سانحۂ مری۔ مسائل کہاں ہیں؟


میری فیس بک وال سمیت آج کل ہر طرف مری میں ہونے والی اموات زیر بحث ہیں۔ حد یہ کہ گھروں میں آپس میں بھی یہی گفتگو ہو رہی ہے۔ یہ ایسا واقعہ ہے جس نے ہر شخص کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ تفریح کے لیے جانے والے افراد یوں موت کے منہ میں چلے گئے یہ دیکھنا بہت تکلیف دہ ہے۔

وہیں ایک بحث یہ بھی چھڑی ہے کہ غلطی انتظامیہ اور ریاست کی تھی یا وہاں جاکر پھنسنے والوں کی۔

ہم میں سے اکثر افراد جانتے ہیں کہ پاکستان میں رہنے والی اکثریت کے لیے ”مری“ ان کی خوابوں خیالوں کی سر زمین ہے۔ برف باری دیکھنے اور اس سے لطف اندوز ہونا بھی اپنی جگہ الگ ہی سحر رکھتا ہے۔ پاکستان کے باقی تمام ایسے علاقے جہاں جاکر آپ برف باری سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں ان کے مقابلے میں مری تک پہنچنا نسبتاً آسان اور سستا ”تھا“ ۔

مری کے علاوہ دوسرے ایسے علاقے جہاں تک عوام کی با آسانی رسائی ممکن ہے اور سستی بھی اس کے بارے میں اکثریت کو معلوم ہی نہیں۔

آپ میں سے جتنے افراد پاکستان میں کسی بھی طرف کے پہاڑوں پہ سفر کرچکے ہیں وہ ان کی سڑکوں کے حالات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اکثر جگہوں پہ ایک مکمل گاڑی گزرنے کی جگہ بھی نہیں ہے۔ یہ صرف ڈرائیور حضرات کی مہارت ہے کہ وہاں روز کئی سو افراد کو باحفاظت لاتے لے جاتے ہیں کیوں کہ انتظامیہ نے بہت اہم ذمہ داری پوری کی ہوئی ہے اور وہ ہے ہر دو قدم ”احتیاط کیجیے آگے راستہ خطرناک ہے“ کا بورڈ لگا کر۔

لیکن ان ڈرائیور حضرات کی مہارت پہ یقین کر کے ہر سال برف باری دیکھنے کے لیے جانے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

یہ بات ذہن میں رکھیے کہ عوام جتنے زیادہ نفسیاتی اور جذباتی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں اتنا زیادہ تفریح کے مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اپنی تکلیف دہ روٹین سے جھنجھلائے اور فرسٹریٹڈ عوام جنازوں، مذہبی اجتماعات، عرس کے میلوں، قبروں کی زیارت ہر موقعے کو لاشعوری طور پہ تفریح کی طرح برتتے ہیں۔ یہ کچھ لمحات ان کی ذاتی زندگی کی گھٹن سے اسکیپ کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ پھر مری جانا اور برفباری دیکھنا تو بہرحال ایک معیاری اور منطقی تفریح کے زمرے میں آتا ہے۔

میں یقیناً اس نکتۂ نظر کی حامی ہوں کہ مری میں ان حالات کی ایک بڑی ذمہ داری ریاست پہ عائد ہوتی ہے۔ اور یہاں اسی پہ بات کروں گی کہ میں اس نکتۂ نظر کی حامی کیوں ہوں۔

جب تک ایک غلطی کسی ایک شخص کی ہو یہ انفرادی غلطی ہوتی ہے۔ لیکن جب ایک بڑی تعداد کسی مسئلے کا شکار ہو تو وہاں پہ ریاست خود بخود شامل ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ ایک جیسے بڑھتے حادثات میں اس کی ذمہ داری تھی کہ پیٹرن پہ توجہ دے اور بروقت انتظامی حوالے سے اقدامات کرے۔ انتظامی اقدامات میں ہمیشہ پابندی لگانا ضروری یا کافی نہیں ہوتا۔ پہلے آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ سہولیات اور وسائل بڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد جو کمی بیشی رہ جاتی ہے وہ ضروری پابندیوں سے کنٹرول کی جاتی ہے۔

ہر ہر جگہ مختلف حالات و حادثات پہ کام کرنے کے لیے ادارے موجود ہیں جو تنخواہیں اور فنڈز بھی لے رہے ہیں۔ جن کا کام یہی ہے کہ غیر متوقع حادثات پہ توجہ رکھیں اور انہیں بڑھنے سے پہلے روک تھام کریں۔

ایک ذمہ دار ریاست میں اگر ایک ہی جیسے دو سے تین واقعات ہو جاتے ہیں تو فوراً ان کے روک تھام کی تدابیر کی جاتی ہیں۔ مثلاً کسی علاقے میں کسی مخصوص ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا خودکشی کا کیس ہو تو سب سے پہلے وہاں رکاوٹ لگائی جائے گی کہ وہاں تک رسائی ممکن نہ رہے۔ دوسرے قدم پہ وہاں نگرانی شروع کی جائے گی۔ اگر کوئی شخص ایسے ارادے سے وہاں یا قرب و جوار میں نظر آیا تو اسے نفسیاتی مشاورت کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ اور اس بات پہ توجہ کی جائے گی کہ اگر یہ رجحان مزید افراد میں بھی نظر آ رہا ہے تو کون سے مسائل لوگوں کو اس سمت لے جا رہے ہیں کیوں کہ کسی ایک جگہ صرف نگرانی لگانے سے وہاں تو خودکشی نہیں ہوگی لیکن وہ شخص کسی اور جگہ ضرور جائے گا جہاں خودکشی کرسکے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سوشل کاونسلرز ہوتے ہیں جو ایسے مسائل میں گھر پہ جاکر مدد بھی فراہم کرتے ہیں۔

یہ مثال اس لیے دی کیوں کہ یہ انتہائی انفرادی نوعیت کا کیس سمجھا جاتا ہے جس میں کسی قسم کی ریاستی ذمہ داری نہیں سمجھی جاتی لیکن یہ ساری بات کرنے کا مقصد یہی ہے کہ جب ایک ہی جیسا مسئلہ ایک سے زیادہ افراد کے ساتھ بیک وقت ہو وہاں انتظامیہ کی ذمہ داری ہر صورت موجود ہوتی ہے۔

یہاں یہ کہنا کہ جانے والوں کو جانا ہی نہیں چاہیے تھا معاملات سے ناصرف لاعلمی کی دلیل ہے بلکہ غیر حساس رویہ بھی ہے۔ یہ بھی توجیہ پیش کی جا رہی ہے کہ آج کے دور میں جب ہر ایک کی معلومات تک رسائی ہے موسم دیکھتے ہوئے خود کو موت کے منہ میں ڈالنا بے وقوفی ہے۔ لیکن یہ دیکھیے کہ جب آپ کے ساتھ لاکھوں لوگ ہوں اور ہر سال تفریح کے لیے وہاں لاکھوں لوگ بحفاظت آتے جاتے ہوں تو یہ اندازہ کر پانا کہ اس دفعہ کا جانا ہلاکت خیز ہو گا بہت مشکل ہے۔ دوسری بات یہ ہماری غلط فہمی ہے کہ ہر ایک کی نئی ٹیکنالوجی اور معلومات تک رسائی ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد کو گوگل پہ اہم معلومات سرچ کرنا نہیں آتا۔ کیوں کہ ان کی روزمرہ زندگی میں انہیں اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پاکستان کی آبادی کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہے جہاں موبائل سگنل ہی مشکل سے پہنچتے ہیں انٹرنیٹ استعمال کرنا تو دور کی بات ہے۔

ہم میں سے اکثر اس غلط فہمی کا شکار ہوسکتے ہیں کہ فلاں حادثہ تو ہمارے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی غلط فہمی کا شکار یہ خطرہ مول لینے والے بھی تھے اور اسی غلط فہمی کا شکار وہ افراد بھی ہیں جو انہیں الزام دے رہے ہیں کہ انہیں نہیں جانا چاہیے تھا۔ کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ وہ کبھی ایسے کسی غیر یقینی صورت حال کا شکار نہیں ہوں گے۔ دنیا میں سب سے زیادہ اموات ٹریفک حادثات میں ہوتی ہیں لیکن پھر بھی لوگ روز گاڑیوں پہ سفر کرتے ہیں۔ پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں ٹرین کے حادثات بڑھ گئے ہیں لوگ پھر بھی اس پہ سفر کرتے ہیں۔ ( یہ الگ بات کہ یہاں بھی اتنے حادثات کے باوجود انتظامیہ کی طرف سے کوئی اقدامات نظر نہیں آرہے )

جس منطق کی بنیاد پہ مری جانا بے وقوفی تھی اس منطق کے بنیاد پہ روز گھر سے نکلنا بھی بے وقوفی ہے۔ کیوں کہ مری جانے والوں میں سے اکثریت کو اس بات کا سرے سے اندازہ ہی نہیں ہو گا کہ ان کے ساتھ کوئی حادثہ ہو سکتا ہے۔ نہ ان میں سے کئی کی بروقت اس معلومات اور ٹیکنالوجی تک رسائی ممکن ہوگی جس کی نشاندہی ان پہ الزام تراشی کرنے والا طبقہ کر رہا ہے۔ اس سوچ کے ساتھ وہاں جانے والے کہ موسم خراب ہے تو کیا ہوا ہمیں کچھ نہیں ہو سکتا والے بہرحال کم ہوں گے۔ اس کے باوجود ان میں سے کوئی مستحق نہیں تھا کہ غیر ذمہ دار انتظامیہ کی وجہ سے موت کے منہ میں جاتا۔ وہاں اگر باہر کے افراد کو نہیں جانا چاہیے تھا تو بھی یہ مت بھولیں کہ ان پہاڑوں پہ بھی انسان بستے ہیں جن کا روز انہیں پہاڑوں پہ آنا جانا ہے اور انہیں ان ہی آدھی ٹوٹی سڑکوں میں سفر کر کے انہیں زندہ رہنا ہے۔ سیاحوں کے لیے ہم کہہ دیتے ہیں انہیں جانا نہیں چاہیے تھا مقامیوں کے لیے کہہ دیتے ہیں انہیں عادت ہے لیکن یہ نہیں ماننا چاہتے کہ انفرا اسٹرکچر کو بہتر کرنا اور قدرتی آفات پہ بروقت اقدامات کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments