نیا سال پرانا وتیرہ


ہر سال کی آخری شب، میں اپنے کمبل میں لیٹا، پستے اور کاجو پر ہاتھ صاف کرتے، آنے والے سال سے خوش کن امیدیں باندھنے میں مصروف رہتا ہوں۔ پچھلے سالوں کی آخری رات کی طرح اس بار بھی مجھے پورا یقین تھا کہ نیا سال چڑھتے ہی میری قسمت بدلنے کو ہے۔ ایک کامیاب اور آسائشوں بھری زندگی جس کا کئی سالوں سے انتظار کر رہا تھا وہ بس اب چند دنوں کی مسافت پر ہے۔ اعتماد کا یہ عالم، کہ مجھے کبھی سال کی آخری شب، یہ فکر نہیں ستائی کہ یہ کامیاب زندگی حاصل کیسے ہو گی، میری پریشانی یہی ہوتی ہے کہ اتنی دولت کو خرچ کیسے کروں گا۔
مگر اب پانچ دن ہو گئے ابھی تک وہ بدلاؤ آیا نہیں جس کا میں منتظر ہوں۔ کتنے دنوں سے کئی کئی بار فون پر اپنا بینک اکاؤنٹ کھول کر دیکھتا ہوں مگر وہی پرانے پیسے۔ سال کے آخر میں لاٹری کی جو ٹکٹیں لی تھیں، وہ بھی لگی نہیں۔ حالانکہ کہہ تو رہے تھے کہ اس بار 36 ملین ڈالر کے علاوہ دس لوگ ایک ایک ملین ڈالر بھی جیتیں گے۔ مجھے پورا یقین تھا کہ نیا سال آنے کو ہے تو کم از کم ایک ملین ڈالر تو جیت ہی جاؤں گا۔ اب ہو سکتا ہے کسی روز دفتر جاؤں تو پتا لگے کہ کوئی مینیجر وغیرہ بنا دیا گیا ہوں اور میں اپنے دفتر سے سب پر افسری جھاڑوں۔ ویسے جب اس پوسٹ کا اشتہار آیا تھا تو یہ سوچ کر اپلائی نہیں کیا کہ مجھے کونسا مل جانی ہے مگر کیا پتا میری پچھلی کارکردگی کو دیکھ کر دفتر والوں کو خود ہی شرم آ جائے۔ آپ نے سنا تو ہو گا کہ کامیابی کوشش سے نہیں مقدر سے ملتی ہے۔ تو جب مقدر میں لکھ دیا گیا ہے تو اپنا ہمت اور کوشش سے کیا لینا دینا؟ بس اللّٰہ خیر کرے زرا دیر ہو رہی ہے، نیا سال چڑھ چکا اور تبدیلی کے لیے نئے سال سے اچھا موقع اور کیا ہو گا۔
آپ بھی جانتے ہیں کہ ایسا شیخ چلی میں اکیلا نہیں بلکہ ہم میں سے اکثر نئے سالوں، بدلتی رتوں، اور اردگرد کے بدلتے حالات پر امیدوں کے بند باندھتے ہیں مگر خود کو نہیں بدلتے۔ ہم ہمیشہ بہتر زندگی اور معاش کی توقع کرتے ہیں، مگر اس کے لیے نئے راستے تلاش نہیں کرنا چاہتے۔ ہمیں اپنی ذہانت فطانت پر کامل ایمان ہوتا ہے مگر محنت اور تردد سے کتراتے ہیں۔ ارادے تو بڑے بڑے باندھتے ہیں مگر انہیں پورا کرنے کے لئے جس لگن اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے اس میں جی نہیں لگتا۔ ہم اپنی سستی اور کاہلی کے ایسے اسیر ہیں کہ اپنے بستر میں لیٹ کر آسمان کو چھونا چاہتے ہیں۔ امیدیں باندھنا برا نہیں، خواب دیکھنا بھی ضروری ہے مگر خیال کو حقیقت میں ڈھالنے کا فن زرا مشکل ہے۔ ویسے کیسا اچھا ہو کہ ہر نئے سال کوئی ہمارا سافٹ ویئر بھی اپڈیٹ کر دے اور بیٹھے بٹھائے ہمارے سارے بگز ختم ہوں جائیں، رفتار اور قابلیت بڑھ جائے اور دماغ کی سکرین روشن ہو جائے۔ بھئی اگر سال نیا ہے تو کوئی ہمیں بھی زرا نیا سا کر دے۔ ہم تقدیر سے جڑے لوگ ہیں تدبیر کے وسیلے کو نہیں مانتے۔
ہر نئے سال سے ہم تبدیلی کی امید باندھتے ہیں مگر خود کو بدلنے کو تیار نہیں۔ آمدن دگنی چاہیے مگر کام سے جان جاتی ہے۔ دو ڈھائی سال قبل جب دیس بدر ہوئے تھے تو سوچا تھا کہ یہی تبدیلی تھی جس کی تلاش تھی بس اب قسمت کا ستارہ خوب چمکے گا۔ لیجئیے دن، مہینے، سال گزر گئے مگر تھوڑے سے کام اور بہت سے آرام سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ یار دوست بھی حیران ہیں کہ ایسے بھاگم بھاگ ملک میں کچھوے کی رفتار سے کیسے چل لیتے ہو، ہم ایک لمبی سی انگڑائی لیتے ہیں اور مسکرا کر کہہ دیتے ہیں، کہ ایسے۔ اب کون بتائے کے وقت بتانا بھی تو ایک کام ہے۔ گھنٹوں فون پر بے مصرف ویڈیوز دیکھ کر آخر میں جو ہلکی سی پشیمانی ہوتی ہے کہ اس کا بھی ایک لطف ہے۔ نیٹ فلیکس یا ایمازون ویڈیوز پر کسی نئے ٹی وی سیزن کے فسانوں میں کھو جانا بھی ایک حقیقت ہے۔ اب اس دنیا میں سبھی محنتی اور کام ور پیدا ہوتے تو کامیابی کا کوئی نیا معیار مقرر کرنا پڑتا۔ خوابوں اور خیالوں کے محل ہم ایسوں ہی کی وجہ سے قائم و دائم ہیں۔
کہنے کو تو بہت کچھ ہے، میری بیگم اس دوران تین سے چار بار میری سوچوں میں مخل ہو چکی ہے کہ وہ نوکری کی درخواست جس کی آج آخری تاریخ ہے خدا کا واسطہ اس کا فارم پر کر دیں۔ ہم نے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہاں ہم اپنے قیمتی خیالات کو سطروں میں بن کر بنی نوع انسان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور تم نوکری کی درخواست کے فارم پر کروانے کی فکر میں ہو۔ جواب میں اس نے میری اور آپ سب کی شان میں جو چند گستاخ فقرے کہے تھے وہ تحریر میں شامل کرنے کے قابل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments