاہدہ کرنا درحقیقت اعتماد سازی کی جانب غیر معمولی قدم نہیں بلکہ اعتماد کے حصول کا اعلان تھا۔ کچھ عرصے بعد ہی پاکستان کو انیس سو پینسٹھ میں اپنے دفاع میں جنگ لڑنی پڑی کہ جس میں اس بات کا برملا اظہار پاکستان کے اس وقت کی حکومت کے وزیر نے کیا کہ سابقہ مشرقی پاکستان کی حفاظت میں کلیدی کردار ہمارے عظیم ہمسائے چین نے ادا کیا ہے۔ اس تاثر نے پاکستانی عوام کے دلوں میں چین کی قدرومنزلت بڑھا دی کیونکہ سخت وقت میں چین نے دوست کا کردار ادا کیا تھا۔

پاکستان نے اس بات کو بہت زیادہ محسوس کیا کہ چین دنیا سے الگ تھلگ ہے جبکہ دنیا کی خواہش ہے کہ چین سے روابط قائم کر لے اس تصور کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان نے امریکہ اور چین کے باہمی تعلقات کو استوار کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ پی آئی اے کی پرواز نے چین کے لئے بین الاقوامی پروازوں کی آمد کے مقصد کو حاصل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا چین کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بجا طور پر پہلے دن سے ہی ویٹو پاور رکھنے والے ملک کی حیثیت سے موجود ہونا چاہیے تھا اور چین کو اس کے اس حق سے محروم رکھا جا رہا تھا تو پاکستان نے اس حوالے سے اپنا کردار ادا کیا اور اقوام متحدہ میں چین کو اس کا حق دلانے میں سرخیل ملک بن گیا۔

بدقسمتی سے پاکستان کو 1971 میں غیرمعمولی دھچکا پہنچا اور ملک کا ایک حصہ ہم سے جدا ہو گیا۔ اس سانحہ نے پاکستان کو یہ یقین کرا دیا کہ دفاعی شعبے میں جتنی بھی صلاحیت حاصل کی جا سکتی ہے وہ حاصل کرلی جائے۔ اس سلسلے میں بھی چین نے پاکستان سے غیر معمولی تعاون کیا الخالد ٹینک سے لے کر جے ایف سیونٹین تھنڈر تک ہماری آل ویدر فرینڈشپ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس دفاعی تعاون میں یہ خصوصیت موجود ہے کہ کسی بھی غیر حقیقی شرط سے جڑا ہوا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کو اگر کہیں اور سے دفاعی تعاون ملا بھی تو اس کے ساتھ یہ شرط بھی رکھی گئی کہ یہ ہتھیار، جنگی طیارے بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے چین نے ایسی کسی شرط کو ہمارے لیے تخلیق نہیں کیا اور یہی اس تعلق کو دوسرے ممالک کی شراکت داری سے ممتاز کرتا ہے۔

دفاعی تعاون کے علاوہ بھی اگر ہم دیکھیں تو یہ واضح طور پر ہمیں نظر آئے گا کہ پاکستان اور چین دونوں تمام بین الاقوامی امور میں کندھے سے کندھا ملا کر ایک ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ون چائنہ سے لے کر جنوبی چینی سمندر کے معاملات تک ہمیں آل ویدر فرینڈشپ ہر جگہ پر نظر آتی ہے۔ کرونا کی وبا کا آغاز ہوا تو دنیا اس کو چین کے خلاف سیاسی طور پر استعمال کرنے لگیں مگر پاکستان نے اس سازش کی ڈٹ کر اور کھل کر مخالفت کی۔ اس آل ویدر فرینڈشپ کو خطرات بھی لاحق ہیں۔ سی پیک کا منصوبہ 2015 میں شروع ہوا جو اور اس آل ویدر فرینڈ شپ کا نقطہ عروج ہے لیکن پاکستان سے مخاصمت رکھنے والے ممالک کے لیے ایک تکلیف دہ عمل بھی ہے کیونکہ اس منصوبے نے پاکستان میں توانائی کے بحران جیسے معاملات کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

اسی سبب سے اس منصوبے کے حوالے سے ایسا تاثر قائم کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہے کہ جیسے یہ پاکستان کو بڑے قرضوں میں پھنسا دے گا۔ میں یہاں آپ کے سامنے ٹائمز آف اسٹائل میں شائع شدہ ایک مضمون کے کچھ جملے دوہرانا چاہوں گا۔

Cracks Seem To Have Surface In The higher than Mountains Deeper then oceans Between Pakistan and China. Its seems that the CPEC is turning out to be an albatroos around Pakistan’s neck.

مضمون نگار نے اپنی بات کی دلیل میں غیر شفافیت، خفیہ شرائط، چینی مزدوروں کی پاکستان میں موجودگی اور بڑھتے ہوئے قرض کو پیش کیا ہے۔ ان تمام امور کا شدت سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور اس پروپیگنڈے کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام معاملات کو زیادہ کھل کر عوام کے سامنے رکھا جائے تاکہ کوئی پروپیگنڈا دوستی کو متاثر نہ کر سکے۔

اس کے علاوہ سنکیانگ میں بھی معاملات کو زیادہ بہتر اور شفاف ہونا چاہیے کیوں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ ہمارے دل دھڑکتے ہیں۔ اس تصور کی بھی شدت سے نفی کرنی چاہیے کہ چین پاکستان میں جیوانی یا کسی اور مقام پر فوجی موجودگی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ان تمام تصورات کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دینا چاہیے تاکہ ہماری آل ویدر فرینڈشپ پر کوئی موسم مستقبل میں بھی اثر انداز نہ ہو سکیں۔ جب دوران تقریر 1971 کا ذکر کیا تو ذہن ایک اور حالیہ منعقد کی گئی تقریب کی جانب بھی مڑ گیا جو سلمیٰ علی خان کی کتاب ”دوپٹہ ڈھاکہ کی ململ کا“ کے حوالے سے تھی۔ اس وقت کے ڈھاکہ کی عوامی زندگی سمجھنے کے لئے بینظیر کتاب ہے میں نے اس تقریب میں بھی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی پاکستان کے سانحہ کے حوالے سے تحقیق کی ضرورت ہے ہر ظلم ہر غلطی اپنے پر تھوپنے کا رویہ درست نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments