پاکستان کا تعلیمی اور کھیلوں کے میدان میں گرتا ہوا معیار


اگر ہم پاکستان کے کسی بھی سکول یا کالج کے اشتہاری بورڈ یا پمفلٹ پڑھ لیں تو ہمیں یہ بات مشترکہ طور پر نظر آئے گی کہ ہمارے ادارے کے پڑھے ہوئے بچوں کی بورڈ میں پوزیشنز آئی ہیں. اتنے نمبر آنے والے طالبعلم کو مفت داخلہ دیا جائے گا. اور پھر بچوں میں پڑھائی کے نام پر ایک ریس شروع ہو جاتی ہے. بچے صبح آٹھ بجے سکول کالج کے لیے جاتے ہیں اور واپس آکر تین چار بجے اکیڈمیوں کا رخ کرتے ہیں. اور پھر رات کے وقت اگلے دن کا سبق یاد کرتے ہیں اور اس طرح امتحانوں میں پچھلے پانچ سال کے پیپروں کو خوب رٹا لگا کر پیپر میں جا کے لکھ کے آجاتے ہیں. آج تک ایک بات سمجھنے سے ذہن قاصر ہے کہ آخر اتنے زیادہ نمبر لیکر لوگ جاتے کدھر ہیں. آپ کو ان میں نہ تو کوئی ایلون مسک نظر آتا ہے اور نہ ہی کوئی مستقبل کا رونالڈو نظر آتا ہے. اور نہ کوئی طالبعلم آئین سٹائن اور نہ ہی کوئی ابراہام لنکن نظر آتا ہے. ہاں البتہ مستقبل کے سی ایس ایس کرنے والے ضرور نظر آتے ہیں اور جو مقابلے کا امتحان پاس نہ کرسکے وہ کم از کم سرکاری نوکر بننے کی ضرور کوشش کرتا ہے اور جو بندہ کاروبار میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کو عوام کرپشن کی عینک سے دیکھتے ہیں
.
اگر بات کی جائے پرائمری اور ہائی سکول کی سطح پر تو جو اساتذہ کرام ریاضی جیسا مشکل سبجیکٹ پڑھاتے ہیں شروع سے لیکر آخر تک نہ تو استاد کو پتہ ہوتا ہے اور نہ ہی شاگرد کو کہ اس سبجیکٹ کا عملی طور پر کیا اطلاق ہے. انگریزی پڑھانے والے اکثر اساتذہ کرام خود بھی انگریزی صحیح سے بول نہیں پاتے اور نہ ہی ان کو انگریزی ادب کا صحیح سے پتہ ہوتا ہے. اسی لیے جب یہ طالبعلم مقابلے کے امتحان میں بیھٹتے ہیں تو انگریزی سبجیکٹ میں بری طرح ناکام ہو جاتے ہیں. جو لوگ کامیاب ہوتے ہیں وہ یا تو بڑے اداروں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں یا پھر ان کو اپنے گھر کا ماحول ہی ایسا ملتا ہے. اگر بات کی جائے مطالعہ پاکستان کی تو شروع سے لیکر آخر تک ایک ہی طرح کا کانٹینٹ پڑھایا جاتا ہے. مثال کے طور پر قائد کے چودہ نکات اور سطح مرتفع پوٹھوہار جیسے موضوع ہر کلاس میں پڑھائے جاتے ہیں. اگر کبھی کے کے عزیز کی کتاب تاریخ کا قتل پڑھی جائے تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ مطالعہ پاکستان میں کس قسم کی غلطیاں ہیں. بھگت سنگھ, راجہ رنجیت سنگھ اور سر گنگا رام کو اس لیے نہیں پڑھایا جاتا کہ وہ غیر مسلم تھے.
 اگر بات کی جائے اسلامیات کی تو ایک عرصہ تک عربی اور اسلامیات ایک ہی سبجیکٹ کے طور پڑھائے جاتے رہے ہیں. عربی نہ تو کبھی ہماری زبان تھی اور نہ ہو سکتی ہے. اسلامیات میں یا تو قرآن کی کچھ سورتیں پڑھا دی جاتی ہیں یا پھر احادیث لیکن اسلام کی آئیڈیالوجی اور مستقبل کے درپیش چیلنجز نہیں پڑھائے جاتے. طالبعلم کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اسلام میں فلسفہ معیشت اور سیاست کتنا اہم ہے.
 اگر بات کی جائے سائنس سبجیکٹس کی تو وہ بھی صرف سابقہ پانچ سالہ پیپر رٹ لینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتے اور پریکٹیکلز کے نمبرز تو کمرہ امتحان میں جانے سے پہلے ہی لگ چکے ہوتےہیں. کافی عرصہ پہلے تک لکڑی, لوہا, بجلی اور زراعت جیسے اختیاری سبجیکٹس ہوا کرتے تھے ان سبجیکٹس کا سوچ کے بندہ پریشان ہی ہو جاتا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ ساری عوام آگے جاکر صرف یہی شعبے اختیار کرے گی.
ایک عرصہ تک سکولوں اور کالجوں میں ہر طرح کے میچز ہوا کرتےتھے. ان میں صرف انہی طالب علموں کو حصہ لینے کی اجازت ہوتی تھی جو پڑھائی میں اتنے اچھے نہیں ہوتے تھے. مگر یہ شعبہ بھی اب زوال پذیر ہے. ایک وقت تھا کہ نوے کی دہائی میں پاکستان چار چار کھیلوں میں چیمپین ہوا کرتا تھا. اور اب اولمپکس اور دوسرے کھیلوں میں پاکستان کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چپھی ہوئی نہیں ہے. طالبعلم کے لیے جو وقت میدان میں جانے کا ہوتا ہے ٹھیک اسی وقت وہ اکیڈمی میں بیٹھا ہوتا ہے. اس حوالے سے اگر اشرافیہ کے لیے مختص اداروں کو دیکھا جائے تو ان کے لیے کسی نہ کسی سپورٹس میں حصہ لینا لازم ہوتا ہے مگر ان اداروں کی فیسیں صرف اشرافیہ کے لوگ ہی ادا کر سکتے ہیں. جبکہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں پڑھائی اور کھیل کو یکساں اہمیت حاصل ہے.
جب طالبعلم اس نمبر ریس سے نکل کر یونیورسٹی میں کسی سائنس سبجیکٹ میں داخل ہوتا ہے تو بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے. پاکستان کی زیادہ تر یونیورسٹیوں میں سالانہ امتحان کا طریقہ کار رائج ہے. دس چیپٹرز میں سے چھ پڑھ کر امتحان دیں اور آپ فرسٹ ڈویژن لے کر پاس ہو جاتے ہیں اور پریکٹیکلز کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہوتا ہے. پھر جو طالبعلم آگے نہیں پڑھنا چاہتے وہ سرکاری نوکری کو اپنا مقصد حیات سمجھتے ہیں اور جو طابعلم ایم فل یا پی ایچ ڈی کی طرف جاتے ہیں ان کی کوشش بھی صرف یہیں تک محدود ہوتی ہے کہ کسی طرح ان کا نام انٹرنیشنل جرنل میں آجائے اور ان کے سپروائزرز کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح جلد سے جلد پروفیسر بنا جائے.
سنگا پور اور جاپان کی اتنی آبادی نہیں ہے جس حساب سے ان کے ہاں سائنسدان نکلتے ہیں. اپنے دشمن ملک جن سے ہم نے غزوہ ہند لڑنا ہے آج ان کے ملک کے کافر جنہوں نے مرنے کے فوری بعد دوزخ میں جانا ہے آج ان کے لوگ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سی ای اوز ہیں. ناسا میں امریکیوں کے بعد انڈینز کی تعداد باقی کسی بھی ملک سے زیادہ ہے. کچھ عرصہ پہلے بھارت کا ایک سپیس مشن ناکام ہوا تو ہم ایسے خوش ہورہے تھےکہ جیسے ہم نے چاند پر اپنے گھر بسا لیے ہوں. ہم کووڈ ویکسین خود نہیں بنا سکتے تو یہ کہتے ہیں کہ بل گیٹس ہمارے اندر چپ لگا کر ہمیں نامرد کرنا چایتا ہے. آج گلف میں تمام بڑے بڑے کاروباروں پر بھارتی براجمان ہیں اور ہم جنت کے پیدائشی حقداروں کا کہنا ہے کہ عرب ممالک ہمیشہ کافروں کو سپورٹ کرتے ہیں اور ان کے لیے مندر بناتے ہیں.
کچھ عرصہ پہلے کیپٹن صفدر نے قومی اسمبلی میں یہ قرارداد پیش کی کہ قائداعظم یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کا نام اس لیے بدلا جائے کہ اس کا نام ایک قادیانی کے نام پر تھا. یہ وہی قادیانی تھا جو محض اپنے مذہب کی وجہ سے ملک سے باہر گوروں کو فائدہ دے رہا تھا اور پاکستان کے لیے پہلی دفعہ نوبل پرائز لیکر آیا تھا. گورنمنٹ سائنس کالج لاہور میں ڈاکٹر صاحب کی تصویر پر کچھ طالبعلموں نے سیاہ رنگ کر دیا گیا تھا. اب یہ نہیں پتہ کہ سائنس کالج کے طالبعلموں نے سائنسدان کی تصویر سیاہ کی تھی یا پھر سائنس کی.
اگر بات کی جائے کتاب دوستی کی تو پاکستان کی جتنی بھی جامعات ہیں ان میں بلاشبہ ذرائع بہت محدود ہیں. حکومت اتنے وسائل فراہم نہیں کرتی کہ وہ لوگ تحقیق کے شعبے میں اپنا لوہا منوا سکیں مگر پھر بھی حکومت کئی سکالرز کو سکالرشپ پر ترقی یافتہ ممالک میں بھجواتی ہے . ان میں سے کئی لوگ تو واپس ہی نہیں آتے اور جو واپس آتے ہیں وہ اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ وہ آکر کوئی ٹیکسٹ بک لکھیں اور بطور ریفرنس کوٹ کی جا سکے. اس کے مقابلے میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کی کتابیں میڈیکل, انجینرنگ اور دوسری آرٹس کی فیلڈز میں پڑھائی جاتی ہیں. ایسا نہیں ہے کہ ہمارے یونیورسٹی کے اساتذہ کرام کتاب نہیں لکھتے لیکن ان کا مقصد صرف امتحان پاس کرنے کے لیے ہوتا ہے.
اگر بات کی جائے درسی کتابوں کے علاوہ دوسری کتابوں کی اس میں بھی سراسر بحرانی کیفیت ہے. عام طور پر پاکستان میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ جو کتابیں پڑھتا ہے وہ پاگل ہو جاتا ہے. پاکستان میں بہت کم ایسے مصنفین ہیں جو کہ خود تحقیق کریں. مثال کے طور پر سید سبط حسن, ڈاکٹر مبارک علی, پروفیسر حمزہ علوی, مولانا مودودی اور کچھ دوسرے حضرات بہت اچھی تحقیق کرتے ہیں لیکن اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو صرف کاپی پیسٹ کرتے ہیں. یقینی طور پر فکشن, شاعری اور ادب میں بہت بڑے بڑے نام موجود ہیں مگر مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ علم دوستی سے کوسوں دور ہے. دنیا کے جتنے بڑے لوگ گزرے ہیں ان میں کتاب پڑھے کا رجحان لازمی طور پر ہوتا ہے. انقلاب فرانس روسو اور والٹئر, انقلاب روس کارل مارکس اور انقلاب ایران آیت اللہ خمینی کی کتابوں کی وجہ سےہی شروع ہوا تھا. پاکستان کو صرف دشمن کے بچوں کو نہیں پڑھانا بلکہ اپنے لوگوں کو بھی پڑھانا ہے اور اپنے بچوں کو سپورٹس کی طرف بھی راغب کرنا ہوگا. تب ہی کوئی ایلون مسک, محمد علی جناح, بل گیٹس, کارل مارکس اور ابراہام لنکن جیسا انسان بن پائےگا جو دنیا کی سمت اور سوچ بدلنے کی اہلیت رکھتے ہوں گے.

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments