سیاسی دھند میں لپٹا 2022

عاصمہ شیرازی - صحافی


کھڑکی کے باہر دُھند تھی اور اندر وسوسے۔ نیا سال کیسا ہو گا؟ نیا سال آ گیا، پُرانی روش نہیں گئی۔ ہندسے بدل گئے ہیں مگر حالات وہی۔ تحریر بدل گئی مگر صفحہ وہی۔ دُھند ہی دُھند ہے۔۔۔ معاشی، سیاسی حالات پر بھی اور عوام کے ذہنوں پر بھی۔

کچھ نہ تو نظر آ رہا ہے اور نہ ہی سمجھ۔ تجزیہ کار، دور اندیش، معاملہ فہم اور حالات پر نظر رکھنے والے سبھی ایک خاص حد سے آگے دیکھ نہیں پا رہے یا جو نظر آ رہا ہے اُس کا اظہار کرنے میں بے بس ہیں۔

دو ہزار اکیس جیسے تیسے گُزر گیا مگر نیا سال کیسا ہو گا، معیشت کیسی ہو گی؟ اکیس کے اختتام نے ایک منی بجٹ، سٹیٹ بنک سے متعلق قانون سازی، معاشی اداروں کی خودمختاری پر سوال اُٹھا دیے ہیں، اس کے اثرات کیا ہوں گے؟

معاشی صورتحال کو سمجھنے کے لیے کسی خاص عینک کی ضرورت ہے اور نہ ہی دور اندیشی کی، البتہ جن پر بیت رہی ہے وہ عوام سمجھ چکے ہیں۔ نئے سال کے تیور آنے والی مشکلات کا پتا دے رہے ہیں۔

سیاست کا مطلع صاف ہے یا نہیں گو کہ موسمیاتی تجزیہ کار اس بارے ’سب ٹھیک ہے‘ کی رپورٹس دے رہے ہیں جبکہ اب مطلع ابر آلود ہے اور حالات سازگار نہیں۔

سیاسی بیان بازی اپنی جگہ مگر اپوزیشن کی لگ بھگ تمام جماعتیں رابطے میں ہیں۔ ایک طرف بھنور میں پھنسی مقتدرہ اور دوسری جانب بیانیے کے زور پر کھڑی جماعتیں۔۔۔ اعتماد میں کمی اور چند شرائط حتمی نتائج کی راہ میں حائل ہیں جس کا فائدہ بہرحال حکومت کی بقا کی شکل میں موجود ہے۔

صورتحال اس سے مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ معاشی صورتحال کسی کے لیے بھی سازگار نہیں لہٰذا ذمہ داری لینے میں ہچکچاہٹ بھی ہے اور کئی ایک مسائل بھی۔

یہی وجہ ہے کہ بظاہر سیاسی طور پر مستحکم حکومت غیر مستحکم ہے، بظاہر غیر فعال گورننس کسی اور آپشن کو بھی غیر فعال بنا رہی ہے سو ایسے میں کون بنائے گا حکومت اور کون گرائے گا حکومت، دونوں سوال اہم ہیں۔

چند دنوں سے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے تجزیہ کار جو گذشتہ کئی دنوں سے اپنے سابقہ بیانیے سے ہٹ گئے تھے ایک بار پھر دو ہزار اٹھارہ کی پوزیشن پر واپس جاتے دکھائی دیے ہیں اور اب کی بار نظام کی ناکامی کی خبریں دے رہے ہیں۔

آمریت کی پروردہ سوچ البتہ یہ پوچھنے سے روک رہی ہے کہ 40 سال کی براہ راست آمریت جبکہ 30 سالہ غیر علانیہ حکمرانی نے پاکستان کو کیا دیا ہے؟

اس وقت سیاست کا محور مارچ میں ممکنہ غیر سیاسی تعیناتیوں کے اردگرد گھوم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک صفحے کے ترجمان اپنے موقف میں گو مگو ہیں۔

یہ خدشات امکانات کے راستے میں حائل ان اسباب کے ہیں جو وزیراعظم کے ہاتھ میں ہیں کسی اور کے پاس نہیں۔ بہرحال پارلیمانی جمہوریت میں فوج کے سپہ سالار کی تعیناتی کا مکمل اختیار وزیراعظم کے پاس ہے اور یہی وہ گُر ہے جو اُنھیں بااختیار بناتا ہے۔

ہماری بدقسمتی کہ ایسی تعیناتیاں پاکستان کی تقدیر کا تعین کرتی ہیں۔ اگلے چند ماہ میں یہ اختیار وزیراعظم استعمال کریں گے یا کوئی اور۔۔۔ اس معاملے پر کچھ بھی لکھنا قبل از وقت ہے۔

اہم حکومتی حلقوں کی جانب سے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ ایک تو منی بجٹ ملی بھگت سے منظور ہو جائے گا جبکہ حکومت مارچ سے پہلے مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ اپوزیشن نہ بھی چاہے اگر ’سائیوں‘ نے فیصلہ کر لیا تو یہ ممکن ہو جائے گا۔

حکومت کو اپوزیشن سے خطرہ تو نہیں البتہ ’جہانگیر ترین‘ گروپ کی بڑھتی تعداد سے خطرہ ضرور ہے۔ بہر حال اپوزیشن بلوچستان حکومت کی طرح وفاق میں بھی ’خاموش انقلاب‘ کا ساتھ دے سکتی ہے، ہاں اگلا ایک سال سنبھالے گا کون اس بارے میں ابہام موجود ہے یا یوں کہیے کہ ابھی وہاں بھی مکمل دھند چھائی ہے۔

نواز شریف کی وطن واپسی بھی ملین ڈالر کا سوال ہے۔ زرداری صاحب کے بعد اُن کی واپسی کا سوال مولانا نے بھی دُہرا دیا ہے لہذا اب پی پی پی اور جے یو آئی ف اس حد تک ایک صفحے پر آ گئے ہیں۔

اُدھر میاں صاحب کی واپسی بغیر ’قومی اور بین الاقوامی‘ ضمانت کے ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ لہٰذا، حالات کے رحم و کرم پر معجزوں کے منتظر پاکستان کے عوام اپنے اور ملک کے دھندلے مستقبل کے واضح ہونے کی دعا جاری رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments