آم کی ٹوکریاں، مٹھائی اور کیک: صحافت میں تحائف لینا کتنا صحیح کتنا غلط

فرحت جاوید - بی بی سی اردو، اسلام آباد


’میں 1975سے صحافت میں ہوں اور اس دوران بیس بار نوکری سے نکالا گیا ہوں۔ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتا اور اپنی خبر اور تجزیے پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔' سینیئر صحافی نصرت جاوید ان الفاظ کے ساتھ بار بار یہ بھی کہتے ہیں کہ انھیں شرمندگی ہے کہ انھیں ایک ملزم کی طرح وضاحتیں دینی پڑ رہی ہیں۔

وہ اور چند دیگر صحافی اور تجزیہ کار گزشتہ روز سے ہی خبروں میں ہیں اور وجہ ہے ایک لیکڈ آڈیو۔

پاکستان کی صحافتی تاریخ جہاں ان گنت پابندیوں اور ان پابندیوں کے خلاف ڈٹ جانے والے صحافیوں سے بھری ہے، وہیں ایسے بھی متعدد واقعات رقم ہوئے جب کسی صحافی پر تحفہ اور کسی پر رشوت لینے کا الزام لگا۔ تجزیہ نگاروں کی طرف سے حکومتوں اور حزب اختلاف کے سیاستدانوں، حاضر سروس بیوروکریٹس اور ملک کے خفیہ اداروں سبھی پر مختلف اوقات میں تحائف اور ’رشوت‘ دینے کا الزام لگتا ہے۔

کسی بھی فرد سے مالی فائدہ حاصل کرنا اور اس رقم یا فائدے کے بدلے ان سے متعلق منفی خبر روکنا یا مثبت خبر بڑھا چڑھا کر پیش کرنا صحافتی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن کیا ’تحفہ‘ قبول کرنا بھی ایسا ہی ہے؟ اور تحفے سے متعلق حد کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟ ہم نے ان سوالوں کے جواب ملک کے چند نامور صحافیوں سے لینے کی کوشش کی مگر اس سے پہلے یہ بتا دیں کہ اس بارے میں بات کیوں ہو رہی ہے۔

آڈیو اور ویڈیو لیک کا سلسلہ

پاکستان کی سیاست اور صحافت آج کل آڈیو ویڈیو لیکس کی زد میں ہے۔ ایک طرف ماضی میں ایسی ویڈیوز منظر عام پر آئیں جن کے بارے میں الزام لگایا گیا کہ ان میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے نمائندوں کی طرف سے انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جا رہی تھی، تاہم پی ٹی آئی نے اس تاثر کو رد کیا۔ دوسری جانب ایسی ویڈیوز اور آڈیوز سامنے آئیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ ان میں ججوں کو انفلوئنس کرنے اور ان کے ذریعے اپنی مرضی کے فیصلے کرانے کا تاثر ملتا ہے۔

مسلم لیگ ن سے متعلق حال ہی میں منظر عام پر آنے والی تازہ ترین آڈیو میں صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو ’مینیج‘ کرنے کی بات چیت کی گئی۔ یہ آڈیوز مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت کی ہیں جب مریم نواز شریف پر یہ الزام تھا کہ وہ وزیراعظم ہاؤس سے حزب مخالف اور افواج کے خلاف مہم چلاتی ہیں اور صحافیوں کو انفلوئنس کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ گزشتہ برس لیک ہونے والی ایک آڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ وہ مختلف ٹی وی چینلوں کو اشتہار دینے یا نہ دینے کی بات کر رہی ہیں۔ مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس کے دوران تسلیم کیا کہ یہ انہی کی آڈیو ہے۔

بات محض سیاستدانوں کی ہی نہیں، لیاری جیل میں قید عزیر بلوچ نے بھی انویسٹیگیشن کے دوران کئی صحافیوں پر الزام لگایا تھا کہ انھیں مہنگے تحائف بھجوائے جاتے تھے اور بعض صحافی رقم بھی لیتے تھے۔

گزشتہ روز لیک ہونے والی آڈیو میں، جس کی تصدیق خود مریم نواز یا مسلم لیگ ن کی قیادت نے نہیں کی، نجی نیوز چینل جیو نیوز کے ایک پروگرام سے متعلق مریم نواز اور سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید بات کر رہے ہیں۔ وہ اس پروگرام کے شرکا کا باری باری ذکر کرتے ہیں اور رائے دیتے ہیں کہ کون ان کے حق میں بات نہیں کر رہا اور کون ان کا موقف عام نہیں کر رہا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس بارے میں وہ چینل کے سربراہ سے بات کریں گی۔ ٹیپ کے آخری حصے میں وہ پرویز رشید کو یہ تاکید کرتی ہیں کہ وہ آذربائیجان سے لائے گئے تحفے دو صحافیوں رانا جواد اور نصرت جاوید کو بھجوا دیں۔

یہ بھی پڑھیئے

مریم نواز کی آڈیو ٹیپ: ’کم اشتہار ملنا بڑا جرم ہے یا صحافی کا اغوا، لوگوں کو فیصلہ کرنے دیں‘

رشوت زدہ عدلیہ، کرپٹ حکمران اور آزاد صحافت

’حب الوطنی کے نام پر دھمکیاں، ہم ڈرنے والے نہیں‘

حکمراں جماعت تحریک انصاف کے ترجمان شہباز گل نے اسی بارے میں ایک ٹویٹ میں سوال اٹھایا کہ ان چینلوں کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا جن پر الزام لگا ہے، ’مریم صفدر کی لگاتار تیسری آڈیو میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے اعلان سے لے کر سینئیر صحافیوں کو گالی گلوچ تک ہو گیا۔ صحافی تنظیموں کا کوئی شور اٹھا نہ کسی پریس کلب میں داخلے پر پابندی کا اعلان۔ مجال ہے جن دو چینلز پر الزام لگے انھوں نے کوئی صفائی یا بیان دیا ہو۔‘

تحفے تحائف لینا اور دینا روایات کا حصہ ہیں

بی بی سی نے اس بارے میں صحافی نصرت جاوید سے بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں اس وقت وزیراعظم ہاؤس سے ’ایک بار پھلوں کی ٹوکری‘ بھجوائی گئی تھی۔ ’ہمارے معاشرے کی کچھ روایات ہیں جو ہماری تہذیب کا بنیادی حصہ ہیں اور ان کا زندہ رہنا ضروری ہے۔ آج کے سیاستدانوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے بڑے میرے دادا اور والد کے دوست تھے، جو میرے قریبی دوست ہیں، اور اس وقت سے ہیں جب میں صحافی نہیں تھا۔‘

وہ ماضی کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے قدآور سیاستدان ہر برس تمام دوست احباب، سیاستدانوں اور صحافیوں کو آم بھیجتے تھے۔ ’میں اس زمانے میں نیا تھا مگر مجھے بھی بھیجتے۔ لیکن کیا میری تحریریں یا میری صحافت ان کی حمایت میں تھیں؟ اسی طرح اسفندیار ولی خان کے ساتھ ہمارے تعلقات تیسری نسل تک پہنچے، آفتاب شیرپاؤ ہر سال سردیوں میں میرے گھر گُڑ بھیجتے ہیں۔ میں ان کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی یعنی اے این پی کو اعظم (ہوتی) نسیم (ولی خان) پارٹی لکھتا تھا۔ اس کے باوجود ہر سردیوں میں اپنے فارم پر تیار گُڑ بھیجتے ہیں۔ آفتاب شیرپاؤ کے ساتھ زمانہ طالب علمی سے تعلق ہے وہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں وزیر تھے اورمیں اس دور میں سب سے زیادہ زیرِ عتاب رہنے والے صحافیوں میں سے تھا۔ میں نے کسی سے کوئی خبر کی بنیاد پر پلاٹ لیا ہو یا کچھ اور لیا ہو تو میں اپنی صفائی پیش کروں۔ اور اگر میں سیاستدانوں سے انٹریکٹ نہیں کروں گا تو میں خبر کہاں سے لوں گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ان کے سب سے اچھے تعلقات بینظیر بھٹو کے خاندان سے تھے مگر وہ میری خبروں کی وجہ سے مجھ سے سب سے زیادہ ناراض رہنے والے سیاستدانوں میں سے تھیں۔

آم

پاکستان میں تحفے میں آم بھجوانے کا چلن عام ہے

وہ کہتے ہیں کہ دیکھنا یہ ہے کہ ’کیا اس آڈیو میں یہ کہا گیا ہے کہ فلاں صحافی نے ہمارے (مسلم لیگ ن) کے حق بہت اچھی بات کی تھی اس لیے انھیں ٹوکری بھجوا دی جائے۔‘

نصرت جاوید کے مطابق پھلوں کی ٹوکریاں، گرمیوں میں آموں کی پیٹی، سردیوں میں گڑ بھیجنا یا عید پر کیک بھیجنا ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور یہ کسی صحافی کی خبروں پر اثر انداز نہیں ہوتا، نہ ہی ایسا ہونا چاہیے۔‘

تحفے کی حد کیا تعین کی جانا چاہیے

اسی بارے میں سینیئر صحافی اظہر عباس نے بھی بی بی سی سے بات کی۔ وہ کہتے ہیں کہ خود ان کے ادارے میں باقاعدہ طور پر اصول وضع ہیں۔ ’ہم نے جب یہ قواعد و ضوابط بنائے تو ان پر بہت سوچ بچار کی گئی۔ اس وقت (تقریباً بیس سال قبل) ہم نے طے کیا کہ کوئی بھی تحفہ جس کی مارکیٹ ویلیو ایک ہزار روپے سے زیادہ ہوگی وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ مہنگا تحفہ جیسا کہ موبائل فونز، گھڑیاں یا پھلوں کی درجنوں پیٹیاں وغیرہ، وہ قابل قبول نہیں ہوں گی۔‘

اظہر عباس جو نجی نیوز چینل جیو نیوز کے منیجنگ ڈائریکٹر بھی ہیں، خود اپنی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے کئی بار ایسے تحائف واپس کیے ہیں جو مہنگے تھے یا وہ سمجھتے ہوں کہ یہ ایک عام ٹوکن یا تحفے کی حد سے باہر ہیں۔ ’پھل، کیک، ڈائری، کتاب وغیرہ تو ہماری روایت ہے، مگر کوئی بھی شے جو قدر و قیمت میں بڑی ہو جیسا کہ قیمتی لباس یا مہنگی گھڑی، میں واپس کر دیتا ہوں۔ مثلا کسی نے ایک گھڑی بھیجی، میں نے وہ واپس بھیج دی۔ بطور صحافی آپ کو پتا ہوتا ہے کہ کیا آپ کو لینا ہے اور کیا نہیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک اور سینیئر صحافی نے، جو ایک نجی ادارے میں اداراتی عہدے پر ہیں، بتایا کہ صحافت کے ان بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے۔ میں کئی صحافیوں کے ہاتھوں میں، جو خود تنخواہ کم ہونے کا رونا روتے ہیں، لاکھوں کی مالیت کے دو تین فونز دیکھے ہیں۔ میں بہت اچھی تنخواہ لیتا ہوں مگر میں دو ڈھائی لاکھ کا فون نہیں لے سکتا۔ اور پھر جہاں تک پلاٹ لینے یا گاڑیاں لینے کی بات ہے تو ایسا کر کے بھلا کوئی صحافی کیسے اس شخص کے سامنے سر اٹھا کر سوال کر سکتا ہے جن سے آپ نے اتنی بڑی فیورز لی ہوں؟’

اظہر عباس سمجھتے ہیں کہ صحافیوں سے متعلق ان واقعات کے سدباب کے لیے نیوز چینلز اور اخبارات کے منیجمنٹ اور مدیران کو پہلے خود پر اور پھر اپنے عملے پر سختی کرنا ہوگی۔

یہ روایت اداروں کے حکام بالا سے ختم ہو گی تبھی نچلی سطح سے اس کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ ’منیجمنٹ اور مدیران کو اس معاملے پر سختی کرنا ہوگی۔ ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ صحافی سرکاری خرچوں پر دیگر ممالک میں کوریج کے لیے گئے۔ تو ایسے صحافی کس طرح آزادانہ صحافت کر سکتے ہیں؟ ہم نے اپنے ادارے میں اس پریکٹس کو بند کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک کسی بھی نیوز ادارے میں اعلی سطح پر اس معاملے پر سختی نہیں ہو گی، ہم نچلے لیول کے ملازمین سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ ان مالی معاملات میں شفافیت اپنائیں گے کیونکہ وہ خود مینیجمنٹ سے سوال کریں گے کہ بھئی آپ بھی تو یہی کرتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments