عدم برداشت کی وجوہات اور اثرات


عدم برداشت سے مراد کسی بھی شے کو برداشت کرنے کی کمی ہے۔ کسی انسان کے اندر کسی بھی چیز کو تحمل اور حوصلے سے برداشت کرنے کی کمی کا نام ہے۔ یہ درحقیقت رواداری، صبر و تحمل اور بردباری کی ضد ہے۔ یہ ایک صفت ہے جو اس کرہ ارض پر موجود بیشتر انسانوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ وہ منفی رویہ ہے جس سے دور حاضر کا انسان دوچار ہے۔ عدم برداشت انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر کسی کی زندگی میں دیمک کی طرح شامل ہے اور روز بروز اسے ختم کرنے میں سرگرم ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات بھی ہیں جن سے پورا معاشرہ اور انفرادی طور پر ہر شخص متاثر نظر آتا ہے۔
عدم برداشت کی وجوہات میں سب سے پہلی وجہ انسان کا اپنے خالق حقیقی کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ رب کائنات تو صبر و تحمل کا حکم دیتے ہیں۔ قرآن میں بیشتر مقامات پر اس کی تلقین کی گئی ہے۔ سورت الحج میں واضح طور پر فرمایا: ” اور جب ان پر مصیبت پڑتی ہے تو صبر کرتے ہیں”۔ ایک حدیث میں ہے “صبر کا ایمان سے وہ ہی تعلق ہے جو سر کا جسم کے ساتھ ہے”۔( بخاری)
جب انسان نے اس حکم سے روگردانی کی تو عدم برداشت کا شکار ہو گیا۔ اس کے اثرات اس کی شخصیت کو تو متاثر کرتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خدا کی نافرمانی کا بوجھ بھی اٹھائے پھرتا ہے۔ اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر کسی انسان پر بہت بڑی مصیبت واقع ہو گئی ہے،وہ غم سے دوچار ہے۔ اس صورت میں اسے صبر کی تلقین کی گئی ہے، لیکن جب وہ اس کے متضاد عمل کرے گا یعنی اپنے غم کا اظہار کرے گا، چیخے گا چلائے گا، اپنے آپ سے باہر ہو جائے گا، دوسروں کو نقصان پہنچائے گا تو گویا اس نے اپنے رب کے حکم سے منہ پھیڑ لیا۔ ایک اور مثال والدین کی ہے۔ والدین کو بچوں سے شفقت سے پیش آنے کا حکم ہے، ان کی غلطیوں کو درگزر کرنے کا حکم ہے۔ اگر وہ اس سے الٹ عمل کریں گے یعنی بچوں کو چھوٹی سی غلطی پر ماریں گے۔ نتیجہ کیا ہو گا بچے باغی ہو جائیں گے۔ اس طرح انہوں نے خدا کی نافرمانی بھی مول لے لی اور اپنا خسارہ بھی کیا۔
 دوسری اہم وجہ اپنی سوچ کو ہر کسی کی سوچ سے، اپنے رویے کو ہر کسی کے رویے سے بہترین سمجھنا ہی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس میں کسی اور کی مداخلت کو برداشت نہ کرنا، کسی اور کی رائے کو ترجیح نہ دینا۔ اپنی ہی ذات کو “کل” سمجھنا۔ کسی کی رائے کا احترام نہ کرنا۔ اس سے انسان کی شخصیت متاثر ہوتی ہے جب وہ کسی کی رائے کا احترام نہیں کرے گا تو کوئی اس کی رائے کو بھی ترجیح نہیں دے گا جس سے انسانی نفسیات متاثر ہوں گی اور وہ عدم برداشت کا شکار ہوتے ہوئے اس پر چیخنے گا چلائے گا، ہر ممکن کوشش کرے گا کہ اسی کی رائے کو اہمیت دی جائے۔
اس کی تیسری اہم وجہ اپنے فیصلوں کو دوسروں پر مسلط کرنا ہے۔ یہ بہت عام رویہ ہے جو اکثر والدین کی طرف سے دیکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بچہ ڈاکٹر نہیں بننا چاہتا لیکن والدین نے فیصلہ کر لیا کہ یہ ڈاکٹر ہی بنے گا، ایڈمیشن بھی کروا لیا، نتیجہ کیا ہو گا وہ ڈاکٹر بننے کے لیے جس قدر محنت درکار تھی نہیں کر پائے گا۔ والدین کا پیسہ، بچے کا وقت دونوں برباد ہوگیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ والدین نے یہ برداشت نہیں کرنا چاہا کہ ان کے فیصلے کو رد کیا جائے۔ بچے کی خواہش، پسند نا پسند  کا احترام تو دور کی بات اپنا فیصلہ سنا دیا اور اس میں وہ کسی صورت مداخلت برداشت نہیں کر سکے۔
چوتھی اہم وجہ جو زیادہ تر انسانوں میں پائی جاتی ہے وہ تنقید ہے۔ تنقید برائے تنقید یا کسی کو نیچا دکھانے کے لیے بے جا تنقید کرنا۔ مثال کے طور پر آپ کی کسی سہیلی نے بہت اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ اس کی اس کامیابی کو سراہنے کی بجائے اسے یہ کہنا کہ یہ کامیابی بھی بھلا کوئی کامیابی ہے۔ اس کی کامیابی میں آپ خوش نہیں ہو سکتے تو کم از کم اس کا دل برا تو نہ کریں۔ ایسا رویہ ان انسانوں کا ہوتا ہے جو اپنے سے زیادہ کامیاب کسی کو دیکھ نہیں سکتے اور حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان وہ اپنی ذات کا ہی کرتے ہیں۔
پانچویں اہم وجہ ملکی سطح پر دیکھنے کو ملتی ہے ہر طرف انتشار، فرقہ پرستی کا افیون،  جارحیت، امتیازی سلوک، بے عزتی، ضد، انا کو فوقیت دینا، جنسی استحصال، زور زبردستی، دہشت گردی وغیرہ۔ ان سب معاملات میں ایک ہی وجہ نظر آتی ہے اور وہ ہے صبر کا دامن چھوڑ دینا۔ رواداری کا پاس نہ رکھنا۔ سیاسی لیڈرز صبح شام اپنی انا کی تسکین کے لیے اپنے مخالفین کی بے عزتی میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کے لیے کسی بھی حد سے گزرنا پڑے گریز نہیں کریں گے۔ جس سے ناصرف ان کی شخصیت متاثر ہوتی ہے بلکہ مجموعی طور پر پورا معاشرہ ان کی اس جنگ کا شکار رہتا ہے۔
چھٹی اہم وجہ غصہ کو قابو میں نہ رکھ پانا۔ کسی پہ غصہ آیا، کسی کی حرکت نا گوار گزری فوراً درہم برہم ہو گئے۔غصے کو قابو نہ کر سکنا بھی عدم برداشت کی وجہ ہے۔ اس سے رشتہ تو خراب ہو گا ہی آپ کی اپنی شخصیت بھی خراب ہو جائے گی۔انفرادی طور پر دیکھا جائے تو انسان اپنی خواہشات کا پوجاری ہے، ہر کوئی اس کے حساب سے چلے تو وہ خوش ہے،ہر کوئی اس کی خواہش کو اہمیت دے تو وہ خوش ہے، ہر کوئی اس کے نظریے کا احترام کرے تو وہ پر سکون ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ کوئی دوسرا بھی انسان ہی ہے۔ اس کی بھی خواہشات ہیں، اس کا بھی اپنا الگ نظریہ ہے۔ اس کا اثر انتشار کے طور پر سامنے آتا ہے۔ جب اس کی خواہش کو مدنظر نہیں رکھا گیا تو وہ کسی کی خواہش کو کیا جانے۔ یہ ایک انتہائی منفی سوچ ہے جس سے رشتے اپنی نزاکت کھو دیتے ہیں۔عائلی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی یہ ہی مسائل درپیش ہیں۔ میاں بیوی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ لڑائی، مزاج کا ہم آہنگ نہ ہونا، ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر نہ کرنا، ہر وقت اپنے غصے کی آگ میں جلتے رہنا۔اس سے ناصرف ان کی ذاتی زندگی اور وہ رشتہ جو انتہائی مقدس ہے وہ برباد ہوتا ہے بلکہ دونوں خاندانوں میں انتشار جنم لیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت خوبصورت زندگی گزارنے کے طریقوں سے آگاہی دی ہے۔ وہ طریقہ قرآن پاک کی ہر آیت ہے۔ جو انسان قرآن پاک کو سمجھ کر نہیں پڑھتا وہ عدم برداشت کا شکار ہوتا ہے۔ اس میں کسی قسم کے حالات کا سامنا کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی کیوں کہ اس کا رب پہ یقین نہیں ہوتا۔ رب کے حکم سے آگاہی ہی نہیں ہوتی۔ ایک اسلامی اور خوشحال معاشرے کی تعمیر کے لیے ضروری ہے ہم عدم برداشت جیسے ناسور سے خود کو بچائیں۔ اپنے اندر برداشت کی قوت کو پیدا کریں، یہ اسی وقت ممکن ہے جب اپنے رب حقیقی پہ پختہ یقین کریں گے اور اس کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کریں گے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments