عبد الرشید — ایک خود دار اور بہادر شخص


میں جب بھی سڑکوں، چوراہوں، بازاروں میں ہاتھ پاؤں سے سلامت، ہٹے کٹے مردوں، عورتوں، جوانوں، بچوں کو بھیک مانگتے اور ما نگنے کے نۓ نۓ طریقوںپے عمل کر تے دیکھتی ہوں خاص طور پر سفید شلوار کرتوں میں ملبوس سفید  ٹوپیاں لگاۓ ہاتھ میںتسبحیاں

 گھماتے برگزیدہ افراد تو میرا سر نہ صرف شرم سے جھک جاتا ہے۔ ان کے پیچھے گھروں میں بیٹھے ان کے لواحقین پر بھی بہت غصہ آتا ہے۔ اور بے اختیار ۳۲سال پہلے سفید شلوار قمیض پشاوری چپل میں ملبوس،سلیقے سے بنے بال، کھڑا ناک نقشہ، واجبی سی تعلیم،لیکن گفتگو میں توازن اور بات کرنے کے سلیقے سے آگاہ، دھیمے دھیمے میرے سوالات کے جواب دیتا وہ شخص بے اختیار یاد آتا ہے۔ جس کا نام عبد الرشید ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے بہت دھیمے لہجے میں میرے سوالات کے جواب دیتے ہوۓ وہ انتہائ بے چینی سے ہاتھ میں پہنی دھاتی انگوٹھی کو مسلسل اس طرح گھما رہا تھا کہ مانو انگوٹھی کا جن ابھی باہر نکل آۓ گا اور کہے گا مانگ کیا مانگتا ہے۔
میرے اور اس کے درمیان سوال جواب کے سلسلے کا مقصد اس بات کا تعین کرنا تھا کہ وہ ایک خاص فنڈ سے علاج کا مستحق ہے یا نہیں؟
اس بات کو ۳۲سال سے زائید کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس کا بے چینی سے بھرپور کرسی پر پہلو بدلتا سراپا مجھے آج بھی یاد ہے۔
ہماری گفتگو کے اختتام پر اس نے بہت تیزی سے پوچھا”میرے لئے کچھ ہو جاۓ گا۔ میرے پاس اب کچھ نہیں ہے “۔
انشا اللہ پوری کوشش ہوگی، پرسوں پتا کرنا، میں نے کاغذات سمیٹتے ہوۓ کہا۔
لیکن میرا توکل ڈائلیسس ہے اور میرے پاس کچھ نہیں ہے۔
اس وقت موبائل فون نامی جن ہماری زندگیوں میں داخل نہیں ہوا تھا۔ رابطے کا ذریعہ زمینی فون ہی تھا اور اگر مطلوبہ فرد اس نمبر پر میسر نہ ہوتا تو صبر کے علاوہ کوئ چارہ نہ ہوتا تھا۔ کچھ ایسی ہی صورت حال اسُ وقت بھی تھی۔
اپنے ساتھیوں سے صلح مشورے کے بعد طے پایا کہ اسے کل بلا لیا جاۓ اور اگر مطلوبہ افراد سے رابطہ نہ ہوسکا تو ہم سب مل کے اس کے ڈائلیسس کی فیس ادا کر دیں گے۔
اس فیصلے کے بعد جب میں نے اسے اگلے دن آنے کی نوید دی تو تشکر سے لبریز آنکھوں سے اس سے مسکرایا بھی نہ جارہا تھا۔
دو دن پہلے اس کا نۓ سال کی مبارکباد دینے کا فون آیا تھا۔ برسوں سے وہ ہر عید بقرعید، محرم، ربیع الاول،شب برات،رمضان کا چاند طلوع ہونے پر مبارکباد کا فون کرتا ہے۔
عبدالرشید! ہمارے معاشرے کا ایک بہت ہی عام سا کردار ہے بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ اس جیسے کرداروں سے ہمارا معاشرہ بھرا پڑا ہے۔
لیکن اس عبدالرشید میں کچھ ایسا ہے جو اس کے بارے میں بات کرنے پر اکساتا ہے۔ واجبی سی تعلیم کے باعث وہ اردو پڑھ بھی لیتا ہے اور کچھ لکھ بھی لیتا ہے۔
اسی قابلیت کی بنیاد پر ستر کے آخری عشرے میں وہ بحرین پولیس کے لئے منتخب ہوا تھا۔ ۱۹۸۲ میں اس کی خانہ آبادی ہوئ اور عام پاکستانیوں کی طرح اگلے تین سال میں اس نے دو بچے پیدا کرلئے۔
خلیجی ریاستوں اور مختلف عرب ممالک میں کام کرنے والوں کی طرح اس کا بھی ایک خواب تھا کہ وہ حج کرے۔ ۱۹۸۵ میں اس نے یہ فرض بھی ادا کیا دوران حج اسے خرابی طبیعت کے باعث داخل ہسپتال ہونا پڑا تو علاج معالجہ کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوۓ تشخیص ہوا کہ اس کے گردوں نے کام کرنا بند کردیا ہے اور اسے زندہ رہنے کے لئے ہفتے میں دو مرتبہ مشینی صفائ کی ضرورت ہے۔ ابتدائ مراحل طے کرنے کے بعد وہ واپس بحرین آیا اور ملازمت کے ساتھ ساتھ علاج کا سلسلہ جاری رکھا لیکن نوکری کے حساب سے اس کے معالجہ کا خرچ بہت زیادہ تھا اور اس کی نوکری کی نہ تو معیاد زیادہ تھی نہ تنخواہ سو اسے واپسی کے لئےرخت سفر باندھنا پڑا۔
وطن واپسی کے وقت اس کا اثاثہ چند ہزار روپے تھے جو ملازمت کے اختتام پر ہاتھ آۓ تھے۔ اس کا اپنا گھر اور عزیز واقارب کشمیر کے ایک گاؤں میں تھے جہاں علاج کی کوئ سہولت نہ تھی۔
کراچی شہر میں اس کی حثیت ایک ایسے فرد کی تھی جس کے نہ سر پہ چھت نہ پاؤں تلے زمیں جبکہ تن میں ایک ایسی بیماری گھر کر چکی تھی جو گھر والوں کو بے گھر اور زمین والوں کو بے زمین کر دیتی ہے۔
خرابی گردہ کا مریض بنا کھاۓ رہ سکتا ہے لیکن بنا ڈایلسیس کے نہیں لہذا کراچی آنے کے بعد نجی ہسپتالوں میں اس کا معالجہ تو شروع ہوگیا لیکن زندگی اپنی ضروریات کے ساتھ ہر روز امتحان لینے آ کھڑی ہوتی۔ ساتھ لاۓ چند ہزار چند سو میں بدلے اور دھیرے دھیرے وہ چند سو بھی ضروریات کے پیٹ میں اتر گۓ تو نوبت ادھار قرضے تک پہنچ گئ۔
ایک بیمار آدمی بیوی اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ روز مرنے اور جینے لگا۔ وہ تو بھلا ہو اس کی بیوی کے بھائیوں اور ساس سسرکا جو نہ صرف ہر ماہ راشن پہنچاتے تھے گھر کی چھت کو بھی مل جل کے سنبھالے ہوۓ تھے۔
زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وہ کبھی دکانوں پر سیلز مین کا کام کرتا ، تو کبھی لانڈھی کورنگی کے ملوں کارخانوں کے آگے واقع ہو ٹلوں میں باورچی گیری، تپتی دو پہروں میں اس نے پھلوں پکوڑوں کے ٹھیلے چلاۓ لیکن نہ ہمت ہاری نہ کسی کے آگے ہاتھ پھلایا۔
ہفتے میں دودن بسوں میں لٹک کے سردی گرمی وہ پابندی وقت کے ساتھ ہسپتال آتا رہا۔ اسی دوران اس کے خاندان میں ایک اور بیٹی کا اضافہ بھی ہوا۔ جہد مسلسل کی اس جنگ میں وہ اکیلا نہ تھا اسکی بیوی بھی برابر کی شریک تھی۔ اس نے فیکٹریوں میں محنت مزدوری کی اورہروہ کام کیا جس میں اس کو محنتانہ مل سکتا تھا۔ یہی نہیں اس کی پانچویں کلاس میں پڑھنے والی بیٹی اپنے علاقے کے پہلی دوسری جماعتوں میں پڑ ھنےوالے بچوں کو اسکول سے آنے کے بعد پندرہ بیس روپوں کے عوض پڑھاتی تھی۔
آج ان کی چکی کی مشقت سے بھر پور اس زندگی کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ اس کی بڑی بیٹی نے فارمیسی اور چھوٹی نے ماس کمیونی کمیشن میں ایم اے کیا اور اکلوتے بیٹے نے ایک حکیم کےمطب پے دوائیں کوٹ کوٹ کے بی کام کیا اور ایک بینک میں ملازم ہے۔
آج وہ دونوں بیٹیوں کے فرض سے سبکدوش ہو چکا ہے۔ اس کی ایک بیٹی اور داماد بھی بنک میں کام کرتے ہیں۔ کراۓ کے ایک کمرے میں رہنے والا آج ایک فلیٹ کا مالک ہے اور بہت فخر سے کہتا ہے کہ “ میری بیٹی نے ہسپتال آنے جانے کے لئے رکشے کانتظام کر دیا ہے۔ اب بس میں نہیں چڑھا جاتا ہڈیاں بہت سخت ہو گئ ہیں مڑتی نہیں”
عبدالرشید کوڈائلیسس کے مراحل طےکرتے چھتیس )36) برس ہو چکے ہیں اور وہ نہ صرف پاکستان کا سب سے سینئر ڈائی لیس کا مریض ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق وہ تمام ترقی پزیر مما لک کا بھی گردوں کی صفائ کے اس مرحلے سے گزرنے والا طویل المعیاد فرد ہے۔
اس نے کبھی ہار نہیں مانی، کبھی خود کو قابل رحم نہ جانا،اپنی کسی ضرورت کے لئے کسی کی جانب دست سوال نہ بڑھایا۔
عبد الرشید آج بھی سفید شلوار قمیض میں گردن اٹھا کے مسکراتا ہوا چلتا ہے۔ اور اس ملک کے ان کروڑوں لوگوں کے لئے محنت، سچائی ،خودداری اور حمیت کی جیتی جاگتی مثال ہے جوطرح طرح کے جھوٹ بولتے ہیں اور سوانگ رچا کے سڑکوں بازاروں میں کھڑے ہوتے ہیں۔
عبدالرشید جیتے رہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments