جمہوریت اور انسانی ترقی میں کیا تعلق ہے؟


موجودہ دنیا کے مختلف ممالک میں چار طرح کے نظام حکومت کار فرما ہیں پہلا نظام مکمل جمہوریت ہے، دوسرا نظام نامکمل ( فل ڈ) جمہوریت ہے تیسرا نظام نامکمل (ہائبرڈ) آمریت ہے اور چوتھا نظام مکمل آمریت ہے۔ یہ درجہ بندی برطانیہ میں قائم ایک پرائیویٹ ادارہ ”دی اکانومسٹ گروپ“ کی ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جو ہفتہ وار جریدہ ”دی اکانومسٹ“ چھا پتا ہے۔ اس کا ایک ذیلی ادارہ ہے ”دی اکونومسٹ انٹلیجینس یونٹ“، اس ادارے کا کام ہی دنیا میں رائج نظام ہائے حکومت پر ریسرچ کرنا ہے۔ اور اس ریسرچ کے مطابق ان ممالک کی اوپر بیان کیے گئے چار گروپس میں درجہ بندی ہے۔ اس ریسرچ رپورٹ کو ”ڈیموکریسی انڈکس“ کہا جاتا ہے۔
اس ریسرچ میں دنیا کے ایک سو سڑسٹھ ممالک میں رائج نظام ہائے حکومت کی جانچ، پانچ مختلف شعبوں میں کی جاتی ہے، جن میں نظام انتخاب، نظام کے اندر تمام طبقات کی آزاد شمولیت اور موجودگی، نظام عدل، شخصی اور شہری حقوق، اور ان کا تحفظ، نظام حکومت، مربوط سیاسی کلچر اور سیاست کے اہل تمام طبقات کی سیاست میں شمولیت کا تحفظ اور فروغ شامل ہیں۔ ان پانچ شعبوں میں ساٹھ مختلف زاویوں سے ریسرچ کی جاتی ہے اور ان شعبوں میں کارکردگی کی جانچ کے بعد درجہ بندی کی جاتی ہے۔ یہ ادارہ اپنے شعبہ میں ساری دنیا میں معتبر ترین ہے اور اس کالم میں شامل معلومات ”ڈیمو کریسی انڈکس“ کی تازہ ترین رپورٹ سے لی گئی ہیں۔

درجہ بندی میں پہلی کیٹیگری مکمل جمہوریت ہے۔ مکمل جمہوریت ایسا نظام حکومت ہے جہاں نہ صرف مکمل شخصی، آئینی اور سیاسی حقوق کی آزادی ہے بلکہ ایسا نظام موجود ہے جو ان آزادیوں کے تحفظ، ترویج اور مزید ترقی کو بڑھاتا اور یقینی بناتا ہے۔

ان ممالک میں شفاف، غیر جانبدار اور معتبر الیکشن کا نظام موجود ہے۔ ان ممالک میں سرکاری مشینری اور کار سرکار، ایک مضبوط چیک اینڈ بیلنس کے تحت کام کرتی ہے۔ یہاں عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے اور قانون سب کے لیے یکساں ہے۔ ان ممالک میں ہر طرح کا میڈیا مکمل طور پر آزاد اور غیر جانبدار ہے۔ یہاں ملکی آئین بالادست ہے اور کوئی طبقہ بھی ملکی آئین سے اوپر نہیں ہے۔ ان ممالک میں جمہوریت کے بہت محدود قسم کے مسائل ہیں۔ ڈیموکریسی انڈیکس کی تازہ ترین درجہ بندی کے مطابق دنیا بھر میں صرف تئیس ممالک ایسے ہیں جہاں مکمل جمہوریت کا نظام رائج ہے اور ان میں پہلے نمبر پر ناروے، دوسرے پر آئس لینڈ اور تیسرے پر سویڈن ہے۔ باقی ممالک میں جرمنی، کینیڈا، جاپان، برطانیہ، سوئٹزر لینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اسپین، جنوبی کوریا، فن لینڈ، ہالینڈ وغیرہ شامل ہیں۔

درجہ بندی میں دوسری کیٹیگری نامکمل یا فلاڈ جمہوریت ہے۔ یہ ایسے ممالک ہیں جہاں الیکشن فری اینڈ فیئر ہوتے ہیں۔ یہاں شخصی اور آئینی
حقوق اور آزادیوں کا مکمل احترام ہے۔ ان ممالک میں میڈیا کی آزادی، سیاسی مخالفوں پر اور تنقیدی جائزوں پر معمولی قدغنیں موجود ہیں۔ ان ممالک میں پانچ جائزہ نکات کے دوسرے شعبوں میں بھی کہیں نہ کہیں نقائص موجود ہیں۔ جیسا کہ سیاست میں تمام شعبہ ہائے زندگی کی کم شرکت یا عدم دلچسپی، سیاسی کلچر کی ترویج اور ترقی پذیری اور نظام حکومت کے مسائل شامل ہیں۔ اس درجہ بندی میں کل باون ممالک شامل ہیں۔ جن میں سر فہرست فرانس، امریکہ، پرتگال، اٹلی، جزائر مالٹا، جمہوریہ چیک، بلجیم، ملیشیا، جنوبی افریقہ، برازیل، انڈونیشیا، میکسیکو وغیرہ شامل ہیں۔

تیسری درجہ بندی نامکمل آمریت، یا ہائبرڈ نظام کی ہے۔ ان ممالک میں بظاہر جمہوریت لیکن درحقیقت آمریت کے امتزاج سے ایک دوہرا نظام حکومت قائم ہے۔ ان ممالک میں آمریت اور نامکمل جمہوریت دونوں کی خاصیتیں شامل ہیں۔ ان ممالک میں بنیادی انسانی، آئینی اور معاشرتی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کا نظام موجود نہیں ہے یا بہت کمزور ہے۔ ان میں الیکشن چوری اور الیکٹورل فراڈ معمول ہے۔ ان میں انتخاب یا انتخابی عمل غیر شفاف اور غیر منصفانہ ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں قائم حکومتیں حزب اختلاف کو کچلنے کے درپے رہتی ہیں۔ ان مما لک کی عدلیہ جانبدار ہے۔ بدعنوانی اور بے ضابطگی کی روک تھام کا انتظام غیر فعال اور غیر موثر ہے۔ میڈیا اور ذرائع ابلاغ آزاد نہیں ہیں۔ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کو مشکل اور غیر محفوظ ماحول کا سامنا ہے۔ نظام انصاف کمزور اور تمام طبقات کی یکساں رسائی سے باہر ہے۔ نامکمل جمہوریت کے مقابلے میں پانچوں شعبوں میں خامیاں اور کمزوریاں زیادہ ہیں۔ اس درجہ بندی میں کل پینتیس ممالک شامل ہیں۔ اس درجہ بندی میں قدرے بہتر حالت والے ممالک میں بنگلہ دیش، یوکرین، ہانگ کانگ، بھوٹان، جارجیا، آرمینیا وغیرہ شامل ہیں۔ اور اس میں بھی جو ممالک سب سے نیچے ہیں ان میں پاکستان، ہیٹی، کرغزستان، لبنان، اور نائجیریا وغیرہ شامل ہیں۔

چوتھی، اور آخری درجہ بندی آمریت یا مطلق العنانیت ہے۔ ان ممالک میں مختلف النوع سیاسی گروہ موجود ہی نہیں ہیں یا محدود ترین حالت میں ہیں۔ ان ممالک میں مطلق بادشاہتیں یا پھر فوجی آمریتیں قائم ہیں۔ ان ممالک میں بہت خال ہی کوئی جمہوری ادارہ یا جمہوری اقدار پائی جاتی ہیں یا مکمل ناپید ہیں۔ ان میں شخصی اور معاشرتی حقوق اور ان کا تحفظ ناپید ہیں۔ ان ممالک میں الیکشن نہیں ہوتے اور اگر ہوتے ہیں تو فری نہیں ہوتے۔ میڈیا یا تو مکمل ریاست کی عملداری میں ہے اور اگر عملداری سے باہر ہے تو آزاد نہیں ہے۔ ان ممالک میں عدلیہ آزاد نہیں ہے۔ ان ممالک میں حکومت پر تنقید کی اجازت نہیں ہے اور تنقید برداشت بھی نہیں کی جاتی۔ اس درجہ بندی میں کل ستاون ممالک شامل ہیں۔ اس میں قدرے بہتر حالت والے ممالک میں مالی، موریطانیہ، کویت، انگولا، جارڈن اور الجیریا وغیرہ شامل ہیں جبکہ بدترین آمریتوں میں شمالی کوریا، شام، کانگو، چاڈ، لاؤس، تاجکستان، ترکمانستان، سینٹرل افریقن رے پبلک، افغانستان، وغیرہ شامل ہیں۔

ڈیموکریسی انڈیکس رپورٹ ممالک کے ساتھ ساتھ جغرافیائی درجہ بندی بھی کرتی ہے۔ جس میں خطے میں شامل تمام ممالک کے سکور کا اوسط سکور اس خطے کا سکور شمار ہوتا ہے۔ اس درجہ بندی کے حساب سے پہلے نمبر پر شمالی امریکا، جس میں دو ممالک شامل ہیں، دوسرے پر مغربی یورپ جس میں اکیس ممالک شامل ہیں، تیسرے پر لاطینی امریکا جس میں چوبیس ممالک ہیں، چوتھے پر ایشیا اور آسٹریلیشیا کا خطہ جس میں اٹھائیس ممالک شامل ہیں پانچویں نمبر پر وسطی اور مشرقی یورپ کا خطہ جس میں اٹھائیس ممالک شامل ہیں اور آخر میں افریقہ کا خطہ ہے جس میں چونسٹھ ممالک شامل ہیں۔
ڈیموکریسی انڈیکس کو اگر ہم ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس رپورٹ کے تناظر میں پڑھیں تو اس رپورٹ میں بھی جو ملک ساری دنیا میں سرفہرست ہے وہ ناروے ہے۔ ناروے کا ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کا سکور 0۔ 96 یعنی چھیانوے فی صد ہے اس میں دوسرے نمبر پر آئر لینڈ، تیسرے پر سوئٹزر لینڈ، چوتھے پر آئس لینڈ، جرمنی اور پانچویں پر سویڈن ہے۔ اور آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، ہالینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک سر فہرست ممالک میں شامل ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کی رپورٹ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یو۔ این۔ ڈی۔ پی ترتیب دیتا ہے۔ اس رپورٹ میں سب سے نیچے ممالک میں چاڈ، مالی، کانگو، صومالیہ، سوڈان، افغانستان وغیرہ ہیں۔

ہم اگر غور کریں تو انسانی ترقی میں سر فہرست ممالک وہی ہیں جہاں مکمل جمہوریت ہے اور اس انڈیکس میں سب سے نیچے وہی ممالک ہیں جہاں جمہوریت کی برعکس آمریت یا ہائبرڈ نظام قائم ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق انسانی، سماجی اور جغرافیائی ترقی کا واحد اور بہترین انتخاب مکمل جمہوریت میں مضمر ہے۔ صرف وہی قومیں ہی اقوام عالم میں سرخرو ہیں جنہوں نے اس راز کو پا لیا ہے۔ لیکن جمہوریت یا مکمل جمہوری نظام درماندہ اور پسماندہ قوموں کو غاصب طبقات طشتری میں سجا کر پیش نہیں کیا کرتے۔ بلکہ بیدار قومیں اپنے اور آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کے حقوق، مسلسل جد و جہد، ایثار، قربانی اور مسلسل ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد خود حاصل کرتی ہیں۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان نے کہا ہے
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے

محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments