ملازمت کرنے والی ایک عیاش مڈل کلاس عورت


ایک جاننے والی خاتون کے متعلق سن رکھا تھا کہ بڑی ہی کوئی اپنی مرضی کی مالک خاتون ہیں۔ آنا جانا عین اپنی مرضی سے۔ دیسی کھانے کم پسند کرتی ہیں اور آئے دن آرڈر کرنے بیٹھ جاتی ہیں۔ اکثر تو خاوند بھوکے کو دفتر بھیجتی ہے اور میڈم بن کر اپنے دفتر کو نکل پڑتی ہے۔ کام والی آگے پیچھے دوڑتی رہتی ہے پھر بھی نا شکری عیاش عورت چڑچڑی رہتی ہے! دوسروں کے پاس بیٹھنے کا وقت ہی کم ہے اس کے پاس۔

اتفاقاً اس ناشکری سے ہماری ملاقات ہو گئی اور صرف ملاقات ہی نہ ہوئی بلکہ ایک پورا دن ان کے ساتھ رہنا پڑ گیا۔ عیاش عورت نے خود اپنے منہ سے بتایا کہ گیارہ بجے سو کر اٹھی ہے اور وجہ یہ کہ منا پوری رات روتا اور تنگ کرتا رہا چونکہ والد صاحب پر بچہ اٹھانا اور فیڈر بنا کر دینا حرام ہے سو وہ پوری رات چھوٹو کے لئے جاگتی رہی۔ کھانے کا وقت ہوا تو کچن کی طرف جاتے بولی کہ کام والی بھوآ تو گھر کے کام ہی کرتی ہیں اس سب کی تنخواہ ہی پوری کر لوں تو بہت ہے۔

کچن مجھے خود دیکھنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات دفتر کا کام بہت بڑھ جائے یا منے کی وجہ سے کچن کا سب کام اکیلے کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے سو مہمان آنے پر دعوت کا اس سب کے ساتھ انتظام بے حد مشکل لگتا ہے پھر آرڈر کر لیتی ہوں۔ مگر آرڈر کرنا کون سا اتنا ہی آسان پڑا ہے اتنی مہنگائی ہے کہ مت پوچھیں اور منے کا دودھ اور خوراک الگ۔ عیاش عورت نے مزید بتایا کہ یہ بھی نہیں پتا ہوتا کہ کس دن آفس میں کام بڑھ جائے بعض اوقات آنے میں کچھ دیر ہو جاتی ہے اور کبھی جلدی بھی جانا پڑتا ہے۔

اس پورے دن میں میں نے عیاش عورت کو دس منٹ بھی سکون کا سانس لیتے نہیں دیکھا۔ کبھی گھر کا کوئی کام نکل آتا، منا رونے لگتا تو کبھی دفتری کام کے حوالے سے کوئی کال آجاتی۔ پھر میں سمجھی کہ یہ چڑچڑی کیوں ہو جاتی ہو گی۔

ہمارے آس پاس بہت سی ایسی عورتیں ہیں جو اپنے وجود سے زیادہ بوجھ اٹھا کر چل رہی ہیں۔ ایک طرف تو ملازمت کا پریشر جس کے بغیر اس دور میں جینا محال ہے اور دوسری طرف گھر کی صفائی، مہمان، بچے، شوہر، کچن اور نہ جانے کیا کچھ۔ عام طور پر یہی تصور پایا جاتا ہے کہ ملازمت کرنے والی عورتوں کی تو موجیں ہوتی ہیں کہ پیسہ ہوتا ہو گا بہت۔ مگر ایسی عورتوں کی زندگی کا بغور مطالعہ کریں تو ان کی زندگی میں مزید بوجھ شامل ہو جاتے ہیں اور ہر کردار میں ان سے پرفیکشن کی توقع رکھی جاتی ہے۔ جو کہ میرے نزدیک ایک زیادتی ہے۔

ٹیکنالوجی اور تعلیم کی بدولت سب کچھ تیزی سے بدل رہا ہے۔ ہمارا رہنے سہنے کا ڈھنگ بھی۔ ایسے میں جینڈر رولز میں بھی لچک پیدا کرنے کے لئے اشد ضرورت ہے۔ عورتوں کو انسان سمجھنے کی ضرورت ہے اور مردوں کو ابتداء سے ہی یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بچے میاں بیوی کے سانجھے ہوتے ہیں اکیلی بیوی کے نہیں ہوتے۔ جہاں ایسی بیویاں ملازمت کر کے گھریلو اخراجات پورے کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہوتی ہیں وہیں شوہروں پر فرض ہونا چاہیے کہ گھر کو اگر اپنا سمجھتے ہیں تو گھر کے کاموں کو بھی اپنائیں۔ مہمانوں کو اگر کسی کے خلوص سے پیش کیے گئے فوڈ پانڈا والے کھانے سے مسئلہ ہو تو وہ لنچ باکس میں اپنا ہوم میڈ کھانا ساتھ لے کر جائیں اور عیاش جیسے ٹائٹل دینے سے پہلے لوگ شیشہ دیکھ کر اپنا احتساب بھی ضرور کریں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments