ایلزبتھ ہومز: سیلیکون ویلی کا ’صدی کا سب سے بڑا‘ مقدمہ


ایلزبتھ ہومز
یہ ایک ایسا قانونی فیصلہ تھا جو خون کے نمونوں کی جانچ کرنے والی کمپنی تھیرانوس کی اکثر تکلیف دہ پیچیدگیوں اور تضادات کی عکاسی کرتا تھا۔

چار الزامات میں جرم ثابت ہوا، چار میں الزامات سے بری اور تین الزامات پر جیوری کسی فیصلے تک نہیں پہنچ سکی۔

ایسے متعدد افراد جنھیں تھیرانوس تنازع کے حوالے سے تفصیلات معلوم ہیں، وہ اس بارے میں پاڈکاسٹس سن چکے ہیں، ڈاکیومینٹریز دیکھ چکے ہیں اور یہاں تک کہ کتابیں بھی پڑھ چکے ہیں، انھیں ایسا ہی محسوس ہوا ہو گا کہ ایلزبتھ ہومز کو مجرم قرار دینے کے حوالے سے تمام کارروائی مکمل ہو چکی ہے۔

کیونکہ وہ تو دعویٰ کر چکی تھیں کہ ان کی خون کے نمونے جانچنے والی مشینیں سینکڑوں بیماریوں کے ٹیسٹ میں کارگر ثابت ہو سکتی ہیں، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ اور کیونکہ وہ تھیرانوس کی بانی اور چیف ایگزیکٹو تھیں اس لیے عدالت میں آنے کے بعد تو یقینی طور پر اس کہانی کا اختتام نظر آتا تھا۔

دنیا کی سب سے ’کم عمر ارب پتی خاتون‘ ایلزبتھ ہومز پر فراڈ کا جرم ثابت

لیکن ہومز کو ہلکا لینا زیادہ سمجھ داری کی بات نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی خاتون ہیں جنھوں نے صرف 19 برس کی عمر میں نو ارب ڈالروں کی کمپنی بنا لی تھی۔ کچھ ہی برس پہلے تک، دنیا اس خاتون کے قدموں میں تھی اور بل کلنٹن اور جو بائیڈن دونوں ہی ان کے معترف تھے۔

ایک اور وجہ بھی تھی جس کے باعث ہومز بری ہو جاتیں۔ وہ یہ کہ فراڈ کے مقدموں میں جرم ثابت کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ جیوری میں موجود افراد کو سیکنڑوں تکنیکی پیچیدگیوں کے حامل دستاویزات اور درجنوں گواہوں سے ملنے والے ثبوتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔

ہومز

ہومز کے ہاں ابھی بچہ ہوا ہے اور کچھ تبصرہ نگاروں کا خیال تھا کہ ان کے متعلق ہمدردی پیدا ہو گی۔

ہومز خود بھی عدالت میں گواہی دینے کے لیے آئیں، جو ایک فراڈ کے مقدمے میں کرنا خاصا غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔

انھوں نے تھیرانوس کے چیف آپریٹنگ افسر رامیش ’سنی‘ بلوانی سے اپنے رشتے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ ان مبینہ جرائم کے وقت ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے تھے اور انھوں نے انھیں اس وقت جذباتی طور پر قابو کر رکھا تھا جس سے ان کی ذہنی حالت مفلوج ہو کر رہی گئی تھی۔

56 سالہ سنی بلوانی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

وہاں موجود کچھ افراد کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ہومز نے جب عدالت میں یہ ثبوت دیے تو وہ جیوری کو متاثر کرنے میں کامیاب رہیں۔ وہ سب ان کی بات سن رہے تھے۔

ہومز کا دفاع کرنے والے وکلا کی ٹیم کا ماننا تھا کہ ان کے پاس ایک بہترین دلیل تھی، اور وہ یہ کہ ہومز نے کبھی اپنے شیئرز نہیں بیچے۔ اس وقت بھی نہیں جب ہومز کی کمپنی 10 بلین ڈالر کی تھی، انھوں نے کبھی بھی ان شیئرز کو بیچ کر نقد رقم حاصل نہیں کی۔ اب وہ شیئرز کسی کام کے نہیں ہیں۔

ایلزبتھ ہومز

ان کے وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر انھوں نے واقعی فراڈ کیا ہوتا ہے تو وہ پیسے لے کر بھاگ جاتیں۔ تاہم اس کے برعکس وہ جو کر رہی تھیں، انھیں اس پر یقین تھا۔

تاہم یہاں دونوں باتیں سچ ہو سکتی ہیں۔ آپ کا ویژن، مقصد، مشن ہو سکتا ہے، جیسا ہومز کا تھا اور پھر بھی آپ فراڈ کر سکتے ہیں۔

اس مقدمے کے دوران اکثر اوقات ہومز کو ایسے ثبوت بھی دکھائے گئے جو انھوں نے خود تسلیم کیے کے وہ خاصے سنگین تھے۔

انھوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ اس بات کو تسلیم کیا کہ کچھ ایسی چیزیں تھیں، جو اب جب وہ مڑ کر دیکھتی ہیں تو وہ بہتر انداز میں کر سکتی تھیں۔

ان میں سے ایک مثال جو خاصی نمایاں ہے وہ یہ کہ فائزر اور گلیکسوسمتھکلائن کے لوگو استعمال کر کے یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی تھی کہ دونوں ادویات بنانے والی کمپنیاں تھیرانوس کی تصدیق کرتی ہیں، حالانکہ دونوں کی جانب سے ایسا کچھ کبھی بھی نہیں کیا گیا تھا۔

استغاثہ نے اس عمل کو اپنے دلائل میں خاصی اہمیت دی جو ان کے لیے ایک انتہائی اہم ثبوت تھا۔

ایلزبتھ ہومز

ہومز کے دفاع میں ایک بڑا خلا بھی تھا۔ آپ جس سے بھی تھیرانوس کے بارے میں بات کریں وہ آپ کو یہی بتائے گا کہ ہومز اس کمپنی کو ایک جنونی آمر کی طرح چلاتی تھیں۔ انھیں ان تمام باتوں کے بارے میں معلوم ہوتا جو کمپنی میں ہو رہی تھیں۔

تاہم اس کے برعکس ان کے دفاع میں دیے گئے دلائل کا ایک بڑا حصہ اس بارے میں تھا کہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ ان کی کمپنی میں کیا ہو رہا ہے یا یہ کہ ان کی ٹیکنالوجی کے ساتھ بڑے مسائل ہیں۔

متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ استغاثہ کی جانب سے ان کے سامنے رکھی جانی والی معلومات کے بارے میں انھیں کچھ علم نہیں تھا، اور انھیں اہم واقعات بھی یاد نہیں ہوتے تھے اور ایسے معلوم ہوتا کہ ان کی لاعلمی کا کسی کو یقین بھی نہیں آ رہا۔

ہومز ہمیشہ سے کنٹرول میں رہنے کی عادی تھیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اسی وجہ سے انھوں نے بذاتِ خود گواہی دینے کے بارے میں سوچا، تاکہ وہ اپنے دفاع میں بھی ڈرائیونگ سیٹ پر ہوں۔ لیکن یہ بھی کارگر ثابت نہ ہو سکا۔

سیلیکون ویلی میں متعدد فراڈ کرنے والے، بدعنوان اور جعلساز موجود ہیں۔ ’جب تک آپ مکمل کامیابی حاصل نہیں کر لیتے، تب تک جھوٹی کامیابی کا دکھاوا کرتے رہیں‘، یہ وہ نعرہ ہے جو عام طور پر سیلیکون ویلی میں اکثر استعمال ہوتا ہے۔ ہومز نے یقیناً گفتار کے ذریعے لوگوں کو بیوقوف بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن ان کی خود اعتمادی اور کامیابی کا یقین جس کا وہ پرچار کرتی رہیں، وہ دراصل صرف باتوں تک ہی محدود ہے۔

تاہم کچھ افراد نے اس بارے میں بھی بات کی ہے کہ دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کمپنیوں کی خواتین چیف ایگزیکٹوز ویسے ہی بہت کم ہیں اور ان میں سے بھی ایک کو فراڈ میں مجرم قرار دیا جا چکا ہے لیکن دیگر معروف مردوں کے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا۔

اس فیصلے کے ذریعے متعدد کمپنیوں کے بانیوں کو باور کروایا جائے گا کہ سرمایہ کاروں کو سچ نہ بتانے کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ تاہم کیا اس سے کچھ تبدیل ہو گا۔

سیلیکون ویلی میں اپنے خواب بیچنے کے بڑے انعامات ہیں، یعنی ان سرمایہ داروں کو وہ بتانا جو وہ سننا چاہتے ہیں، نہ کہ وہ جو سچ ہے۔

ایلزبتھ ہومز

ہومز کے عروج و زوال داستان

فوربز میگزین کے مطابق وہ 'دنیا کی سب سے کم عمر خود ساختہ خاتون ارب پتی' تھیں۔ ایک اور جریدے 'انک' نے اپنے سرِورق پر ان کی تصویر لگائی تھی اور لکھا تھا کہ وہ ’اگلی سٹیو جابز‘ ہیں۔

2014 میں ایلزبتھ ہومز، جو اس وقت 30 سال کی تھیں، بہت بلندی پر تھیں۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی سے ڈراپ آؤٹ ہونے والی ہومز نے ایک کمپنی قائم کی جس کی مالیت نو ارب ڈالر تھی اور جس کے متعلق کہا جا رہا تھا کہ وہ بیماری کی تشخیص میں ایک انقلاب برپا کر دے گی۔

ان کی کمپنی تھیرانوس نے دعویٰ کیا تھا کہ صرف خون کے چند قطروں کے ساتھ اس کا ٹیسٹ کینسر اور ذیابیطس جیسی درجنوں بیماریوں کا فوری پتہ لگا سکتا ہے۔ ان کی کمپنی میں ہینری کسنجر سے لے کر روپرٹ مرڈوک جیسے بڑے لوگوں نے سرمایہ کاری کی تھی۔

لیکن 2015 تک اس کمپنی کا پول کھلنا شروع ہوا اور ایک سال کے اندر اندر ہومز کو بے نقاب کر دیا گیا۔ انھوں نے جس ٹیکنالوجی کے دعوے کیے تھے وہ بالکل کسی کام کی نہیں تھی اور 2018 تک ان کی قائم کردہ کمپنی ختم ہو چکی تھی۔

ایلزبتھ ہومز اور بائیڈن

تقریباً چار ماہ تک مقدمے کی سماعت میں، آٹھ مردوں اور چار خواتین کی جیوری کو سابق خود ساختہ ارب پتی کو، جن کے زوال نے سلیکون ویلی کو ہلا کر رکھ دیا تھا، دو بالکل مختلف رنگوں میں پیش کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

’خواب بیچنے کی ماہر‘ ایلزبتھ ہومز: کیا تھیرانوس سکینڈل نے سیلیکون ویلی کو ہلا کر رکھ دیا؟

اپنا کاروبار کرنے کے خواہشمند نوجوان درکار سرمایہ کیسے اکٹھا کر سکتے ہیں؟

دنیا کی سب سے ’کم عمر ارب پتی خاتون‘ ایلزبتھ ہومز پر فراڈ کا جرم ثابت

’پہلے کوئی سمجھا نہیں، اب میرا آئیڈیا ایک ارب ڈالر کا ہے‘

تقریباً 30 گواہوں کو بلا کر، استغاثہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہومز اس پراڈکٹ، یعنی ایڈیسن کہلانے والی مشین، جو وہ سرمایہ کاروں کو فروخت کر رہی تھی، کے متعلق جانتی تھیں کہ وہ ایک دھوکہ تھا، لیکن وہ کمپنی کی کامیابی پر مصر رہیں۔

استغاثہ نے کہا کہ ان کی کمپنی خفیہ طور پر ٹیسٹ کے لیے تجارتی طور پر دستیاب مشینوں پر ہی انحصار کرتی رہی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران، متعدد لیب ڈائریکٹرز نے ہومز کو تھیرانوس کی ٹیکنالوجی میں خامیوں کے بارے میں بتانے کی گواہی دی لیکن انھیں کہا گیا کہ وہ اپنی تشویش پر زیادہ بات نہ کریں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسی دوران ہومز نے سرمایہ کاروں کو بتایا کہ ٹیکنالوجی منصوبے کے مطابق کام کر رہی ہے۔

پراسیکیوٹر جیف شینک نے اختتامی دلائل میں کہا کہ ہومز نے ‘کاروباری ناکامی کو تسلیم کرنے پر دھوکہ دہی کا انتخاب کیا۔ انھوں نے سرمایہ کاروں اور مریضوں کے ساتھ بے ایمانی کا انتخاب کیا۔ یہ انتخاب نہ صرف ظالمانہ، بلکہ مجرمانہ تھا۔’

ان کے وکلا صفائی نے مردوں کی بالا دستی والی صنعت میں انھیں ایک جفاکش اور جدوجہد کرنے والی کاروباری خاتون کے طور پر پیش کیا۔

اپنے دفاع میں گواہی دیتے ہوئے ہومز نے تھیرانوس آپریشن میں غلطیوں کو تسلیم کیا، لیکن یہ بھی کہا کہ انھوں نے کبھی بھی جان بوجھ کر مریضوں یا سرمایہ کاروں کو دھوکہ نہیں دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments