حقوق نسواں: جنسی نفرت یا انتہا پسندی


کوئی مانے یا نہ مانے، کوئی سمجھے یا نہ سمجھے، کوئی دیکھ کر نگاہیں پھیر لے یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ زمانہ حقوق نسواں کی آڑ میں بدترین جہالت کی زد میں ہے۔ دنیا میں کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک متوازن رہتا ہے جب تک وہ جنس کی تکرار سے دور رہتا ہے جبکہ ہر وہ زمانہ جو مرد یا عورت میں سے کسی ایک تسلط میں آ جائے وہاں ایک ہی چیز دل و جان سے پروان چڑھتی ہے اور وہ ہے جنسی نفرت۔ مرد اپنے زمانے کی عورت سے نفرت کرتا ہے اور عورت اپنے زمانے کے مرد سے نفرت میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ نفرت کی یہی آگ انسان کے باطن میں موجود صحیح اور غلط کو جانچنے والے پیمانے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جس کے باعث مرد کو ہمیشہ مرد حق پر لگتا ہے اور عورت کو ہمیشہ عورت مظلوم نظر آتی ہے۔ میرا اشارہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی فیصل آباد کی اس ویڈیو کی جانب ہے جس میں چند خواتین کو مارکیٹ کے تاجروں نے برہنہ کر دیا اور ظلم کرتے رہے۔ کیا اوپر دیا گیا جملہ درست ہے؟

جی ہاں! درست ہے آپ کی بینائی فی الوقت درست کام کر رہی ہے۔

واردات کی ابتدائی شہ سرخی یہ تھی کہ مردوں کے ایک گروپ نے ایک نوعمر سمیت چار خواتین کو برہنہ کیا، ان پر دکان سے چوری کا الزام لگا کر انہیں گھسیٹا اور مارا پیٹا۔ پہلی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ہی اس معاشرے کے تمام نام نہاد انتہا پسند مردوزن کی لعتون کا رخ ان مردوں کی طرف مڑ گیا اور فیمینزم کا مارا ہو ہر مرد و زن اپنی اپنی بھڑاس نکالنے کو اپنا فرض سمجھ رہا تھا۔

دراصل یہ خواتین پیشہ ور تھیں جن کا دھندا ہی اپنی عزت پامال کر کے عوام کے جان و مال پر دھاوا بولنا تھا۔ جیسے ہی ویڈیو وائرل ہوئی تو حقوق نسواں کی آڑ میں جہالت کی چکی میں پسے ہوئے معاشرے کی پولیس جاگی اور خواتین کی بجائے انہیں دکاندار کو اٹھایا اور ایف آئی آر درج کرنے کے بعد حوالات میں بند کر دیا۔ سوشل میڈیا پر مذکورہ ویڈیو کی بدولت ایک طوفان بر پا ہو چکا تھا۔

لیکن دوسری ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد اک نئی حقیقت کا ادراک ہوا کہ دکان کے مالک کے ہنگامے پر ایک اور شخص نے ان میں سے دو کو پکڑ لیا۔ جیسے ہی انہوں نے فرار ہونے والی خواتین کو پکڑ لیا، انہوں نے بھیڑ اکٹھا کرنے کے لیے اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دیے۔ اس واردات میں ملوث خواتین نے خود کو برہنہ کر کے فیمینیزم کارڈ انتہائی ہوشیاری سے استعمال کیا۔ خواتین نہ صرف اپنے کپڑے خود پھاڑ رہی تھیں بلکہ خود کو بر ہنہ کرتے ہوئے ہنس بھی رہی تھیں۔ حقیقت یہ ہے وہ اس اندھے معاشرے پر ہنس رہی تھیں جہاں انتہا پسند لوگ حقوق نسواں کے پردے میں مرد کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حقوق نسواں تو وہ ہیں جو اسلام کے آتے ہی ہر عورت کو دے دیے گئے تھے۔ یہ قصور اس زمانے کے باسیوں کا ہے جو کبھی نہ جان سکا کہ عورت کا مقام چودہ سو سال پہلے ہی بلند کر دیا گیا ہے۔ فیصلہ آپ کیجیے کہ ایک متوازن معاشرے کی بنیاد رکھنے کے لیے مرد و عورت دونوں کے لیے عزت کے اسباب پیدا کرنے چاہیے یا جنسی نفرت کی بنیاد پر مرد و عورت کو ذلت کی چکی میں پیس کر ایک بھیانک اور انتہا پسند دور کا آغاز کر دینا چاہیے۔ فیصلہ آپ کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments