غمِ عاشقی ترا شکریہ


عاشقی دنیائے حاضر کی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ ہر مکتبِ فکر کے لوگ اس سے سرشار ہو رہے ہیں ۔ محبی جاناں کے لئے ایک محبتی فقرا تو ضرور بنتا ہے لیکن پھر کچھ مثبت سوچ لیتے ہیں کہ اتنی جلدی کیا کہ فوراً ایکشن لیا جائے۔ دراصل عاشقی ایک لمبا سفر ہے اس میں بہت در و دیوار، بہت سی پیچیدگیاں، رکاوٹیں، رنج، غم، تکلیفیں، مصیبتیں زندگی کی سڑک پر آتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ یہی زندگی ہے جو زندہ ہونے کا ثبوت دے رہی ہے۔ اگر غم نہ ہوتے تو خوشی پھر کس مرض کی دوا ہوتی؟ کیونکہ یہ سفر مطلب عاشقی کا سفر بہت وسیع ہے،
بقول عابد میر ”میری زندگی میں آنے والی ہر عورت، ہر وہ عورت جس سے میں نے پیار کیا، اور وہ عورتیں جن سے ابھی میں نے پیار کرنا تھا، سے کہہ سکوں کہ تم میری تخلیق کی مشترکہ اساس ہو ۔میں جو تھا،تمہارے ہونے سے تھا۔ ہر تعلق سے میں نے تخلیق کشیدکی ۔عورت کے پہلو میں گزرے ہر لمحے نے مجھے تخلیقی عمل سے سرفراز کیا۔ ہر عورت میرے لیے محبوبہ کا روپ لیے، ممتا کے جذبے سے سرشار تھی میں نے ان سب سے کائنات کو سمجھا سیکھا، دنیا سے نمٹنا سیکھا۔ میں ان میں سے ہوں، میں انہی میں لوٹ جانا چاہوں گا.”
ایک جگہ امرتا صاحبہ لکھتی ہیں ”عشق وہ بیماری ہے جس سے انسان تندرست بھی ہوسکتا ہے لیکن یاد وہ نیم حکیم ہے جس کی ہر پڑیا آپ کے مستقبل کی جان خطرے میں ڈالتی جاتی ہے۔”میں کہتا ہوں کہ یہ امرتا کے محسوسات نہیں بلکیں وہ عشق کی محرومیاں ہے جو امرتا کے اندر ساحر یا امروز کی شکل میں اُن کے وجود کو لاحق تھیں. جون ایلیا کہتا ہے۔
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
عشق، محبت ذات یا برادری دیکھ کر نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ محبت ہونے کے لیے کسی وجہ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس بے وجہ ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ محبت ایک نازک شے ہے، اس کو نازکی سے پکڑنا چاہیے اگر اس کے احاطے میں بندہ یا بندی آئیں تو پھر نکلنا مشکل نہیں بلکیں ناممکن بن جاتی ہے ۔ یہ عشق کی کیفیت ہی کچھ اس طرح ہے کہ مضبوط انسان بھی اس کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ اس کے بارے اگر سوچنے لگ جائے تو پھر امرتا جیسے تاثرات ہر جگہ حاوی ہو جاتے ہیں۔ ”ہم جو بھی شدت سے سوچتے ہیں وہ آنکھوں سے بھی دکھائی دینے لگتا ہے کانوں سے بھی سنائی دینے لگتا ہے اور اس کی بو بھی آدمی سونگھ سکتا ہے ۔
یہ عشق کا درد ہے کہ جب سوچتے ہو تو اس کی آواز کانوں میں گونجتی ہے۔ یہ عشق نہیں تو اور کیا ہے ۔ یہی عشق کی لالچ میں آ کر میں کسی سے پیار کرنے لگا ۔ اول تو زندگی انتی تیز جانے لگی کہ کبھی کبھی میں خود کو بھول جاتا تھا ۔ جب عشق اپنی انتہا تک پہنچا تو پھر محسوس ہوا کہ اب پتہ نہیں کہ کب اپنے آپ کو بھول چکا ہوں، اب اپنے وجود کی”و” بھی خطرے میں تھی۔ جب وجود کی ”و” کو برقرار کرنے کی سعی کی تو عشق مشکوک ہونے لگا جب عشق کو بچانے کی کوشش کی۔ تو دنیا کی محبت رائیگاں ہونے لگی۔میں اس شش و پنچ میں رہ گیا تھا؟ آخر ایسا محسوس ہوا کہ وجود، خودی، دنیا اور عشق سب نے اپنا اپنا حصہ میرے جسم سے لے لیا تھا اور میں ایک پیوند زدہ قمیض کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا ۔ مجھے پھر امرتا پریتم یاد آئی، ”کاش انسان کو آس کا کینسر نہ ہوتا” اب میری کچھ یادیں کسی بے وفا کی آنکھوں میں قید ہیں بس اور کچھ نہیں ۔
ملک جان کے ڈی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملک جان کے ڈی

ملک جان کے ڈی بلوچستان کے ساحلِ سمندر گوادر کے گیٹ وے پسنی مکران سے تعلق رکھتے ہیں۔ ادب کا مطالعہ، ادبی مباحث اور ادب کی تخلیق ملک جان کے ڈی کا اوڑھنا بچھونا ہیں، جامعہ کراچی میں اردو ادب کے طالب علم اور سوشل ایکٹیوسٹ ہیں

malik-jan-k-d has 15 posts and counting.See all posts by malik-jan-k-d

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments