قابل شمار انار کے دانے اور تہوں والا پردہ


ابھی اس قدر سردیاں آئی تو نہیں تھیں بس اک ہلکی سی ڈھارس بندھی تھی کہ جاڑے کا موسم آ گیا تھا۔ غالباً دل اس بات پر ہی طمانیت کی کنڈلی مارے بیٹھا تھا کہ موسم گرما نہیں رہا کیونکہ گرمی ہونے کا رعب اور دبدبہ ہی کچھ ایسا تھا کہ اس کے گزر جانے پر قلوب کو اطمینان کا احساس ہوتا تھا۔ اس نوعیت کی نحیف سی خنکی جاڑے کی اپنائیت کا احساس دلائے نہیں تھم رہی تو دل کو یہ ابہام بھی بہت اچھا رہا کہ موسم سرد تھا۔ مگر تب بھی سردیوں کی شامیں جلیل القدر سردیوں سی آویزاں نہیں ہوئی تھیں۔

اس روز بھی کچھ ایسی ہی مدھم سی خنکی تھی۔ گھر سے باہر بہت ہی انوکھی قسم کی انسانوں کی کہانیاں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں مگر کچھ بہت معصوم سی چلتی پھرتی زندگی کی تصاویر انسانی نظروں کے گرد رقصاں ہوتی ہیں۔ یہ تصاویر دکھنے اور محسوس کرنے میں دل کش تو لگتی ہی ہیں لیکن اپنے اندر بہت گہرائی میں رنجشیں اور سازشیں پیوست کیے رہتی ہیں۔ معاشرے کے متشدد اور متعصبانہ اسلوب عیاں ہو کر خوشگوار سماجی گمانوں کا منہ چڑاتے ہیں۔

سردی کی اس کمزور شام میں بازار میں سبزی کی دکان پر ایک طفل موجود تھا۔ نہایت پتلا، بے ضرر، بے حد معصوم اور باریک آواز کا مالک، جو عمر میں لگ بھگ چھ یا سات برس کا ہو گا۔ اپنے باپ کے ہمراہ سبزی کی دکان پر کھڑا سبزیوں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ کبھی سبزی والے کی دکانداری کا جائزہ لیتا تھا تو کبھی اپنے باپ کی قمیض سے چمٹتا جو غالباً فوج میں بیٹ مین تھا جس کی محدود آمدن نے اس کو فقط دو ترب یا مولیاں لینے ہر ہی آمادہ کر رکھا تھا، وہ بھی اس ہدایت کے ساتھ کہ اس کے پتے ہرگز نہ جدا کیے جائیں۔ اسی اثناء میں دکان کے سامنے سے چھلے اناروں کا شوق رنگ ٹھیلا گزرا۔ کچھ اناروں کا سرخ رنگ تو کچھ اس کے ذائقے کی لذت کی آس، جس نے معصوم اور نحیف طفل کو اپنی جانب راغب کر لیا۔

میٹھے انار خریدنے کی پکار لگاتا ٹھیلے والا اپنی تشہیر میں کہیں حد تک کامران بھی رہا۔ باپ سے ضد کرنے پر دس روپے کا پرانا سا نوٹ تھامے اور نیلی جرسی پہنے معصوم نے میٹھے اناروں کے چلتے ٹھیلے کی جانب فٹافٹ قدم بڑھائے، وہ اس تیزی سے گیا کہ کہیں وہ گزر نہ جائے۔ چند ہی لمحوں میں وہ ٹھیلے والے کو روک چکا تھا جو اب اس کے نوٹ کی بساط کے مطابق انار کے دانے دینے میں محو تھا۔ چند ساعتوں بعد بچہ بہت ہی چھوٹے سے لفافے میں بیس یا پچیس انار کے دانے ڈالے ایک ایک کر کے لطف لے کر کھانے لگا۔ اس کی چھوٹی سی انگشتوں میں انگلیوں پر گنے جانے والے انار کے دانے بہت ہی چھوٹے معلوم ہوتے تھے۔ یہ دلفریب نہیں دل سوز تھا۔ جیسے ہی اس کے باپ نے لفافے میں ترب اور ان کے پتوں کو سمایا، وہ جلدی سے باپ کی کھڑی سائیکل کی جانب بڑھنے لگا اور سائیکل پر سوار ہو کر گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔

میں اس کو تب تلک دیکھتی رہی جب تک وہ میری نظروں سے اوجھل نہیں ہوا۔ اس خوف سے کہ اس کے باپ کو ناگوار نہ گزرے، اس کو گنے جانے والے انار کے دانے کھانے تک ہی دیکھا۔

اسی سڑک کے برعکس ایک کم عمر لڑکے کے ساتھ دبلی سی عورت موجود تھی جو موٹر سائکل سے اتر رہی تھی۔ اس نے گندمی رنگ کا بڑا سا ٹوپی والا برقعہ پہن رکھا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی جو دکھنے میں تعلیمی سند لگی مگر در حقیقت وہ دوا کا نسخہ تھا۔ گندمی رنگ کے بڑے سے ٹوپی والے برقعہ میں ملبوس عورت نے اپنا دو تہوں والا نقاب بھرے اسٹور میں آتے ساتھ اتار دیا، جو فارماسسٹ کے ساتھ پراعتماد انداز میں گفتگو کرنے لگی۔

اس کے ناک کی نتھلی اور پیروں کے ناخنوں پر لگی سیاہ نیل پالش خوبصورت تو تھے ہی مگر اس کے چہرے کے اٹھے ہوئے دونوں نقاب اس بات کے شاہد تھے کہ اس ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں اس کے عیاں نتھلی والے چہرے کی بے پردگی سے اس کا خدا نالاں تھا نہ اس کو اس بات سے فرق پڑ رہا تھا کہ بیسیوں مرد اس کو دیکھ رہے تھے۔ در حقیقت اس کے وسیع لحاف و حجاب کا تعلق پردہ کروانے والے کی ذات سے براہ راست تعلق رکھتا تھا نہ کہ اس کی اپنی انفرادیت سے جس کا وہ برملا اظہار کر رہی تھی۔ وہ زیور کی شوقین، رنگوں اور باتوں کو ترجیح دینے والی تھی۔ دوا کا نسخہ پاکر جیسے ہی وہ گھر لوٹنے کے لئے بیٹے کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھی تو اپنا دو نقابوں والا لحاف چہرے پر ڈال دیا۔ وہاں اس کی انفرادیت پر خوف غالب آ گیا اور دو تہوں کا نقاب اس کے نتھلی والے چہرے پر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments