فارن فنڈنگ کیس: صادق اور امین وزیر اعظم


وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے، مراعات یافتہ طبقے اور عام شہری پر قانون کا اطلاق یکساں ہونا چاہیے۔ وزیراعظم صاحب کی اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا اور اس انصاف پسندی کی داد دینی چاہیے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد اس کے امیدواروں کو سینیٹ الیکشن کے موقع پر انتخابی نشان استعمال کرنے سے روک دیا گیا۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس کئی سالوں سے پینڈنگ پڑا ہے اور اس کے بانی ارکان میں سے ایک اکبر ایس بابر انصاف کے حصول کے لیے دھکے کھا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے منحرف بانی رکن اور درخواست گزار اکبر ایس بابر نے 2014 میں الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس دائر کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے “ہنڈی” کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے تحریک انصاف کے ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی تھی۔ حالانکہ الیکشن کمیشن قوانین کے مطابق کسی سیاسی جماعت کو غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کی اجازت نہیں۔

قانون اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت کسی غیر ملکی شخص، غیر ملکی ٹریڈ کمپنی، حکومت یا ادارے سے فنڈنگ نہیں لے سکتی۔ تحریک انصاف پر یہ الزامات اگر واقعتاً درست ہیں تو یہ آئین و قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ یہ معاملہ براہ راست ریاست کی سلامتی کے لیے بھی خطرناک ہے لہذا اس کی فوراً تحقیق لازم تھی۔ تحریک انصاف مگر نہ صرف مختلف حیلوں بہانوں سے اس کیس کو لٹکائے بیٹھی رہی ہے بلکہ اس کے وزراء الیکشن کمیشن کو بھی دھمکاتے رہے۔

تحریک انصاف کی اپنے معاملات میں شفافیت اور قانون پسندی کا یہ عالم ہے کہ الیکشن کمیشن میں منگل کو پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی سماعت میں اس کے وکلاء نے تحقیقات کرنے والی اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ خفیہ رکھنے کی درخواست کی جسے مسترد کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کے معاملے پر تحقیقات کرنے والی الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی کی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے نہ صرف پارٹی کے بینک اکاؤنٹس الیکشن کمیشن سے چھپائے بلکہ الیکشن کمیشن کو عطیات سے متعلق غلط معلومات فراہم کیں۔ سال 2008/2009 اور 2012/13 میں پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے سامنے ایک ارب 33 کروڑ روپے کے عطیات ظاہر کیے جبکہ پی ٹی آئی کو ملنے والی رقم ایک ارب 64 کروڑ روپے تھی۔ یعنی تحریک انصاف نے 31 کروڑ روپے سے زائد کے عطیات اور تین بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کیں۔

اس کے علاوہ اسکروٹنی کمیٹی کو تحریک انصاف نیوزی لینڈ کے بینک اکائونٹس تک بھی رسائی نہیں دی گئی۔ الیکشن کمیشن میں جمع اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹ میں شامل کیش رسیدیں، بینک اسٹیٹمنٹ سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ رپورٹ میں مزید درج ہے کہ تین بینکوں نے 2008 تا 2012 تک کے اکاؤنٹس کی تفصیلات اثاثوں میں ظاہر نہیں کیں، پانچ سال میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرمز نے آڈٹ رپورٹس کا ایک ہی ٹیکسٹ جاری کیا، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم نے اپنی آڈٹ رپورٹ میں کوئی تاریخ درج نہیں کی، تاریخ کا درج نہ ہونا اکاؤنٹنگ معیار کے خلاف ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے چند افراد کے علاوہ فارن فنڈنگ کے مکمل ذرائع ظاہر نہیں کیے ہیں جس کی وجہ سے اسکروٹنی کمیٹی اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہے۔

رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈز موصول ہوئے۔ اسکروٹنی کمیٹی کے مطابق جب تحریک انصاف سمیت فریقین کی طرف سے مکمل ڈیٹا تک رسائی سے متعلق تعاون نہیں کیا گیا تو پھر کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی اجازت سے اسٹیٹ بینک اور پاکستان کے دیگر بینکوں سے 2009 سے 2013 کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کی جس کے بعد یہ رپورٹ مرتب کی گئی۔

تحریک انصاف کے ترجمان اس رپورٹ کے بعد بھی حسب معمول اپنی دیانت و صداقت کے ڈھنڈورے پیٹنے میں مصروف ہیں۔ پی ٹی آئی کے سابق رہنما اکبر ایس بابر کا مگر کہنا ہے کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ نے میرے تمام الزامات کی تصدیق کردی ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ اسکروٹنی کمیٹی میں ہم نے پی ٹی آئی کی غیرقانونی فنڈنگ کے ثبوت دیے اور الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں غیرقانونی فنڈنگ کی تصدیق بھی ہو گئی ہے۔ اکبر ایس بابر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں 31 کروڑ روپے چھپانے کی بات مس لیڈنگ ہے اور چھپائی گئی اصل رقم اربوں روپے میں ہے۔ تحریک انصاف کو صرف 2013ء میں ایک ارب روپے سے زائد فنڈنگ ہوئی تھی اور اب تک پی ٹی آئی کو غیرقانونی ذرائع سے اربوں روپے کی فنڈنگ ہو چکی ہے۔ اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے 40 ہزار ڈونرز کی لسٹ بوگس اور جعلی ہے اور ڈونرز کے شناختی کارڈ نمبر اور ایڈریس نہیں بتائے گئے۔ عمران خان پی ٹی آئی کے چھپائے گئے اکاؤنٹس اور پیسوں کے براہ راست ذمہ دار ہیں اور جو اکاؤنٹس چھپائے گئے ہیں ان میں کئی اکاؤنٹس پارٹی کی ٹاپ قیادت بشمول عمران خان کے نام پر ہیں۔

اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں غیر ملکی افراد اور کمپنیوں کی فنڈنگ کی فہرست موجود ہے۔ پی ٹی آئی نے آج تک اسکروٹنی کمیٹی کے سامنے اپنا ایک بھی فارن بینک اسٹیٹمنٹ نہیں جمع کرایا۔ اکبر ایس بابر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم پر دو آڈیٹرز نے آڈٹ کی تفصیلی رپورٹ دی جس میں پی ٹی آئی کو 2.2 ارب روپے کی غیرقانونی فنڈنگ بتائی گئی۔ الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے بتائے گئے 28 بینک اکاؤنٹس ہمیں نہیں بتائے اور اگر اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پی ٹی آئی کے حق میں ہے تو یہ اسے خفیہ کیوں رکھنا چاہتے ہے؟

جب تک فارن فنڈنگ کیس اور اس طرح کی اور مثالیں مجود ہیں، تحریک انصاف اور خود عمران خان صاحب کی نیت کی سچائی اور قول و فعل کے تضاد پر سوالات اٹھتے رہیں گے۔ وزیراعظم صاحب کا نظام عدل کا اعتبار قائم کرنے کا مطالبہ اور جذبہ لائق تحسین ہے اور ریاست کی تشکیل ریاست مدینہ کی طرز پر کرنے کی خواہش بھی قابل قدر ہے۔ یہ مگر اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک وہ حضرت عمرؓ کی طرف پہلے خود اپنی ذات اور جماعت کو مواخذے کے لیے پیش نہ کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments