نواز اور شہباز! خدا کے لیے اب آ بھی جاؤ


آپ پوری دنیا کے کسی بھی ملک چلے جائیں تو وہاں پر عوام کی ترجیحی بنیادوں پر مدد کرنے والی حکومتوں کے خلاف مختلف طرز کی جھوٹی اور من گھڑت کہانیاں سننے کو ملے گی۔ یہ کہانیاں وقتی طور پر سوشل میڈیا و پرنٹ میڈیا کے ذریعے عوام میں پھیلائی جاتی ہیں تاکہ عوام مسلسل منفی تاثرات کو پڑھ کر اس شخص سے نفرت کرنا شروع ہو جائے۔ یہ کہانیاں بعض اوقات خود بخود ہی جھوٹی ثابت ہو جاتی ہیں یا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان جھوٹی کہانیوں سے پردہ اٹھنا شروع ہو جاتا ہے اور عوام آہستہ آہستہ سچ سے آشنا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ یہی سب کچھ ہمیں 2018ء کے انتخابات میں دیکھنے کو ملا اور آج وہی قوم ان دو بھائیوں کو یاد کر رہی ہے جن کو غدار بنا کر قوم کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔
جب سے موجودہ حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے تو اس کے بعد پاکستان آئے روز کسی نا کسی بڑے سانحے سے گزر رہا ہے اور اپنے آپ کو گیم چینجر کے طور پر قوم کے سامنے پیش کرنے والوں کو بھی قدرت نے بہت جلد بےنقاب کر دیا ہے اور اب حالات یہ ہیں کہ جب بھی کوئی صحافی، بلاگر یا سیاستدان ان گیم چینجرز کا دفاع کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قوم بغیر کسی ڈر و خوف کے ان تمام مہروں کو انکے بچوں کا دودھ یاد کروا دیتی ہے اور جب وہ مہرے عوامی جگہوں پر نظر آ جائیں تو قوم خوب انکی درگت بناتی ہے۔
اس حکومت کے قیام کے بعد عسکری و خفیہ اداروں کے سربراہان نے اپنے چہروں پر مسکراہٹ ظاہر کرکے مخالفین کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ ہم نے ن لیگ کو دس سال کے لیے حکومت سے آؤٹ کر دیا ہے اور نواز شریف و شہباز شریف دس سال تک پاکستان میں حکومت نہیں کرسکتے۔ یہاں پر مجھے داناؤں کا ایک قول یاد آگیا کہ “جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں اور جو برستے ہیں وہ گرجتے نہیں۔” ریاستی اداروں کے سربراہان نے گرجنے والے شخص کی باتوں پر اعتبار کرکے 2018ء کا الیکشن چوری کیا اور اس کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور دے دی، اس شخص کی پبلسٹی کے لیے کچھ میڈیا چینلز اور صحافیوں کا سہارا بھی لیا گیا تاکہ اگر یہ مہرہ کوئی غلط کام کرے تو اس کا ملبہ ماضی کی حکومتوں پر ڈالا جائے اور انہی صحافیوں کے متعلق حالیہ دنوں میں مریم نواز اور پرویز رشید کی لیک آڈیو کال سننے کو ملی اور جب میں نے ان صحافیوں کی پروفائل کو چیک کیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ جن نام نہاد صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے یقیناً یہ وہی لوگ تھے جو اس حکومت کے ہر برے کام کو اچھا اور بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے اور سیاستدانوں کو صبح و شام غدار ثابت کرتے تھے۔ یہ بھی قدرت کا ایک طریقہ ہوتا ہے کہ جس آڈیو ٹیپ کو اے آر وائے نیوز  نے مریم نواز کے خلاف استعمال کرنا تھا بدقسمتی سے وہ آڈیو ٹیپ انکے اپنے ہی صحافیوں کے خلاف استعمال ہوگئی کیونکہ اے آر وائے نیوز کے اینکرز  نے ہمیشہ یہ الزام لگایا کہ جیو نیوز ن لیگ کے بیانیے کو تقویت بخشتا ہے لیکن اس آڈیو ٹیپ میں مریم نواز جیو نیوز کی رپورٹنگ سے بھی ناخوش تھی جس سےصاف ظاہر ہوگیا کہ اے آر وائے کا ہر الزام جھوٹا ثابت ہوگیا۔
اس معاملے پر مختصر رائے کا اظہار کرنے کے بعد میں اپنے عنوان کی طرف واپس آتا ہوں کہ جب بھی آپ کسی کو اپنے گھر کا سربراہ بنانے لگیں تو اس میں ایک چیز کو ضرور دیکھ لیا کریں کہ جس طرح یہ شخص اپنی باتوں سے دوسروں کے کان کو خوش کرتا ہے آیا کہ عملی طور پر بھی یہ میدان میں قدم جما سکتا ہے یا نہیں۔ ہمارا المیہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ ہم اپنے محسنوں کی عزت نہیں کرتے اور بڑے بڑے خواب دکھانے والوں کی باتوں میں بہت جلد آ جاتے ہیں۔ جب وزیراعظم عمران خان نے اپنا حلف اٹھایا تھا تو انہوں نے کہا کہ میں ہر ہفتے پارلیمنٹ میں ممبران کے سوالات کے جوابات دوں گا، ہم نے انکی کہی ہوئی بات پر اعتبار کر لیا اور دل ہی دل میں یہ سوچنا شروع کر دیا کہ یہ ملک کا پہلا وزیراعظم ہوگا جو پارلیمنٹ کی عزت و تکریم میں اضافہ کرے گا لیکن جب وقت گزرتا گیا تو ہم انتظار کرتے رہ گئے اور ہوا وہی جو پہلے سے ہوتا آ رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنی بات پر قائم نہ ہوسکے۔
اس کے بعد سانحہ ساہیوال ہماری نظروں کے سامنے سے گزرا اور ہم نے ایک دفعہ پھر عمران خان پر اعتماد کا اظہار کیا کہ شاید عمران خان اس کیس کو ماڈل ٹاؤن کی طرز پر ہینڈل نہیں کریں گے لیکن جب وقت گزرتا گیا تو ہم انتظار کرتے رہ گئے اور ہوا وہی جو پہلے سے ہوتا آ رہا ہے کہ سانحہ ساہیوال کے تمام نامزد ملزمان بری ہوگئے۔ اس کے بعد کورونا حالات کو جس طرح غیر ذمہ داری کیساتھ ہینڈل کیا گیا اور بیرونی ممالک سے ملنے والی امدادی رقم کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا اور اس میں چالیس ارب روپے کی کرپشن کی گئی اور ہم ایک دفعہ پھر آرمان لگا کر بیٹھ گئے کہ خان صاحب ماضی کی حکومتوں سے قدرے مختلف فیصلے کریں گے لیکن جب وقت گزرتا گیا تو ہم انتظار کرتے رہ گئے اور ہوا وہی جو پہلے سے ہوتا آ رہا ہے کہ سارے ڈاکو اور کرپٹ لوگ اسکی اپنی ہی حکومت میں بیٹھ کر سرکاری پیسوں کا بےدریغ استعمال کر رہے ہیں۔
اس کے بعد آٹا چوری، چینی چوری، ادویات چوری، مالم جبہ کرپشن کیس سمیت سینکڑوں کیسز میڈیا کی زینت بنے اور ہم انتظار کرتے رہ گئے کہ کب خان صاحب ان چوروں کے خلاف کاروائی عمل میں لائیں گے لیکن ہوا وہی جو پہلے سے ہوتا آ رہا ہے کہ سارے کرپٹ لوگ سرکاری پیسوں پر عیاشیاں کر رہے ہیں۔ اس کے بعد سانحہ موٹروے پیش آیا تو ہم نے پھر دل کو تسلی دی کہ خان صاحب اس کیس کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں گے اور ایک اعلی مثال قائم کریں گے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پتہ یہ چلا کہ حکومت نے اس متاثرہ عورت کو ہی موردالزام ٹھہرا دیا کہ وہ اکیلی موٹروے پر سفر کرنے کیوں نکلی تھی؟
اب حالیہ دنوں میں ہمیں سانحہ مری دیکھنے کو ملا اور جس وقت یہ سانحہ رونما ہو رہا تھا تو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار دیگر وفاقی و صوبائی وزراء کے ساتھ پارٹی تنظیم سازی میں مصروف تھے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تو ٹویٹ داغ دیا کہ مری میں ایک لاکھ گاڑیاں داخل ہوگئی ہیں اور سو سے زائد کمپنیوں نے نو سو انتیس ارب روپے کا منافع کمایا ہے لیکن جب یہ حادثہ پیش آیا تو وہ منافع بخش کمپنیاں کہاں چلی گئی تھیں؟ کیا وہ صرف سیاحوں کو لوٹنے کے لیے آئی تھیں اور این ڈی ایم اے جو اربوں روپے کا بجٹ وصول کرتا ہے اسکی مشینری اور انتظامات کہاں چلے گئے تھے؟ لیکن افسوس سول و ضلعی انتظامیہ کے علاوہ کوئی دوسرا ادارہ اس وقت تک جائے وقوعہ پر نہیں پہنچا جب تک بیس، پچیس سیاحوں کی اموات نہیں ہوگئی تھی۔
مجھے اس دردناک سانحے کو دیکھ کر شہباز شریف اور نواز شریف کی حکومت کی یاد ستانے لگی کہ جب سیاحت کا وقت قریب آتا تو شہباز شریف بذات خود ان تمام معاملات کو باریک بینی کے ساتھ حل کرتے تاکہ کوئی بڑا سانحہ درپیش نہ آسکے۔ البتہ شہباز شریف کے دور میں ہی پنجاب حکومت نے پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا حکومت کی مدد کی تھی جب گلیات میں سینکڑوں گاڑیاں برفباری کی وجہ سے پھنس گئی تھیں تو ساری مشینری پنجاب حکومت کی استعمال کی گئی۔ مسلم لیگ ن نے پاکستان کے لیے بہت کام کیا ہے جس کی وجہ سے آج قوم کو نواز شریف اور شہباز کی یاد ستانے لگی ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ نواز اور شہباز! جانے کی باتیں ہوئی پرانی۔۔۔ خدا کے لیے اب آ بھی جاؤ۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments