آپریشن گلیکسی: جب 1980 میں جنرل ضیا کے خلاف فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کو ’کچل‘ دیا گیا

عمر فاروق - دفاعی تجزیہ کار


یہ سنہ 1980 کی بات ہے۔ آئی ایس آئی کے سلامتی اور انٹیلیجنس چیف کے عہدے پر بریگیڈئیر ریٹائرڈ اے آئی ترمزی خدمات انجام دے رہے تھے۔ مارچ 1980 کی ایک صبح انھیں اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ’انٹر سروسز انٹیلیجنس‘ لیفٹیننٹ جنرل اختر عبدالرحمن نے آئی ایس آئی ہیڈ کوآرٹرز میں طلب کیا۔

بریگیڈئیر ترمزی کے مطابق جنرل اختر عبدالرحمن بہت زیادہ غصے میں تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس ملاقات میں جنرل اختر نے غصے سے پھنکارتے ہوئے کہا ’تم اور تمہاری ٹیم کہاں سوئے ہوئے ہو۔ آپ لوگ بند آنکھوں سے اِدھر اُدھر گھومتے ہو۔۔۔ اگر ہمیں فوج میں بغاوت کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتا تو پھر آئی ایس آئی کے اس سفید ہاتھی اور آدمیوں کے ریوڑ کا کیا فائدہ ہے۔‘

پروفائل آف انٹیلیجنس- ’1980 کے دوران آئی ایس آئی کی کامیابیوں کا اکاﺅنٹ‘ کے عنوان سے اپنی کتاب میں بریگیڈئیر ریٹائرڈ ترمزی نے اس ملاقات کی روداد لکھتے ہوئے بتایا کہ میں نے سوال پوچھا کہ ’کون کر رہا ہے بغاوت کی منصوبہ بندی؟‘

’جنرل اختر بولے میجر جنرل تجمل کو جانتے ہو۔ میں نے جواب دیا جی۔ اگر میری یاداشت ٹھیک ہے تو بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے پر انھیں ملازمت سے ریٹائر کیا جا چکا ہے۔ ہمارے پاس ان پر فائل بنی ہوئی ہے اور موجود ہے۔‘

ڈی جی آئی ایس آئی کے حکم پر جنرل تجمل کی فائل منگوائی گئی اور ہم دونوں نے اس کا مطالعہ شروع کر دیا۔ بریگیڈئیر ریٹائرڈ ترمزی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’میں فائل لے کر ان کے پاس گیا اور ہم دونوں کو معلوم ہوا کہ بعدازاں کوئی منفی یا قابل غور کوئی بھی چیز ہمارے علم میں نہیں آئی۔‘

جنرل اختر نے بریگیڈئیر ریٹائرڈ ترمزی کو بتایا کہ ان کے ذرائع نے انھیں خبر دی ہے کہ جنرل تجمل بغاوت کرانے کے لیے افسروں کی بھرتیاں کر رہے ہیں اور منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔

پاکستان کے سابق آمر جنرل ضیا الحق

’جنرل اختر کے مطابق تجمل جی ایچ کیو میں منعقدہ کور کمانڈرز کانفرنس کے دوران خونی بغاوت کرانے یا 23 مارچ کو پاکستان ڈے پریڈ کے دوران جنرل ضیا کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ یہ وہی طریقہ واردات تھا جس میں مصر کے انور سادات کو قتل کیا گیا تھا لیکن فرق صرف یہ تھا کہ اسلامبو علی کی جگہ اس منصوبے میں جنرل کا بیٹا کیپٹن نوید تھا۔‘

جنرل تجمل کا بیٹا کیپٹن نوید فوج کی بلوچ ریجمنٹ میں فرائض انجام دے رہا تھا جو راولپنڈی ریس کورس میں تعینات تھی۔ جنرل تجمل کے داماد میجر ریاض ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) میں تھے۔ ایک خفیہ آپریشن میں آئی ایس آئی نے جنرل تجمل کو بیٹے اور داماد سمیت تین الگ الگ چھاپوں میں گرفتار کر لیا گیا۔

بریگیڈئیر ترمزی کی یاداشتوں میں ان گرفتاریوں کو ایسے بیان کیا گیا ہے جیسے فوجی بغاوت کچلنے کی سچ مچ اور اصل میں کارروائی ہو رہی تھی اور واقعات رونگٹے کھڑے کر دینے والے ایک سنسی خیز ناول کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔

بریگیڈئیر ترمزی نے صرف اِن تین گرفتاریوں کو ہی بیان کیا ہے۔ اِن گرفتاریوں کے نتیجے میں پاکستان آرمی (فوج) کے اندر بغاوت کچل دی گئی۔ دوسرے الفاظ میں اس کے دو مطلب ہیں: یا تو خفیہ ادارے کے سربراہ نے اپنے خبط میں یہ کام کیا یا پھر منصوبہ بندی کی سطح پر ہی انھوں نے یہ سازش کچل کر رکھ دی۔

بریگیڈئیر ترمزی نے اپنی کتاب میں نشاندہی کی کہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل تجمل نے (جماعت اسلامی کے بانی) مولانا ابوالاعلی مودودی سے لاہور میں مسلسل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جہاں سے انھوں نے اسلامی ریاست و حکومت کے خدوخال کا بنیادی تصور اور نظریاتی راہنمائی حاصل کی تھی۔

یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیاالحق کی فوجی حکومت نئی نئی آئی تھی اور اپنے قانونی جواز کی تلاش میں تھی۔ قابل عمل سیاسی بنیاد اور سیاسی استحکام کے فقدان نے جنرل ضیا جیسے فوجی آمر کو انتہائی عدم تحفظ سے دوچار کر رکھا تھا۔

بریگیڈئیر ترمزی کے مطابق فوجی بغاوت کے مبینہ تینوں منصوبہ سازوں کی گرفتاریوں کا یہ اقدام مہم جوئی کی کسی فضا میں نہیں تھا۔

جنرل تجمل کو لاہور کے مضافات میں واقع ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا جبکہ ان کے بیٹے کیپٹن نوید کی فوجی بیرک اور داماد میجر رضوان کی سیٹلائٹ ٹاﺅن راولپنڈی سے صدر بازار کی طرف پیدل جاتے ہوئے گرفتاری عمل میں آئی تھی۔

جنرل تجمل ایک پراسرار کردار تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے ریٹائر فوجی افسران نے پس منظر میں ہونے والے کئی انٹرویوز میں بتایا کہ فوج کے افسروں اور جوانوں میں تجمل کو ایک بے تحاشہ ایمان دار اور متقی و پرہیز گار شخص کے طور پر جانا جاتا تھا۔

ان کے بارے میں یہ شہرت بھی تھی کہ وہ دوسروں کے عقائد کو برداشت نہیں کرتے۔ دوران ملازمت تجمل سے ملاقاتیں کرنے والے ایک ریٹائرڈ جنرل کا کہنا تھا کہ ’ان (تجمل) کا رویہ ایسا ہوتا تھا کہ جیسے فوج میں وہ واحد ایمان دار شخص ہیں۔‘

سنہ 1971 کی جنگ کے دوران جنرل تجمل قیدی بن گئے تھے۔ رہائی کے بعد وہ پاکستان واپس لوٹے اور حمودالرحمن انکوائری کمشن کے سامنے پیش ہوئے۔ انھوں نے جہلم میں 23ویں ڈویژن کی کمان کی تھی۔ آرمی چیف جنرل ضیاالحق کی سربراہی میں جج ایڈووکیٹ جنرل (جیگ) کے فوجی ٹریبونل نے تجمل کو فوج سے ریٹائر کر دیا تھا۔

جنرل ضیا الحق

یہ کارروائی ان کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کے الزامات پر کی گئی تھی۔

ریٹائر فوجی افسران کے انٹرویوز کے نتیجے میں سامنے آنے والا سرکاری مؤقف یہ تھا کہ جنرل تجمل نے مبینہ طور پر بغاوت کی ایک نہیں دو منصوبہ بندیاں کی تھیں۔

پہلی 26 جون 1977 کو ہوئی جس کے تنیجے میں انھیں بری فوج سے ریٹائر کر دیا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے جنرل ضیاالحق کی فوجی حکومت کے خلاف ایک اور منصوبہ بندی کی جس میں کئی اور سینئر فوجی افسران بھی شامل تھے جن میں ان کا اپنا بیٹا نوید تجمل بھی شریک تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں ’خلافت‘ کے نام پر فوجی بغاوت کا منصوبہ کیسے ناکام ہوا

پاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات

جب پاکستان کو تخریبی کارروائی میں مطلوب ملزم نے صدام حسین کے خلاف فوجی بغاوت کی

ذوالفقار علی بھٹو کی وہ ’غلطیاں‘ جو فوجی بغاوت کا باعث بنیں

سول فوجی تعلقات پر پاکستان کے نامور تاریخ دان پروفیسر حسن عسکری نے ’بیک گراﺅنڈ‘ (پس منظر سے متعلق) بی بی سی سے ہونے والے انٹرویو میں بتایا کہ جنوری 1980 میں مبینہ فوجی بغاوت کو کچلنے کی کارروائی آرمی کے اندر ہرگز کوئی سنجیدہ نوعیت کی پیشرفت نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’گرفتار ہونے والوں میں سے ایک کو بھی پاکستان آرمی کے اندرونی یا داخلی مرکزی کمان کے ڈھانچے تک رسائی میسر نہ تھی جسے جی ایچ کیو کہتے ہیں۔‘

حسن عسکری کا کہنا تھا کہ ’چند ایسے افسران جنھیں نہ تو مرکزی کمان کے ڈھانچے تک رسائی تھی اور نہ وہ اس نظام کے اندر تک پہنچ سکتے تھے جو فوجی بغاوت کے لیے لازم تھا تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا جبکہ یہ مرکزی نظام اس وقت پوری طرح سے فوجی جنتا کے قابو اور حفاظت میں تھا۔‘

ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ ’لہذا پاکستان کی تاریخ میں بغاوت کچلنے کی کوشش کبھی نہیں ہوئی، صرف بغاوت کی منصوبہ بندی کو کچلنے کی کارروائیاں کئی مواقع پر ضرور ہوئی ہیں۔

ایک سینئیر ریٹائرڈ فوجی افسر نے بتایا کہ پاکستان کی فوجی قیادت پر اس وقت طاری اس خبط دماغی کا یہ واحد واقع نہیں۔ 1980 کے ابتدا میں جونئیر افسران کے خلاف بغاوت کے الزامات پر اور بھی اسی نوعیت کی کارروائیاں ہوئیں، ان کی گرفتاریاں ہوئیں اور فوج کے اندر اوپر سے نیچے تک نگرانی اُن دنوں ایک معمول بن چکا تھا۔

جنوری 1984 میں پاکستانی انٹیلیجنس نے دوسری بغاوت کی کوشش کو اس وقت ناکام بنایا تھا جب چند آرمی میجرز اور لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سویلین سینئر قانون دان کو انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کی فوجی حکومت کے خلاف جنگ مسلط کرنے کے الزامات پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔

فوج کے اندر اسے بغاوت سے موسوم کیاجاتا ہے لیکن اس بار بھی بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو پاکستان آرمی کی مرکزی کمان کے نظام تک رسائی میسر نہیں تھی۔

اس مبینہ بغاوت کا نمایاں نام لاہور کے سینئر وکیل رضا کاظم تھے جنھیں فوجی بغاوت کے مقدمے کی سماعت کے دوران باعزت بری کر دیا گیا تھا۔ ان پر انڈیا سے اسلحہ کی فراہمی (سمگلنگ) اور انڈین انٹیلیجنس کے اہلکاروں سے ملاقاتیں کرنے کے الزامات بھی عائد کئے گئے تھے۔

فوجی حکومت نے کبھی نہیں بتایا کہ انٹیلیجنس اداروں نے کتنے آرمی افسران کو گرفتار کیا تھا تاہم صرف 14 افسران کو ٹرائل کے لیے پیش کیا گیا اور ان میں سے زیادہ تر کو ثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر بری کر دیا گیا۔

حسن عسکری نے تبصرہ کیا کہ 1980 میں تجمل، ان کے صاحبزادے اور داماد کی گرفتاریاں جبکہ جنوری 1984 میں جونئیر افسران کی سرحد پار سے اسلحہ کی سمگلنگ کے الزامات میں سے ’کوئی بھی سنجیدہ نوعیت کا نہ تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ان میں سے ایک مقدمے میں بھی کسی نے جی ایچ کیو تک رسائی کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی جی ایچ کیو میں داخل ہونے کی کوئی کوشش کی تھی۔‘

حسن عسکری کے مطابق ’کسی بغاوت کو کچلنے کی کارروائی کے لیے فوجی کمان کے مرکزی ڈھانچے اور نظام تک رسائی ہونا لازم ہے۔پاکستان کی تاریخ میں بغاوت کچلنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی، محض منصوبہ بندی کو کچلنے کی کارروائیاں ہی ہوئی ہیں۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’بغاوت کچلنے کے معاملے میں کمانڈ سٹرکچر (کمان کے ڈھانچے) میں سے کسی کو لیا جاتا ہے یا جیسا کہ عراق میں ہوا تھا کہ اعلیٰ کمان کو تہہ تیغ کر کے آپ کنٹرول حاصل کر لیں۔‘

بغاوت اور اسے کچلنے کے الزامات سے قطع نظر اصل میں کیا ہوا، اس سچائی کا پتا تب ہی چل سکتا ہے جب فوجی معاملات سے متعلق امور کے تاریخ دانوں کو ان دستاویزات تک رسائی ملے جن سے ٹھوس حقائق منظر عام پر آئیں لیکن اس معاملے میں سرکار کے اس کھاتے کا دروازہ بند رہتا ہے اور مستقبل قریب میں اس دَر پر لگے تالے کے کھُلنے کا کوئی امکان بھی دکھائی نہیں دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments